دنیا کا مستقبل: اگلا ’سپر برِ اعظم‘ کس طرح بنے گا؟

رچرڈ فشر

تقریباً پانچ سو سال پہلے، فلیمش نقشہ نگار گیراڈس مرکیٹر نے دنیا کے اہم ترین نقشوں میں سے ایک تیار کیا

عالمی نقشہ بنانے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی اور یہ کوئی اتنی درست بھی نہیں تھی۔ مثلاً اس میں آسٹریلیا موجود ہی نہیں ہے اور شمالی اور جنوبی امریکا کو بھی صحیح طریقے سے نہیں دکھایا گیا

مرکیٹر کی غلطیوں کو ان کے بعد آنے والوں نے درست کرنے کی کوشش کی اور پہلے سے بہتر نقشے بنائے، جن میں ان کے خاکے سے پیدا ہونے والے نصف کرہ اور عرض البلد کے درمیان تعصبات کو بھی درست کیا گیا

لیکن مرکیٹر کا نقشہ، ان کے سولہویں صدی کے ہم عصروں کے تیار کردہ دیگر نقشوں کے ساتھ، زمینی سطحوں کی ایک حقیقی عالمی تصویر کو ظاہر کرتا ہے، ایک ایسا خیال، جو تب سے لوگوں کے ذہنوں میں برقرار ہے

سنہ 1569 میں مرکیٹر کا بنایا ہوا اصل نقشہ

مرکیٹر کو معلوم نہیں تھا کہ براعظموں کی ترتیب ہمیشہ ایسی نہیں رہی کیوں کہ وہ ٹیکٹونک پلیٹس کے نظریے کی تصدیق ہونے سے تقریباً چار سو سال پہلے کے دور میں موجود تھے

نقشے پر سات براعظموں کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایک ہی جگہ جمے ہوئے ہیں۔ صدیوں سے انسان ان علاقوں کے حصوں پر اپنا قبضہ ثابت کرنے کے لیے اس مفروضے پر جنگیں اور امن قائم کرتے رہے ہیں کہ ان کی اور ان کے پڑوسیوں کی زمین ہمیشہ سے یہاں تھی اور ہمیشہ رہے گی

تاہم، زمین کے نقطہ نظر سے، براعظم ایک تالاب میں بہتے ہوئے پتوں کی طرح ہیں۔ اور انسانی خدشات پتے کی سطح پر بارش کی بوندیں ہیں۔ سات براعظم کبھی ایک ہُوا کرتے تھے، جسے ایک سپر براعظم یا پینگیا کہا جاتا تھا۔ اور اس سے پہلے تین ارب سال کے عرصے پر محیط دوسرے براعظموں کے ثبوت موجود ہیں، جن میں پینوشیا، روڈینیا، کولمبیا/نونا، کینورلینڈ اور ار شامل ہیں

ماہرین ارضیات جانتے ہیں کہ براعظم چکروں میں منتشر اور اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہم ایسے ہی ایک چکر کے آدھے راستے میں ہیں۔ لہٰذا زمین کے مستقبل میں کس قسم کا سپر براعظم ہو سکتا ہے؟ جس زمین کے حجم (لینڈ ماس) کو ہم بہت طویل مدت سے جانتے ہیں، اسے دوبارہ ترتیب کیسے دیا جائے گا؟

یہ پتہ چلتا ہے کہ کم از کم چار مختلف راستے ہمارے سامنے آ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پر رہنے والے جاندار ایک دن ایک بہت ہی مختلف سیارے پر رہائش پذیر ہوں گے، جو ایک اجنبی دنیا کی طرح نظر آتا ہے

لزبن یونیورسٹی میں ماہر ارضیات جوآؤ ڈوارتے کے لیے زمین کے مستقبل کے براعظموں کی کھوج کا راستہ ماضی میں ایک غیر معمولی واقعے سے شروع ہوا تھا۔ وہ ایک زلزلہ تھا، جو نومبر 1755 میں ہفتہ کی صبح پرتگال میں آیا تھا

یہ گذشتہ ڈھائی سو سالوں میں آنے والے سب سے طاقتور زلزلوں میں سے ایک تھا، جس میں ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے اور بحر اوقیانوس میں سونامی آئی تھی۔ جو چیز اسے خاص طور پر عجیب بناتی تھی، وہ اس کا مقام تھا۔ ڈوارتے کہتے ہیں کہ ’آپ کو بحر اوقیانوس میں بڑے زلزلے نہیں ملنے چاہیئں۔ یہ عجیب تھا۔‘

