کراچی – کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کی جانب سے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی میں بھاری کمیشن وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔انہوں نے واٹر بورڈ، کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی سے کمیشن کا الگ الگ تناسب مقرر کر رکھا ہے
جبکہ دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کی زمین پر قائم پٹرول پمپ کے کرائے اور بجلی کے بلوں کے حوالے سے بھی بڑے پیمانے پر مالی بےضابطگیوں کا معاملہ سامنے آیا ہے
ایم ایم نیوز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم واٹر بورڈ سے بلوں کی ادائیگی کی مد میں 7 فیصد کمیشن وصول کرتے ہیں ،جبکہ کے الیکٹرک سے 3.50 فیصد کمیشن اور ایس ایس جی سی سے 4.50 فیصد کمیشن وصول کیا جاتا ہے
کے الیکٹرک کا ماہانہ بل ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ بنتا ہے ، واٹر بورڈ کا ماہانہ اوسط بل ستر لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان آتا ہے اور سوئی گیس کا بل بھی تقریباً ماہانہ اتنا ہی آتا ہے
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر فنانس دفتر کی جانب سے وزیٹنگ فکلٹی، وینڈرز اور دیگر بلوں کو روک کر رکھا جتا ہے اور ہر صورت میں آخری تاریخ سے پہلے ہی ان بلوں کی ادائیگی کی جاتی ہے تاکہ کمیشن کے حصول میں بھی تاخیر نہ ہو
کراچی یونیورسٹی کئی برسوں سے مالی بحران کا شکار ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض اوقات ان کمپنیز کو پیشگی بلز ادا کر دیے جاتے ہیں تاکہ پیشگی کمیشن مل جائے
سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے اسٹاف کالونی میں بجلی، گیس اور پانی کے انفرادی میٹرز لگوانے کے احکامات دیئے تھے اور کہا تھا کہ رہائشی اپنے یوٹیلٹی بلز خود ادا کرینگے لیکن طارق کلیم نے ڈائریکٹر فنانس بننے کے بعد غیر اعلانیہ طور پر یہ اسکیم ختم کردی تھی
واضح رہے کہ طارق کلیم کو ڈاکٹر محمد اجمل خان نے نہ صرف ملازمت سے برطرف کیا تھا بلکہ جامعہ کراچی کی گاڑی، لیپ ٹاپ اور دیگر اشیا واپس نہ کرنے پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی، جو کہ رکارڈ پر موجود ہے
پیٹرول پمپ معاملہ
دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کی زمین پر قائم پیٹرول پمپ بھی ڈائریکٹر فائنانس اور یونیورسٹی کے بدعنوان افسران کے لئے سونے کی چڑیا بن گیا ہے، تیس لاکھ کی جگہ ڈیڑھ لاکھ کا کرایہ اور پیٹرول پمپ کے لئے بجلی کی کمرشل لائن کے باعث جامعہ کراچی کو تقریباً تیس لاکھ روپے ماہانہ اضافی بجلی کا بل ادا کرنا پڑ رہا ہے
واضح رہے کہ سیپرا، پیپرا رولز اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے مطابق کوئی بھی سرکاری جگہ بغیر ٹینڈر/آکشن کے براہ راست کسی کو الاٹ نہیں کی جا سکتی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ جگہ کا ٹینڈر کیا جائے اور جو سب سے زیادہ بڈ دے اسے جگہ الاٹ کی جائے مگر یہاں پر معاملہ بالکل برعکس ہے
ایم ایم نیوز رپورٹ کے مطابق کراچی یونیورسٹی کی زمین پر قائم پیٹرول پمپ کو براہ راست تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کرایہ پر ایک پرائیویٹ پارٹی کو دے دیا گیا ہے، اس پیٹرول پمپ کی مارکیٹ ویلیو 30 لاکھ سے 40 لاکھ روپے ماہانہ ہے اور ڈی ایف و دیگر متعلقہ افسران یونیورسٹی کو لاکھوں کا نقصان دے کر ذاتی طور پر لاکھوں کے فائدے وصول کر رہے ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسری جانب پیٹرول پمپ کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی کا متعلقہ فیڈر کا ٹیرف کمرشل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو تقریباً 30 لاکھ روپے ماہانہ اضافی بل ادا کرنا پڑ رہا ہے
جامعہ کراچی نے پمپ کو 30 سالہ لیز پرجگہ دیتے وقت سالانہ 10 فیصد کرایہ میں اضافہ کرنے کا کہا تھا اور ہر 10 سال بعد معاہدے کی تجدید کرنے کا بھی کہا تھا مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور گذشتہ 9 ماہ سے معاہدے کی تجدید کے لئے فائل ڈائریکٹر فائنانس کے پاس پڑی ہوئی ہے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی
مزید برآں پمپ کا مالک پرانا کرایہ براہ راست کراچی یونیورسٹی کے اکائونٹ میں جمع کرا رہا ہے، یہاں پر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پمپ کے مالک نے ٹائر شاپ، سروس سینٹر اور شاپ مجموعی طور پر لاکھوں روپے کے کرایہ کے عوض دوسری پارٹیوں کو دی ہوئی ہے، قواعد کے مطابق سرکاری زمین یا جائیداد کو کرایہ یا لیز پر لینے کے بعد اسے کرایہ دار آگے کرایہ پر نہیں دے سکتا ہے، جبکہ پیٹرول پمپ کا مالک کراچی یونیورسٹی کو اداکی جانے والے کرایہ سے دگنی رقم ان تین سب لیٹس سے وصول کر رہا ہے اور کراچی یونیورسٹی کو کرایہ ادا کرنے کے بعد بھی ان سب لیٹس کے کرایہ میں سے منافع کما رہا ہے
ذرائع کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے متعلقہ افسران اس پمپ سے ماہانہ 10 لاکھ سے زائد رقم اپنی ذات کے لئے وصول کر رہے ہیں اور اس کے عوض کراچی یونیورسٹی کو تقریبا 60 لاکھ روپے ماہانہ نقصان ہو رہا ہے.