کھانے کے بعد ویٹر بل جب لاتا ہے تو کس کے آگے رکھتا ہے؟ مردوں کے آگے.
یہاں سے کہانی شروع ہوتی ہے۔ اب اس وقت اگر وہی بل ساتھ موجود کسی خاتون نے دینا ہو تو باوجود شدید ماڈرن ہونے کے، ہمارے مردوں کے ماتھے پر پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ بندے خواہ مخواہ خود کو ’بے غیرت جیہا‘ محسوس کرتے ہیں۔ یہ جدید تزکیہ نفس کا پہلا مرحلہ ہے
پاکستانی مرد جب تک اماں کے ساتھ ہے، اسے ککھ پتہ نہیں ہو گا کہ عورتوں کی آزادی کے بارے میں نئی تھیوریاں کیا کہتی ہیں۔ جس دن پڑا کسی ریلیشن شپ میں، تب اس پر کہانی کھلتی ہے کہ اوہو، اچھا، یہ سب کچھ چل رہا تھا دنیا میں!
سب سے پہلا مسئلہ گھر چھوڑنے کا ہوتا ہے۔ تیس پینتیس سال پہلے تک کوئی خاتون کہتیں کہ خاندانی گھر سے نکلو اور مجھے الگ جگہ لے کر دو، تو انہیں پورے محلے میں ولن سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ عورت کا حق ہے لیکن مرد کیا کرے؟ اکٹھے رہنے میں خرچے ساٹھ فیصد کم ہوتے ہیں، نکلے تو مرے، نہ الگ ہو، تب تو مرے ہی مرے!
اگلے زمانوں میں پیدائش کے بعد امیاں بچے کا پیٹ بھرتی تھیں، آج کل دودھ کا ایک ڈبہ دو ہزار کا آتا ہے اور تین دن میں ختم۔ بہت محتاط ایوریج لگائیں تو مہینے کے آٹھ ڈبے
پہلے پیمپر اس وقت لگاتے تھے، جب بچے کو باہر لے جانا ہوتا تھا، ورنہ کپڑے کے نیپکن تھے جو بس دھوئے جاتے اور بچے کو باندھ دیتے۔ ہفتے کا دو ہزار کم از کم یہ لگا لیں
آپ کسی بھی وقت کہیں بھی یہ رونا رو کے دیکھ لیں، ہمدردی کوئی نہیں کرے گا، یا تو کنجوس سمجھے جائیں گے، یا بے غیرت، اور یا پھر طعنہ ملے گا کہ ’خود ہی کو پیدا کرنے کا شوق تھا۔‘ مطلب دودھ کے ڈبے اور پیمپر اب اولاد کا حق اور باپ کی ذمہ داری ہے، ماں کا ظاہری بات ہے، اس سب سے کیا تعلق؟
صفائی والی، کپڑے برتن دھونے والیاں، وہ بھی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ خاتون نوکری کرتی ہیں تو سمجھ میں آتا ہے یہ خرچہ، لیکن اگر وہ گھر پہ رہتی ہیں تو بھی مددگار عورتیں ان کا حق ہیں۔ مرد نہیں پوچھ سکتا کہ بھائی پہلے تو الگ ہو گئے، اب کاہے کو نئی فیملی کھڑی کرتے ہو، جو وہی سب کام پیسوں سے کرے جو ادھر اکٹھے رہنے میں مفت ہو جاتے تھے۔ ظاہری بات ہے یا تو خود مدد کروائیں یا پھر بجٹ ڈھیلا کریں، سوال ہو ہی کیوں؟ نیا مرد اتنا دقیانوسی پن کیسے کر سکتا ہے؟
ہم میں سے اکثر لوگ پرائیویٹ نوکریاں کرتے ہیں تو چاروں چراغ جلائے رکھنے کے قابل ہوتے ہیں، زندگی کے آخری بیس پچیس برسوں میں یہ سوال بھی مرد کا مقدر ہوتا ہے کہ بچایا کیا؟
خرچ کیا کیا ہو گیا، یہ کسی کتاب میں نہیں ملے گا، بچایا کیا؟ یہ سوال سبھی کریں گے۔ میاں بیوی چاہے دونوں ساری زندگی جاب کریں لیکن سوال صرف مرد کے گلے میں ہوگا، بچایا کیا؟
اب آ جائیں وہی ویٹر والی کہانی پہ۔ جہاں آپ کسی بھی خاتون کے ساتھ شاپنگ کر رہے ہیں یا کھانا کھاتے ہیں، وہاں بل دینا مردانگی کیوں سمجھا جاتا ہے؟ سارے حقوق ڈیوائیڈ ہو گئے تو یہ والا بھی ہو؟ لیکن نہیں، یہ تو بات ہی بہت چھوٹی کر دی، بل تو ہمیشہ مرد دیتا ہے۔ نہ دے تو کم از کم کھسیانا ضرور ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
باوجود حق اور فرض کی تمام جنگ کے، تمام برابریوں کے، دیسی گھریلو اکانومی میں کیشیر کی سیٹ مرد ہی کے پاس ہے۔ جس طرح بچہ پیدا ماں ہی نے کرنا ہے اسی طرح فرض کر لیا گیا ہے کہ گھر مرد نے ہی چلانا ہے
ہمارے وقتوں میں کسی لڑکی سے کوئی بات کرنا ہوتی تھی تو اس کے باپ اور بھائیوں سے ڈر لگتا تھا۔ اب یہ خوف ہوتا ہے کہ بات پولیٹیکلی ان کریکٹ نہ ہو، ہراسانی کے دائرے میں شمار نہ ہو جائے۔ جدید مرد چوبیس گھنٹے ہراسانی سے بچنے کا شکار ہے، کیا آپ مانیں گے؟
فیسبک کمنٹس میں، میاں بیوی کے لطیفوں پر ہنستے ہوئے، اولاد کو ڈانٹتے ہوئے، بہن کو روکتے ہوئے، بیوی کو ٹوکتے ہوئے، دوست کو کسی کے بھی بارے میں رائے دیتے ہوئے، تعریف کرتے ہوئے، تعریف نہ کرتے ہوئے، کسی اداکارہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے، عورت سیاستدان پر بولتے ہوئے۔۔۔۔ ہر بات سے پہلے سوچنا پڑتا ہے اور یہ سوچ ہمارے عام روایتی مرد کی موت ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ یہ مصرعہ تک آج سے تیس چالیس سال پہلے والے مردوں پہ فٹ آتا ہے، ہن کتھے رے گئیاں او آزادیاں!
