صابن کھانے والی آٹزم سے متاثرہ لڑکی جو غیر معمولی ذہانت کی مالک ہے

ویب ڈیسک

بیس برس کی ریچل سبینو کا تعلق برازیل سے ہے، انہوں نے عام بچوں کے برعکس اپنے بچپن کا زیادہ وقت یہ سمجھنے میں گزار دیا کہ وہ دوسروں سے مختلف کیوں ہیں

ریچل سبینو اپنے بچپن میں بہت زیادہ روتی تھیں۔ ان کی والدہ کے مطابق ریچل کو غیر معمولی بے چینی سی رہتی تھی۔ وہ چیزوں کے معاملے میں بہت زیادہ جذباتی تھیں اور اپنی عمر کے دیگر بچوں کے ساتھ ان کی زیادہ نہیں بنتی تھی

ریچل کی ماں کارلا سبینو بتاتی ہیں ”اگر کوئی اس کی کسی چیز کو چھو بھی لیتا تو یہ اس پر حملہ کر دیتی تھی۔ اسے کتابیں پڑھنا، اور گھومنا پسند تھا“

جب ریچل صرف تین سال کی تھیں تو انہوں نے پڑھنا سیکھ لیا تھا اور چار سال کی عمر میں جب ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ دیگر ہم جماعتوں سے بہت آگے تھیں

لیکن ریچل کو اپنے دوستوں اور اساتذہ کی جانب سے مختلف برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ کہتی ہیں ”مجھے معلوم تھا کہ میں مختلف ہوں“

آٹھ سال کی عمر میں وہ فریڈرک نطشے جیسے فلسفیوں کو پڑھ چکی تھیں اور تاریخ اور سائنس میں بھی دلچسپی لیتی تھیں۔ جب ان کی عمر کے بچے کارٹون دیکھتے تھے، وہ نیشنل جیوگرافک یا ہسٹری چینل دیکھنا پسند کرتی تھیں

ایلیمنٹری اسکول میں ریچل کو اپنے ہم جماعتوں کے برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے زیادہ دوست نہیں تھے اور وہ اکثر مذاق کا موضوع بنی رہتی تھیں

ان کی والدہ کہتی ہیں ”اس وقت ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کوئی بیماری ہے. مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ مجھے بس اس کی نفسیاتی صحت کے بارے میں تشویش رہتی تھی“

نوجوانی میں بھی ریچل کے صرف تین دوست تھے۔ لیکن ان کے مطابق ان کے دوستوں کو ان میں صرف اس حد تک دلچسپی تھی کہ ان کا ہوم ورک ہو جائے کیوں کہ ریچل ہر مضمون میں ہی بہترین کارکردگی دکھاتی تھیں

وہ کہتی ہیں ”پرائمری اسکول کے سیکنڈ گریڈ میں میں بہت تنہا اور اداس محسوس کرتی تھی۔ مجھے سکول جانا اچھا نہیں لگتا تھا“

ریچل کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ اپنی کتابیں خرید سکیں۔ ان کے دوست ان کو یہ اس شرط پر مہیا کرتے تھے کہ وہ ان کا کام کر دیں گی

ریچل جب ہائی اسکول میں پہنچی تو انہیں اور بھی برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں ”وہ تیرہ سال کی تھی جبکہ باقی کلاس فیلو پندرہ پندرہ سال کے تھے“

یہی وہ وقت تھا جب ریچل کو ایسے دورے پڑتے، جن میں وہ بہت روتی تھیں۔ اس لیے سکول جانا اور بھی مشکل ہو گیا۔ وہ بتاتی ہیں ”اسکول میں استاد سب کے سامنے بے عزت کرتے ہیں اور مجھے اسکول جانے کے خیال سے ہی نفرت ہونے لگی تھی“

اس کے باوجود ان میں کسی قسم کی بیماری کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ان کے مالی طور پر کمزور والدین نے ایسے ماہرِ نفسیات تلاش کرنے کی کوشش کی، جو مفت میں ان کا علاج کر سکیں

اس اثناء میں ریچل خود سے سوال کرتی تھیں کہ کوئی مجھے سمجھ کیوں نہیں پاتا؟

ریچل کی والدہ، جو خود بھی شعبہ تدریس سے وابستہ تھیں، نے اپنی بیٹی کی مشکلات کو سمجھنے کے لیے فنِ تعلیم اور نفسیات کی کلاس لینا شروع کی، جسے ’سائیکو پیڈا گوگی‘ کہا جاتا ہے

