بلوچستان: سیاسی بحران میں شدت، جام کمال کی کرسی لڑکھڑانے لگی

نیوز ڈیسک

کوئٹہ : بلوچستان میں سیاسی بحران میں شدت آ گئی ہت اور وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی کی کرسی لڑکھڑانے لگی ہے. ناراض وزرا، مشیروں اور پارلیمانی سیکریٹریوں کے ایک گروپ نے وزیر اعلیٰ  سے تنازع پر اپنے استعفے صوبائی گورنر کو جمع کرا دیے ہیں

واضح رہے کہ حکومت کے ناراض ارکان اور وزیر اعلیٰ کے درمیان کافی عرصے سے اختلافات چل رہے ہیں، گزشتہ روز بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض اراکین اور اتحادیوں نے جام کمال خان کو عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے 24 گھنٹے کی ڈیڈلائن دی تھی

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ناراض گروپ نے رات گئے گورنر ہاؤس میں گورنر سید ظہور احمد آغا سے ملاقات کی اور اپنے استعفے ان کے حوالے کردیے

استعفیٰ دینے والوں میں وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی، وزیر خوراک سردار عبدالرحمٰن کھیتران، وزیر سماجی بہبود میر اسد بلوچ، وزیراعلیٰ کے مشیر اکبر آسکانی اور محمد خان لہری، پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند، مہہ جبین شیران، لالہ راشد بلوچ اور سکندر عمرانی شامل ہیں۔ ناراض گروپ کے زیادہ تر اراکین کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ناراض رہنماؤں کے مطالبے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں 28 نکاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا

اس سے قبل میر ظہور احمد بلیدی نے کہا تھا کہ اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں ہوتے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں گے

صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے بھیجے گیے وفد سے ملاقات ہوئی انہوں نے جام کمال کے لیے مزید وقت مانگا تاہم ‘ہم نے کہا کہ ہم جام کمال کو پہلے ہی تین سال کا وقت دے چکے ہیں، اب مزید وقت نہیں دے سکتے’

ناراض صوبائی وزیر اسد بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دو دن بعد تحریک عدم اعتماد لائیں گے، ہمیں 40 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے

صوبائی وزیر اسد بلوچ کا کہنا ہے کہ جام کمال خان بلوچستان کی جان بخشی کریں اور استعفیٰ دے دیں

اسد بلوچ نے کہا کہ تین سال تک ان کے ساتھ تھے مگر اب بادشاہت کا وقت ختم ہوگیا ہے،  ہم نہیں چاہتے اسمبلی مچھلی بازار بنے

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ حکومتی وفد مراعات کی خاطر جام کمال کے ساتھ ہے، جام کمال کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

واضح رہے کہ سردار محمد صالح بھوتانی نے وزیر اعلیٰ سے اختلافات پیدا ہونے پر تین ماہ قبل ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا

قبل ازیں اسد بلوچ نے کہا تھا کہ ‘ناراض اراکین، اتحادیوں اور اپوزیشن کے نمبر پورے ہیں، ہمیں 38 سے 40 اراکین کی حمایت حاصل ہے، ہم خیالوں نے اپنے استعفے لکھ رکھے ہیں، بس اپنے ساتھیوں کا انتظار اگلے 24 گھنٹے تک کریں گے، جس کے بعد استعفے جمع کروا دیے جائیں گے’

صوبائی اراکین اسمبلی کی جانب سے یہ مطالبہ جام کمال کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے استعفے کے بعد سامنے آیا ہے، جہاں جام کمال کو چند صوبائی وزرا اور پارٹی کے اراکین اسمبلی کی مخالفت کا سامنا ہے اور وہ وزیر اعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں

رپورٹ کے مطابق بی اے پی کے ناراض اراکین کا مؤقف ہے کہ وہ جام کمال عالیانی کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے

خیال رہے کہ بلوچستان میں سیاسی بحران پہلی مرتبہ رواں برس جون میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب اپوزیشن نے صوبائی اسمبلی کے باہر جام کمال کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے خلاف کئی دنوں تک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص کرنے کے حوالے سے تھا

احتجاج بعد میں شدت اختیار کر گیا تھا اور پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے اپوزیشن کے 17 اراکین کو مقدمے میں نامزد کردیا تھا

بعد ازاں اپوزیشن نے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی جمع کروائی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close