اس پیمانے کے زلزلے عام طور پر بڑے سبڈکشن زونز پر یا ان کے قریب آتے ہیں، جہاں سمندری پلیٹیں براعظموں کے نیچے ڈوب جاتی ہیں اور گرم لاوے میں پگھل کر ختم ہو جاتی ہیں۔ ان میں تصادم اور تباہی شامل ہے۔ سنہ 1755 کا زلزلہ، تاہم، ایک ’غیر فعال‘ باؤنڈری کے ساتھ ہوا تھا، جہاں بحر اوقیانوس کے نیچے موجود سمندری پلیٹ یورپ اور افریقہ کے براعظموں میں آسانی سے ضم ہو گئی تھی

سنہ 2016ع میں ڈوارتے اور ان ساتھیوں نے ایک فرضی نظریہ پیش کیا: شاید ان پلیٹوں کے درمیان لگے ٹانکے کھل رہے ہوں، اور بڑے پیمانے پر پھٹنے کا وقت آ گیا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک قسم کا متعدی طریقہ کار ہو سکتا ہے۔‘ یا گاڑی کی ونڈ اسکرین میں دو چھوٹے سوراخوں کے درمیان شیشے کے ٹوٹنے جیسا۔ اگر ایسا ہے تو، بحیرہ روم سے مغربی افریقہ کے ساتھ پھیلنے کے لیے ایک سبڈکشن زون تیار ہو سکتا تھا اور شاید آئرلینڈ اور برطانیہ تک جاتا ہو، اور ان خطوں میں آتش فشاں لاتا ہو، پہاڑ بناتا ہو اور زلزلے لاتا ہو

ڈوارتے کو لگا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بحر اوقیانوس کے آخرکار بند ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور اگر بحرالکاہل کا بھی بند ہونا جاری رہا ہے، جو پہلے ہی اس کے گرد ’رنگ آف فائر‘ کے ساتھ ہو رہا ہے، تو آخر کار ایک سپر براعظم بن جائے گا۔ انھوں نے اسے اوریکا کا نام دیا، کیونکہ اس کے مرکز میں آسٹریلیا اور امریکا کے سابقہ ​​لینڈ ماس جمع ہوں گے۔

یہ کچھ اس طرح نظر آئے گا:

اگر بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل بند ہو جاتے ہیں تو سپر برِ اعظم اوریکا بن جائے گا

اوریکا کے لیے اپنی تجویز شائع کرنے کے بعد ڈوارتے مستقبل کے دیگر منظرناموں کے بارے میں سوچنے لگے۔ بہر حال، یہ واحد براعظمی ٹریجیکٹری یا مدار نہیں تھا جسے ماہرین ارضیات نے تجویز کیا تھا

انہوں نے ویلز کی بنگور یونیورسٹی میں سمندری ماہر میتھیاس گرین کے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔ ان دونوں کو احساس ہوا کہ انھیں ڈیجیٹل ماڈل بنانے کے لیے کسی کمپیوٹیشن کے ماہر کی ضرورت ہے
وہ بتاتے ہیں ”اس شخص کو تھوڑا سا خاص ہونا چاہیے تھا، جسے کسی ایسی چیز کا مطالعہ کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہو جو انسانی زندگی میں کبھی نہیں ہوگا“

یہ خاص شخص ان کی ساتھی ہانا ڈیوس نکلیں، جو لزبن یونیورسٹی کی ایک اور ماہر ارضیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”میرا کام ماضی کے ماہرین ارضیات کی ڈرائنگ اور خاکوں کو کسی ایسی چیز میں تبدیل کرنا تھا جو مقداری، جغرافیائی حوالے اور ڈجیٹل فارمیٹ میں ہو“ خیال یہ تھا کہ ایسے ماڈل بنائے جائیں، جنہیں دوسرے سائنس دان آگے بڑھا سکیں اور بہتر کر سکیں

لیکن یہ اتنا آسان اور سیدھا کام بھی نہیں تھا۔ ڈیوس کہتی ہیں ”ہم جس چیز کے بارے میں گھبرا رہے تھے، وہ یہ ہے کہ یہ ایک ناقابل یقین حد تک تخلیقی موضوع ہے۔ یہ کسی باقاعدہ سائنسی مقالے کی طرح نہیں ہے۔ ہم کہنا چاہتے تھے، ٹھیک ہے، ہم پلیٹ ٹیکٹونکس کے بارے میں چالیس یا پچاس سال کے بعد اتنا کچھ سمجھتے ہیں۔ اور ہم مینٹل ڈائنامکس، اور سسٹم کے دیگر تمام اجزاء کے بارے میں اتنا سمجھتے ہیں۔ ہم اس علم کو مستقبل میں کس حد تک لے جا سکتے ہیں؟“

