بھارت: پجاری کی مسلم خواتین کو اغوا اور ریپ کی کھلی دھمکی

ویب ڈیسک

سیتاپور – مندر کے ایک پجاری نے مذہب اسلام کی توہین کے ساتھ ہی مسلم خواتین کو ریپ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی

بھارتی ریاست اتر پردیش کی پولیس نے اس وڈیو کی تفتیش کا حکم دیا ہے، جس میں مندر کا ایک ہندو پجاری مسجد کے دروازے پر، اپنے پیروکاروں کے ہجوم سے خطاب کے دوران مسلم خواتین کو اغوا کرنے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرنے کی کھلی دھمکی دیتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے

یہ واقعہ ضلع سیتا پور کے تاریخی قصبے خیر آباد کا ہے، جو اپنے دور کے معروف عالم دین اسماعیل خیر آبادی کا آبائی قصبہ تھا۔ دارالحکومت لکھنؤ سے یہ محض سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے

اس وڈیو میں خیر آباد مندر کے ایک مہنت کو گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے مسجد کے سامنے لاؤڈ اسپیکر پر کہتے ہوئے سنا جا سکتا کہ اگر، ’’کوئی مسلمان علاقے میں کسی لڑکی کو ہراساں کرتا ہے، تو پھر میں مسلم خواتین کو اغوا کر کے ان کا کھلے عام ریپ کروں گا۔‘‘ اس پر وہاں پر جمع مہنت کے سینکڑوں پیروکار ’’جے شری رام‘‘ کا زوردار نعرہ لگاتے ہیں

اس وڈیو میں مہنت اپنے قتل کی سازش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلمانوں اوران کے مذہب کی تذلیل کے لیے بہت سے ایسے نازیبا اور تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں دہرانا بھی مناسب نہیں ہے

وڈیو میں مہنت کے ساتھ ہی وردی میں ایک پولیس افسر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، تاہم وہ بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ مہنت جی کہتے ہیں، ’’مسلمانوں صحیح سے رہنا ہے تو خیر آباد میں رہو، کیونکہ جلدی ہی یہ شری رام نگر بننے والا ہے۔‘

وائرل وڈیوز کی تحقیق کرنے والی ایک معروف ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے ایک ایڈیٹر محمد رضوان نے یہ وڈیو شیئر کی اور کہا کہ دو اپریل کو یہ واقعہ پیش آیا تھا تاہم ابھی تک حکام کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے

اس کے جواب میں سیتا پور کی پولیس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک سینیئر افسر اس کی تفتیش کر رہا ہے اور حقائق سامنے آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی

چند روز قبل ہی یو پی کے ضلع غازی پور میں بھی ایسے ہی سخت گیر ہندو تنظیموں کے بہت سے کارکنان افطاری سے قبل ایک مسجد میں داخل ہو گئے تھے اور اس کے میناروں پر چڑھ کر، اپنا بھگوا پرچم لہرانے کے ساتھ جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے حملے بہت تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کہیں پر گوشت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے تو کہیں پر مسجد پر نصب لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی مہم شروع کی جا رہی ہے۔ آئے دن ہندو تنظیمیں اب مسلمانوں کی کھل کر مخالفت اور ان کے بائیکاٹ کی کال دے رہی ہیں

لکھنؤ کے ایک سینیئر صحافی پرویز احمد کہتے ہیں کہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اور اب یہ سب ہر روز ہونے لگا ہے

انہوں نے کہا، ’’وہ اپنی طاقت دکھانا چاہتے۔ وہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم اتنی اکثریت اور طاقت میں ہیں کہ ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور ہمارے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو گی‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کھل کر سامنے آنے کا مطلب یہی ہے کہ، ’’حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ اگر یہی بات کسی مسلمان نے کی ہوتی تو وہ اب تک جیل میں ہوتا۔ سینکڑوں مسلمان لڑکے پہلے ہی سے جیل میں بند ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے۔ جب انصاف کا نظام رک جاتا ہے، تو پھر وہی مشکلات آتی ہیں، جس کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالات کافی بگڑے ہوئے ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ اب حکومتی افسر اور نوکر شاہ بھی ریڈیکل ہندو بنتے جا رہے ہیں۔‘‘

ابھی مت مانو میری بات، دو تین سال رک جاؤ، پھر دیکھ لینا..

بھارت کی بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا گیا ہے

حالیہ واقعات کے تناظر میں راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندوستان پہلے ایک ملک ہوا کرتا تھا، اب اس میں الگ الگ ملک بنا دیے گئے ہیں اور سب کو ایک دوسرے سے لڑایا جا رہا ہے

انہوں نے کہا ”جب یہ درد آئے گا تو تشدد کے واقعات سامنے آئیں گے۔ ابھی مت مانو میری بات، دو تین سال رک جاؤ، پھر دیکھ لینا۔‘‘

اس سے قبل مدھیہ پردیش واقعہ پر بھی راہول گاندھی کا بیان سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا کہ نئے بھارت کی حکومت سچ کہنے اور سننے سے ڈرتی ہے

واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کے ایک ضلع میں بی جے پی رکن اسمبلی کے خلاف خبر لکھنے پر لاک اَپ میں صحافیوں کے کپڑے اتروائے جانے سے متعلق راہل گاندھی کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ”لاک اَپ میں جمہوریت کے چوتھے ستون کا چیر ہرن! یا تو حکومت کی گود میں بیٹھ کر ان کی تعریفیں کرو، یا جیل کے چکر کاٹو۔ ’نئے بھارت‘ کی حکومت سچ سے ڈرتی ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close