شادی شدہ مرد کے بارے میں آج کل دنیا بھر کی خواتین نے بالخصوص یہ فرض کر لیا ہے کہ زندگی کی رونقوں پر اس کا حق ختم! وہ کسی خاتون سے بات کر لے، پوسٹ پہ کمنٹ دے، لائیک کرے یا کوشش بھی کر لے تو اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ آپ یہ سب نہیں کر سکتے
بھائی پروپوز تو نہیں کیا، بات کی ہے، رائے دی ہے یا زیادہ سے زیادہ تعریف کر دی ہے۔ دنیا بھر میں کو ایجوکیشن چلا رہے ہیں، جینڈر بیلنس ہو رہا ہے تو کون سا مرد صرف مردوں سے باتیں کر سکتا ہے؟ عورت ورک پلیس کا، سوشل میڈیا کا، یا کسی بھی کام کی حصہ دار ہوگی تو اس سے بات بھی ہوگی اور ہر بات سے پہلے لاکھوں بار سوچا نہیں جا سکتا! یا پھر صنفی مساوات کے ساتھ مردانہ تالہ جات کا بھی قانون لے آئیں۔
سب سے بڑا بوجھ پڑھے لکھے مرد پہ ’مردانگی‘ برقرار رکھنے کا ہے۔ بازار میں بچہ تھک گیا اور باپ نے اٹھا لیا اور ماں شاپنگ کر رہی ہے تو دیکھنے والے بولیں گے بڈھی تھلے لگیا اے، نہیں اٹھاتا تو بچے کی ماں ناراض کہ تم تو بڑے ماڈرن بنتے ہو، اتنی سی مدد نہیں ہوتی؟ باقی جو کلاسیک والی مردانگی تھی وہ تو اب نرا طعنہ ہے یا بیماری
عورت کے بارے میں روایتی سوچ سے بڑی حد تک ہم نے پیچھا چھڑا لیا ہو لیکن مردانگی آج بھی روایتی پیرامیٹرز پہ جانچی جاتی ہے
کماؤ پوت ہو، بہادر ہو، ٹف ہو، اسپورٹس پسند کرے، سست نہ ہو، اچھا باپ ہو، جذباتی نہ ہو، گنجا نہ ہو، موٹا نہ ہو، قد لمبا ہو، فوج میں ہو تو کیا ہی بات ہے۔۔۔ اگر یہ سب کچھ ہو تو پھر مرد کیوں نہ سوچے کہ عورت بھی ہر لحاظ سے ‘آئیڈیل’ ہو؟
نہیں، عورتانہ حقوق کے آرٹیکل ہمیں یہ رٹوا چکے ہیں کہ خواتین ہمیشہ نت نئے چیلنجز میں پھنسی ہوتی ہیں، اس لیے ان سے کسی پرفیکشن کی توقع کرنا ظلم ہوگا.. کئی مسائل ان کا راستہ روکے کھڑے ہوتے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ خود مرد ہیں۔ تو مرد سوچ ہی کیا سکتا ہے؟ بہت تیس مار خاں ہوگا تو سوچ لے، کہہ بھی سکتا ہے کیا مناسب الفاظ میں؟
مرد کا آئیڈیل پنا اب صرف کتابوں میں رہ گیا ہے بلکہ وہاں بھی آپ کو یہی لکھا نظر آئے گا کہ اچھا مرد کیسا ہوتا ہے۔ اچھا مرد پھنسا کس کس محاذ پر ہوتا ہے، یہ کبھی لکھا ہوا نہیں ملے گا۔ آئیڈیل چھوڑیں مرد کے بنیادی حقوق کیا ہیں یہ کہیں آج تک لکھا نظر آیا؟
بشکریہ : دا انڈپینڈنٹ، عرب میڈیا.