اس سے چار منظرنامے سامنے آئے۔ اوریکا کا مزید تفصیلی ماڈل بنانے کے ساتھ ساتھ، انہوں نے تین دیگر امکانات پر کام کیا، ان میں سے ہر ایک اب سے تقریباً بیس سے پچیس کروڑ سال بعد کا منظر پیش کر رہا تھا

پہلا یہ تھا کہ اگر یہ سب اسی طرح جاری رہا تو کیا ہو سکتا ہے: بحر اوقیانوس کھلا رہتا ہے اور بحرالکاہل بند ہو جاتا ہے۔ اس منظر نامے میں، نئے بننے والے سپر براعظم کو نووپنگیا کہا جائے گا۔ ڈیوس کہتی ہیں کہ ’جو کچھ ہم اب سمجھتے ہیں اگر اس پر ہی اسے مبنی رکھا جائے تو یہ سب سے آسان اور سب سے زیادہ قابل فہم ہے۔‘

اگر وہ ٹیکٹونک کارروائی اسی طرح جاری رہتی ہے جس طرح ہمیں پتہ ہے تو نووپینگیا بن جائے گا

تاہم، مستقبل میں ایسے ارضیاتی واقعات بھی ہوسکتے ہیں جو مختلف ترتیب کا باعث بن سکتے ہیں

اس کی ایک مثال ’آرتھو ورژن‘ جیسا عمل ہے، جس میں بحر منجمد شمالی بند ہو جاتا ہے اور بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کھلے رہتے ہیں۔ یہ ٹیکٹونک کے پھیلاؤ کے غالب رجحانات کو تبدیل کرتا ہے، اور براعظم شمال کی طرف بڑھتے ہیں، یہ تمام قطب شمالی کے ارد گرد اکٹھے ہوتے ہیں، ما سوائے انٹارکٹیکا کے۔

اس منظر نامے میں بننے والے برِاعظم کو اماسیا کہتے ہیں:

برِ اعظموں کے شمال کی طرح بڑھنے کی وجہ سے اماسیا بنے گا

آخر میں، یہ بھی ممکن ہے کہ بحر اوقیانوس میں پھیلنے والی سمندر کی تہہ سست ہو جائے۔ سمندر کے وسط میں، دو پلیٹوں کے درمیان انھیں علیحدہ کرنے والا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہے، جو آئس لینڈ سے ہوتا ہوا ’جنوبی سمندر‘ تک جاتا ہے۔ یہاں، نیا لیتھوسفیئر بن رہا ہے، کنویئر بیلٹ کی طرح اندر سموتا ہوا۔ اگر یہ پھیلاؤ سست ہو جاتا ہے یا رک جاتا ہے، اور اگر امریکہ کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ ایک نئی ذیلی پلیٹ کی باؤنڈری بنتی ہے، تو آپ کو پینگیا الٹیما نامی ایک سپر براعظم ملے گا، جو بہت بڑی مرجانی چٹانوں کے جزیرے کی طرح لگتا ہے:

پینگیا الٹیما کو ابھی بھی ایک بڑے اوقیانوس نے گھیرا ہوا ہے

ان چار ڈجیٹل ماڈلز کا مطلب یہ ہے کہ ماہرین ارضیات کے پاس اب دوسرے نظریات کو جانچنے کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر، منظرنامے سائنسدانوں کو جواروں پر مختلف براعظمی انتظامات کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ گہرے مستقبل کی آب و ہوا پر بھی، کہ ایک بڑے سمندر اور دیوہیکل لینڈ ماس والی دنیا میں موسم کیسا ہو گا؟

ڈوارتے کہتے ہیں کہ سپر برِ اعظم کی آب و ہوا کا ماڈل پیش کرنے کے لیے ’آپ آئی پی سی سی (انٹرگورنمینٹل پینل آن کلائیمیٹ چینگ) کے ماڈلز استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایسا کرنے کے لیے بنائے ہی نہیں گئے۔ آپ ان متغیرات کو تبدیل نہیں کر سکتے جو آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

زمین کے مستقبل کے سپر براعظموں کے ماڈل بھی سیاروں کی آب و ہوا کو سمجھنے کے لیے ایک پراکسی کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ ڈیوس کہتی ہیں کہ ’مستقبل کی زمین مکمل طور پر اجنبی ہے۔ اگر آپ اوریکا یا نووپینگیا کے اوپر مدار میں ہوں تو شاید آپ اسے زمین کے طور پر نہ پہچانیں، بلکہ کوئی اور ہی سیارہ سمجھیں گے جس کے رنگ ایک جیسے ہیں۔‘