ایسی ہی ایک کلاس میں ایک دن استاد ایسے بچوں کے بارے میں بات کر رہی تھیں، جو کسی قسم کی معذوری کے باوجود انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ وہ سنڈرومز اور آٹزم کے بارے میں پڑھا رہی تھیں۔ تبھی ریچل کی والدہ کو لگا کہ شاید ان کی بیٹی کو ایسا ہی کچھ ہے

کلاس ختم ہوئی تو کلارا نے استاد سے بات کی، جس نے ان کو ایک ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیا، جہاں ریچل کے ٹیسٹ ہوئے۔ ان ٹیسٹس کے ذریعے ان کی ذہانت جانچی گئی

ریچل بتاتی ہیں ”مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھ سے آزربائیجان کے دارالحکومت کے بارے میں پوچھا، میری کیوری کون ہے اور جنرل نالج کے اور سوال بھی پوچھے“

ریچل کو کئی شخصیت سے جڑے ٹیسٹوں سے بھی گزرنا پڑا۔ نتائج آنے کے بعد ان کو بتایا گیا کہ ان کا سکور 99 فیصد رہا، یعنی وہ ایک غیر معمولی ذہانت کی مالک ہیں

اس کے بعد ان کو ایک نیورالوجسٹ کے پاس بھجوایا گیا، جس نے چند سوال پوچھنے کے بعد ایک ڈس آرڈر کی تشخیص کی

ریچل میں گریڈ ٹو آٹزم کی تشخیص ہوئی تھی

ریچل اور ان کی والدہ، دونوں کا ہی کہنا ہے کہ یہ سن کر ان کو ایسے لگا، جیسے ان کی ایک تکلیف کم ہو گئی ہو کیوں کہ کئی سال سے ریچل نے معاشرے کا تعصب کا سامنا کیا تھا

ان کا کہنا ہے ”تشخیص میں تاخیر کی وجہ معلومات اور مالی وسائل کی کمی تھی۔ پیسہ نہ ہونا ایک اہم سبب تھا کیوں کہ اگر ہمارے پاس پیسے ہوتے، تو یہ تشخیص جلدی ہو جاتی“

ریچل کو ایک اور مسئلہ بھی تھا۔ ان میں پیکا کی تشخیص ہوئی تھی۔ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے، جس میں متاثرہ فرد ایسی خوراک کھانا چاہتا ہے، جس کی کوئی غذائی اہمیت نہیں ہوتی

ریچل کو صابن، ڈیٹرجنٹ اور فیبرک سافٹنر کھانا اچھا لگتا تھا۔ ان کی والدہ نے مائع صابن کا استعمال شروع کر دیا تاکہ ان کی بیٹی کو کچھ ہو نہ جائے

ریچل بتاتی ہیں ”میں زیادہ مقدار میں ایسی چیزیں نہیں کھاتی تھی کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ میں مر سکتی ہوں۔ لیکن کم مقدار کھانے سے بھی آج تک مجھے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے“

گذشتہ سال جب ریچل کورونا وبا سے متاثر ہوئیں تو اچانک یہ کیفیت ختم ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کا ذائقہ ان کو برا لگنے لگا تھا

ریچل شور بھی برداشت نہیں کر سکتیں کیوں کہ ان کو میسو فونیا نامی ایسی بیماری ہے، جس میں آواز سے سخت جھنجھلاہٹ ہوتی ہے

ریچل کو سب سے زیادہ تکلیف بند جگہوں پر کاغذ کی حرکت سے پیدا ہونے والی آواز سے ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ تھی کہ بچپن میں ان کے لیے اسکول کا ماحول نہایت تکلیف دہ تھا

اپنی ذہانت کی وجہ سے پندرہ سال کی عمر میں ہی ریچل نے برازیل کی ایک یونیورسٹی سے فزیو تھراپی کا امتحان پاس کر لیا، لیکن ان کی کم عمری کی وجہ سے ان کو ڈگری نہیں مل سکی

2018ع میں جب وہ سترہ برس کی ہونے والی تھیں، ریچل نے بائیو میڈیکل امتحان بھی پاس کر لیا

یونیورسٹی میں داخلے پر ان کی جانب سے اپنے آٹزم کی وضاحت پیش کی گئی، جس کے باعث ان کو مختلف اوقات میں امتحان دینے اور دیگر سرگرمیاں سرانجام دینے کی اجازت دی گئی

وہ کہتی ہیں ”میں اکیلی بیٹھ سکتی تھی۔ وہاں ایسا ماحول بنا لیا جیسا مجھے ہائی اسکول میں میسر نہیں تھا۔ وہاں میرا ایک دوست بھی بن گیا“

