دنیائے کرکٹ میں کچھ نام ایسے ہیں جو تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں اور ہر دور میں اسی طرح چمکتے رہتے ہیں جیسے اپنے شباب میں تھے
سچن ٹنڈولکر بھارتی کرکٹ کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جس نے بیٹنگ کے ہر اس ریکارڈ کو عبور کر ڈالا جو ان کی راہ میں آیا اورکچھ ریکارڈ تو ایسے بنا گئے ہیں جنہیں توڑنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں سنچریوں کی سنچریاں کرنے کا ان کا ریکارڈ آج تک محفوظ ہے اور کرکٹ کے موجودہ رنگ ڈھنگ کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ جلدی کوئی عبور کرسکے۔
سچن ٹنڈولکر جو اپنی انچاس ویں سالگرہ منا رہے ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’1992ع کے آسٹریلیا کے دورے میں میری خواہش تھی کہ کرکٹ کے بادشاہ سر ڈان بریڈمین سے ملاقات کروں۔ ٹیم کے ساتھ مصروف رہنے اور قدرتی شرمیلے پن کے باعث میں ہمت نہیں کرپا رہا تھا کہ بریڈمین سے ملنے جا سکوں۔‘
وہ لکھتے ہیں ’اپنی اس خواہش کا ذکر شین وارن سے کیا۔ وہ بھی ملنا چاہتے تھے ہم دونوں سرڈان بریڈمین سے ملنے ان کے گھر پہنچے۔ اندر جانے سے پہلے ہم دونوں پریشان تھے کہ بات کون شروع کرے گا۔ میں نے شین سے کہا تم شروع کرو لیکن اس نے مجھ پر ڈال دیا کہ میں کروں۔ خیر ہم اندر پہنچے تو بریڈمین انتظار کررہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کیا بات کروں۔ میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا ’سر، اگر آپ آج کرکٹ کھیل رہے ہوتے تو آپ کا ایوریج کیا ہوتا؟‘ بریڈمین نے کچھ دیر سوچا اور کہا ’شاید 70 رنز فی اننگز‘
میں نے حیرانگی سے کہا ’سر آپ کا سارا کیریئر شاندار ہے اور پورے کیریئر کا 99.96 آپ کا ایوریج ہے تو اب 70 کیوں ہوتا؟‘
بریڈمین ہنسے اور بولے! ’میرے بچو! اب اس نوے سال کی عمر میں 70 ایوریج کم ہے کیا؟‘
’ہم ہنسنے لگے کیوں کہ بریڈمین نے زبردست مزاح کا نمونہ پیش کیا تھا۔ ہم جتنی دیر ان کے ساتھ رہے وہ دلچسپ باتیں کرتے رہے۔‘
سچن ٹنڈولکر کا سارا کیریئر دلچسپ یادوں سے سجا ہوا ہے۔ شرمیلے سچن جتنے میدان کے شیر تھے اتنے ہی انٹرویوز سے گھبراتے تھے
جب کسی میچ کے بعد انہیں انٹرویو دینا پڑتا تھا، تو ان کی ”کانپیں ٹانگ جاتی تھیں“
1990ع میں انگلینڈ کے خلاف سترہ سال کی عمر میں جب اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میچ میں بھارت کو شکست سے بچانے کے لیے انہوں نے 119 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی تھی تو یہ ان کے کیریئر کی پہلی سنچری تھی
میچ کے بعد جب انہیں پریس کانفرنس میں جانے کے لیے مینیجر نے کہا تو ٹنڈولکر گھبرا گئے اور بولے ’سر! میں نے اپنا کام کردیا ہے اب کوئی پریس ٹاک نہیں کرسکتا یہ میرے بس کی بات نہیں‘
ان کی قدرتی جھجھک ہمیشہ آگے آجاتی تھی اور وہ کوشش کرتے تھے کہ کہیں بولنا نہ پڑے
پاکستان کے خلاف زخمی حالت میں کھیلنا
2003 میں جنوبی افریقہ کے ورلڈ کپ میں سچن نے شاندار ٹورنامنٹ کھیلا تھا اور ٹیم کو فائنل تک لے گئے تھے۔ حالانکہ وہ پورا ٹورنامنٹ زخمی حالت میں کھیلے تھے ان کے پاؤں میں زخم تھے۔ وہ زخم کے باعث ٹریننگ بھی نہیں کرتے تھے
پاکستان سے میچ میں ان کی شرکت بہت ضروری تھی لیکن زخم ایسا تھا کہ پاؤں زمین پر رکھا نہیں جارہا تھا
ان کے فزیو روز ڈریسنگ کرتے تھے اور میچ کے دن تک ڈریسنگ بندھی ہوئی تھی۔ شاید وہ نہ کھیلتے لیکن اس صورت میں پورے بھارت میں بے چینی پھیل جاتی
انہوں نے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اور جب بیٹنگ کے لیے جانے لگے تو ڈریسنگ اتار کر پھینک دی کیوں کہ ڈریسنگ کے ساتھ جوتے پہننا ناممکن تھا۔ وہ کھلے ہوئے زخم کے ساتھ بیٹنگ کرتے رہے اور مشن مکمل کرکے باہر آئے
اس دن پاکستان کے خطرناک فاسٹ بولنگ اٹیک کے سامنے 78 گیندوں پر 92 رنز کی ان کی اننگز نے بھارت کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا
سچن اس اننگز کو اپنے کیریئر کی ایک یادگار اننگز قرار دیتے ہیں
سچن ٹنڈولکر کرکٹ سے طویل عرصہ سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود آج بھی کروڑوں بھارتیوں کے لائف ٹائم ہیرو ہیں۔ دلوں کے راجہ ہیں اور ہر بلے باز کے آئیڈیل ہیں اور اپنے چوبیس سال کے کیریئر میں ایک بھرپور پروفیشنل کرکٹر نظر آتے ہیں، جس نے کرکٹ کو بہت کچھ دیا لیکن کبھی بھی ان کے دامن پر کسی اسکینڈل کا داغ نہ آ سکا.