اس بصیرت نے تینوں کو ناسا گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ فار سپیس سٹڈیز کے ماہر طبیعیات مائیکل وے کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے اپنے جیولوجیل ٹائم سکیل کی مختلف حالتوں کا نمونہ بنا کر یہ مطالعہ کرنے کی کوشش کی کہ ان کا اثر اجنبی دنیاؤں پر کیا ہوتا ہے

مائیکل کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس کتنی مثالیں ہیں کہ معتدل آب و ہوا کس طرح نظر آتی ہے، اگر ایمانداری سے کہیں تو صرف ایک مثال ہے: اور وہ ہے زمین، لیکن ہمارے پاس زمین وقت کے ذریعے آئی ہے۔ ہمارے پاس ماضی کے منظرنامے ہیں، لیکن مستقبل کی طرف جانے اور مستقبل کے لیے ان شاندار ٹیکٹونک ماڈلز کے استعمال سے ہمیں اپنے مجموعہ کے لیے ایک اور مجموعہ مل جاتا ہے۔‘

آپ کو اس طرح کے ماڈلز کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ دور دراز سے ممکنہ طور پر رہنے کے قابل سیاروں کا تجزیہ کرتے وقت کیا تلاش کرنا ہے۔

مثال کے طور پر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا کسی سیارے کا براعظمی چکر ہوتا ہے، کیونکہ زندگی کی موجودگی اور فعال پلیٹ ٹیکٹونکس شاید اچھی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔ براعظمی انتظام مائع پانی کے امکان کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ آپ براعظموں کو دوربینوں کے ذریعے نہیں دیکھ سکتے، اور ماحول کی ترتیب کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

اجنبی دنیاؤں میں برِاعظموں کی ترتیب کیسی ہوگی؟

مائیکل کے سپر برِاعظموں کے موسموں کے ماڈلوں نے چاروں منظرناموں میں کچھ حیرت انگیز تغیرات کا انکشاف کیا۔ مثال کے طور پر اماسیا باقیوں کی نسبت بہت زیادہ سرد سیارے کی طرف لے جائے گا۔ قطب شمالی کے ارد گرد زمین مرکوز ہونے اور سمندروں کے ٹھنڈے عرض بلد تک پانی کے گرم دھاروں کو لے جانے کا امکان کم ہونے کی وجہ سے برف کی چادریں بن جائیں گی۔ اس کے مقابلے میں اوریکا کا خشک مرکز کے ساتھ خوشگوار مرکز ہو گا اور اس کے ساحل آج کل کے برازیل کی طرح ہوں گے جہاں زیادہ پانی ہوگا

یہ سب کچھ جاننا مددگار ہے، کیونکہ اگر زمین جیسے ایکسپو سیارے میں پلیٹ ٹیکٹونکس موجود ہیں، تو ہم نہیں جان سکتے کہ اب یہ سپر برِ اعظم کے سائیکل کے کس مرحلے میں ہے، اور اس لیے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہوگی کہ اسے رہائش کے قابل سمجھنے کے لیے کس چیز کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سائیکل کے درمیان میں زمین غائب ہو جائے گی

جہاں تک ہمارے اپنے سیارے کے مستقبل کا تعلق ہے ڈیوس کہتی ہیں کہ چار سپر براعظموں کے منظرنامے قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، اور وہاں شاید غیر متوقع ارضیاتی سرپرائز بھی ہوں جو نتائج کو بدل دیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میرے پاس جا کر دیکھنے کے لیے ٹارڈیس ہو، تو مجھے حیرت نہیں ہوگی کہ 25 کروڑ سال میں سپر برِ اعظم ان میں سے کسی منظر نامے جیسا نظر نہ آئے۔ اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔‘

تاہم، جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جن زمینوں کی قدر نہیں کرتے وہ ایک دن مکمل طور پر نئی ترتیب میں نظر آئیں گی۔ وہ ملک جو کبھی ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہے ہوں گے قریبی پڑوسی بن جائیں گے۔ اور اگر زمین پر اس وقت بھی ذہین مخلوق ہوئی تو وہ نیو یارک، بیجنگ، سڈنی اور لندن کے قدیم کھنڈرات کے درمیان سفر کرتے ہوئے سمندر نہیں دیکھے گی۔

نوٹ: رچرڈ فشر کا یہ مضمون اس کی اہمیت کے پیش نظر بی بی سی فیوچر سے ترجمہ کر کے ادارے کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close