وہ کہتی ہیں” ہائر ایجوکیشن میں مجھے محسوس ہوا کہ مجھے عزت مل رہی ہے۔ لوگ نرم دل تھے، میری کیفیت کو سمجھتے تھے۔ مجھ پر دوست بنانے کا کوئی دباؤ نہیں تھا“

اگرچہ ان کو بائیو میڈیکل کورس پسند تھا، ریچل نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ایک بار پھر امتحان دیا

اس بار امتحان ان کی کیفیت کی وجہ سے ایک ایسے ماحول میں لیا گیا، جہاں بلکل کسی قسم کا شور نہیں تھا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے اسکور میں 100 پوائنٹس کا اضافہ ہوا

وہ کہتی ہیں ”اس سے پہلے کاغذ اور چیونگ گم کا شور مجھے بیمار کرتا تھا اسی لیے میں زیادہ اچھا اسکور نہیں کر سکی“

2020ع میں ان کو وفاقی یونیورسٹی میں میڈیسن میں داخلہ مل گیا۔ کورونا کی وبا ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی، کیونکہ اس کے دوران انہوں نے گھر پر ہی پڑھائی جاری رکھی

وہ کہتی ہیں ’میں کلاس روم میں نہیں پڑھ سکتی۔‘

اس دوران انہوں نے ایک اور امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ وہ صبح سات بجے اٹھتی تھیں اور رات کو گیارہ بجے تک پڑھتی رہتی تھیں

بیس سال کی عمر میں یہ امتحان پاس کرنے کے بعد ان کو فیڈرل یونیورسٹی ریو گرانڈے ڈو نورٹے میں میڈیسن میں داخلہ مل گیا

یہ وہ وقت تھا ، جب ریچل نے اپنی کیفیت کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر روزمرہ زندگی دوسروں کو دکھانے کا ارادہ کیا

ابتدا میں وہ اپنی ڈرائنگز کی وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتی تھیں۔ پھر ایک ایجنسی کی دعوت پر انہوں نے ٹک ٹاک پر اپنی وڈیوز لگانے کا آغاز کیا، جس کا مقصد آٹزم کے بارے میں آگہی پھیلانا تھا

ان کو امید نہیں تھی کہ ان کو کچھ زیادہ کامیابی ملے گی، لیکن جلد ہی وہ ایک مشہور شخصیت بن گئیں

وہ کہتی ہیں ’یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔‘

ٹک ٹاک پر اب ریچل کے دس لاکھ فالوئرز ہیں۔ یوٹیوب پر ان کے ڈھائی لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔ وہ مختلف قسم کا مواد اپ لوڈ کرتی ہیں اور اپنی زندگی اور کیفیت کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں

مثال کے طور پر ایک پوسٹ میں وہ بتاتی ہیں کہ اکثر آٹزم سے متاثر لوگ اس حد تک سچ بولتے ہیں کہ دوسرے اس کو کچھ اور سمجھ لیتے ہیں کیونکہ ان کو درست معلومات نہیں ہوتیں

انہوں نے بتایا کہ ٹک ٹاک پر دس لاکھ فالوئرز ہو جانے کے بعد اس کامیابی پر ان کو جو کیک ملا، وہ ان کی پسند کے رنگ کا نہیں تھا

وہ کہتی ہیں کہ ’آٹزم سے متاثر فرد کا دماغ ایسے ہی کام کرتا ہے۔ حقائق ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔‘

ایک اور پوسٹ میں وہ ان لوگوں کو پیغام دیتی ہیں، جن کو سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹس کا سامنا ہوتا ہے

وہ کہتی ہیں ’اس بارے میں پریشان نہ ہوں کہ لوگ کیا کہتے اور سوچتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے پسند نہیں کرتے۔ میں سوشل میڈیا پر کمنٹس بس اسی وقت پڑھتی ہوں جب لوگوں کا رویہ ٹھیک ہو۔‘

ریچل اپنا سوشل میڈیا مواد اپنے بھائی کی مدد سے بناتی ہیں۔ وہ اپنی ڈائری میں ایسے موضوعات لکھتی رہتی ہیں، جن پر وہ بات کرنا چاہتی ہیں

سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ وہ چاہتی ہیں کہ وہ مستقبل میں بطور ڈاکٹر لوگوں کی مدد کریں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ریچل نے ماہر نفسیات یا نیورالوجسٹ بننے کے بارے میں سوچا ہے، لیکن ابھی کچھ حتمی طور پر طے نہیں ہوا

ریچل کہتی ہیں ”مجھے خواب دیکھنا پسند نہیں۔ مجھے پلان کرنا اچھا لگتا ہے کیونکہ میں جانتی ہوں میں ان کو ممکن بنا سکتی ہوں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close