حال ہی میں ماہر لسانیات اور بین الاقوامی سطح پر دیگر ممالک میں امریکی مداخلت کے شدید ناقد پروفیسر نوم چومسکی نے عمران خان کی حکومت گرانے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں امریکی کردار اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے
پروفیسر نوم چومسکی نے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کے خلاف سازش کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا لیکن انہوں نے اس سازش کے کوئی ’بامعنی شواہد‘ نہیں دیکھے
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر کے سفارتی مراسلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے کوئی ’ٹھوس ثبوت‘ نہیں سمجھتے
پروفیسر نوم چومسکی اس حوالے سے کہتے ہیں ’اس منطق کے مطابق تو پھر دنیا بھر میں تواتر سے حکومتوں کی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ یہ بے معنی ہے۔‘
دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کو چھپا کر رکھنے اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سفیر اسد مجید پر دباؤ ڈالنے کی خبروں کی تردید کی ہے
پاکستان میں لیٹر گیٹ کا معاملہ سامنے آنے کے پانچ ہفتے بعد پیر کو ہونے والی پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے ٹیلی گرام کو سابق وزیر خارجہ سے چھپانے کی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق ’ٹیلی گرام جوں ہی موصول ہوا اسے مناسب طریقے سے متعلقہ افراد کے سامنے رکھا گیا‘
اس سوال پر کہ امریکہ میں سفیر اسد مجید نے تجویز کیا تھا کہ امریکی سفیر کو بلا کر وضاحت طلب کی جائے تو دفتر خارجہ نے ڈی مارش کرنے میں تاخیر کیوں کی؟ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’قیادت کی جانب سے ہدایات ملتے ہی دفترخارجہ نے ڈی مارش کر دیا۔‘
ترجمان نے کہا ’اسد مجید کے حوالے سے میڈیا میں چلنے والی خبریں بھی مکمل طور پر بے بنیاد تھیں اور ہیں۔ کمیٹی اجلاس میں سفیر اسد مجید پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ سے واضح ہے کہ سفیر نے کمیٹی کو بریف کیا۔
’ان سے انکوائری کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اسد مجید نے واشنگٹن میں اپنی مدت سفارت مکمل کی۔ اب وہ برسلز میں اپنے ایگریما کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں‘