موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیئر جھیل کے پھٹنے کے واقعات میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ان گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے پاکستان میں ستر لاکھ افراد خطرے کی زد میں ہیں
نیچر کلائمٹ چینج نامی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق گذشتہ تیس سالوں میں گلیشیئر جھیل کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے
گذشتہ ایک سو سال میں سمندر کی سطح میں جو اضافہ ہوا ہے، اس میں 35 فیصد حصہ گلیشیئرز کے پگھلنے کا ہے
گلیشیئر جھیلیں غیر مستحکم ہوتی ہیں اور اس سے جاری ہونے والے پانی کے ساتھ پتھر اور مٹی بھی آتی ہے، جس سے جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں گلیشیئر جھیلوں کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، درجنوں گاؤں تباہ ہوئے، مکانات اور عمارتیں تباہ ہوئیں اور ساتھ ہی اہم تنصیبات کو بھی یا تو نقصان ہوا یا تباہ ہوئیں
حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں گولن گول میں گلیشیئر جھیل کے پھٹنے سے کئی مکانات کو نقصان پہنچا اور کئی افراد پھنس گئے۔ جام اشپر گلیشیئر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور اسی کی جھیل اچانک پھٹ گئی۔ ایسا 2015ع کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے۔ 2015ع میں گلیشیئر جھیل کے واقعے میں تین افراد ہلاک اور پانچ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے
قطبی علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ گلیشیئرز ہیں، جن کی تعداد سات ہزار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقیاتی پروگرام کے ایک اندازے کے مطابق ہندو کش ہمالیہ میں تین ہزار گلیشییر جھیلیں بنیں، جن میں سے تینتیس جھیلیں ایسی ہیں، جن سے شدید خطرہ لاحق ہے اور ان سے ستر لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں
جنوری 2020ع میں رائل میٹرولوجیکل سوسائٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں درکٹ گلیشیئر جھیل میں گذشتہ دو دہائیوں میں 240 فیصد اضافہ ہوا ہے
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں تین ہزار چوالیس گلیشیئر جھیلیں بن چکی ہیں، جن سے اکہتر لاکھ افراد کو خطرہ لاحق ہے
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ صنعتی دور سے قبل سے زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں پہاڑی علاقے میں گرمی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں تیزی آئی ہے
ناسا کے سیٹیلائٹس سے لی گئی تصاویر پر مبنی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گلیشیئر جھیلوں کے وولیم میں ڈیڑھ سو مکعب کلومیٹر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 1994ع اور 2017ع کے درمیان دنیا کے گلیشیئر جھیلوں سے پینسٹھ کھرب ٹن پانی کا اخراج ہوا ہے۔ گذشتہ ایک سو سال میں سمندر کی سطح میں جو اضافہ ہوا ہے، اس میں 35 فیصد حصہ گلیشیئرز کے پگھلنے کا ہے
ایک دہائی قبل شاید گلشیئر جھیلوں کے حوالے سے معلومات پر تحقیق کرنا ناممکن تھا، لیکن اب یہ ممکن ہو چلا ہے اور اس سے حکومتوں اور سائنسدانوں کو مدد ملے گی کہ وہ ان لوگوں کی مدد کر سکیں جو گلیشیئر جھیلوں سے خطرے میں ہیں
ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قراقرم گلیشیئرز کی گذشتہ چالیس سال کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بڑے ہوتے ہوئے گلیشیئرز کے گلیشیئر جھیل میں بدل جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگرچہ یہ جھیلیں تازہ پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، لیکن جب ان کا بند ٹوٹتا ہے تو بہت تباہی مچاتے ہیں
گذشتہ آدھی صدی میں اس علاقے میں گلیشیئر جھیلوں کے کئی واقعات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ ایک تازہ واقعے میں شسپر گلیشیئر کی وجہ سے پاکستان اور چین کو ملانے والی واحد سڑک قراقرم کو نقصان پہنچا اور یہ ہائی وے کئی روز تک بند رہی
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث گلیشییر جھیلوں میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وقت ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان جھیلوں کے گرد ایسے انجینیئرنگ اسٹرکچر کھڑے کیے جائیں، جن سے ان سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے
موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ ان علاقوں میں جنگلات کی کمی بھی گلیشیئر جھیلوں سے ہونے والی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ملک کے شمالی علاقوں میں کم از کم بیس لاکھ افراد ایندھن کے لیے لکڑی استعمال کرتے ہیں اور وہ درخت کاٹتے ہیں، دوسری طرف ٹمبر مافیا بھی موجود ہے، جس کے باعث جنگلات میں کمی تیزی سے ہو رہی ہے۔