قادر بلوچ 3 دسمبر 2021 کی رات روپوش ہو گیا تھا۔ اس نے الزام لگایا کہ کراچی کے ضلع ملیر سے ملحقہ ضلع جامشورو کے ایک گاؤں میں ایک طاقتور جاگیردار کے حواریوں نے ان کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔ وہ صرف اندھیرے کی آڑ میں بھاگنے میں کامیاب ہو سکا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ لوگ کس غرض سے آئے تھے، وہ اپنی زمین کی ملکیت کے کاغذات اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ ان کے پر دادا کی گیارہ ایکڑ سروے اراضی پر اس کے حق کا ثبوت ہیں، جس پر وہ ٹماٹر، لوکی اور تربوز اگاتا ہے۔ دستاویزات پر واضح طور پر سندھ کے محکمہ ریونیو کی مہر اور ان کے دادا صوفن اور پردادا تارو کے نام بھی درج ہیں۔
”پہلے سردار کے آدمیوں نے مجھے 70,000 روپے فی ایکڑ دینے کی کوشش کی، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا،“ وہ کہتے ہیں ’’زمین میری ماں جیسی ہے اور میں اسے فروخت نہیں کروں گا۔‘‘ انہیں زبردستی زمین فروخت کے دباؤ کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں
قادر بلوچ نے بتایا کہ سب سے پہلے، بحریہ ٹاؤن کے لوگ آئے، جو کہ ریئل اسٹیٹ کی بڑی کمپنی ہے، جس کا وسیع پروجیکٹ، بحریہ ٹاؤن کراچی (BTK) قریب ہی آ رہا ہے۔ ”وہ میری زمین میں سے سڑک بنانا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ دفع ہو جائیں اور وہ چلے گئے۔ لیکن اب وڈیرے کے اپنے لوگ مجھ پر حملہ کر رہے ہیں۔“
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک طریقہ کار ہے، جو اب لینڈ مافیا کی جانب سے ایک ایسے علاقے میں ہاؤسنگ پروجیکٹس بنانے کے لیے ریئل اسٹیٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ کوہستان کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں جامشورو اور حیدرآباد اضلاع کے ساتھ ساتھ کراچی کے ملیر اور مغرب کے کچھ حصے شامل ہیں۔ قادر بلوچ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کھل کر بات کرنے کی جرأت کی ہے۔ ان علاقوں میں سرداروں اور وڈیروں کی مخالفت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ برفت قبیلے کے سربراہ کے طور پر، کوہستان کے ایک سو کے قریب ذیلی قبائل میں سے سب سے بڑے، ملک اسد سکندر کو ‘کوہستان کا بادشاہ’ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ’سرداروں کا سردار‘ — اور جامشورو سے پی پی پی کا ایم پی اے — ایک گَھٹتی اور سُکڑتی ہوئی ”سلطنت“ پر راج کر رہا ہے۔ مقامی برادریوں کو زمین چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جہاں وہ نسلوں سے رہ رہے ہیں اور بارانی کاشت، زراعت یا پولٹری/ مویشیوں کی فارمنگ میں جتے ہوئے ہیں، تاکہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
لیکن کراچی کے ان مضافاتی علاقوں میں طویل المدتی نتائج کے ساتھ ایک اور آفت جنم لے رہی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ آج پانی کا عالمی دن ہے، جس کا تھیم ’’زیرِ زمین پانی: پوشیدہ کو ظاہر کرنا‘‘ ہے، یہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا ایک مناسب موقع ہے۔ تباہی دو سطحوں پر ہے۔ سب سے پہلے، تعمیراتی صنعت کی نہ ختم ہونے والی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں ریت یا ریتی بجری کی بے دریغ چوری کے لیے اندھا دھند کھدائی بلا روک ٹوک ہو رہی ہے۔ اس سے زمینی پانی کی ری چارجنگ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے (زمین کی سطح کے نیچے پانی کے ذخیرے، جو بنیادی طور پر بارش کے پانی اور برف کے پگھلنے سے بھرتے ہیں). ریتی بجری کی اس چوری کی وجہ سے زمین تنزلی کا شکار ہے اور علاقے کی ماحولیات، حیاتیات اور فطری نظام تباہ ہو رہے ہیں۔ دوم، زیر زمین پانی کا بے تحاشہ استعمال آبی ذخائر کو خطرناک سطح پر لے جا رہا ہے۔ دونوں مظاہر ایک ساتھ ایک ‘مکمل تباہ کن طوفان’ ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو تیز کر دیں گے اور کراچی کے گرین بیلٹ کے نام سے جانے جانے والے اس علاقے کو بنجر بنانے کی رفتار میں اضافہ ہوگا، اور لاکھوں لوگوں کا معیارِ زندگی خطرے میں پڑ جائے گا۔
گھاس کا تنکا تک نہیں!
بحریہ ٹاؤن کراچی کے شمال میں ایک علاقے میں ڈان کے دورے سے ایک مکمل تباہی کا منظر سامنے آیا: کوئی بھی ریت کی چوری کے لیے کی گئی کھدائی کے بڑے مقامات کو دیکھ سکتا ہے، جنہیں ”دِکّا“ کہا جاتا ہے، جہاں کھدائی کرنے والی مشینوں نے مٹی کی سب سے اوپر کی تہہ کو ہٹا دیا تھا، اسے ایک طرف پھینک دیا تھا جہاں یہ بڑے ٹیلوں کی صورت میں پڑی ہوئی تھی اور نیچے سے ٹنوں زمین نکال لی گئی تھی۔ ملیر کے علاقے پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں، اب جامشورو کو بھی اسی طرح لوٹا جا رہا ہے۔ جامشورو ضلع میں داخل ہوتے ہوئے، کھدائی کرنے والی دیوہیکل مشینوں کو ندی کے اندر اور باہر کام میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے، وہ زمین کو ہٹا کر اسے ڈمپر ٹرکوں میں جمع کر رہے ہیں، جو اسے لے جائیں گے۔ ایک گھنٹہ کے اندر اندر، اوسطاً کم از کم چھ ڈمپر یہاں سے ریتی نوچ کر چلیں گے۔
تھدو ندی کے اندر اور باہر ریتی کے لیے کھدائی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، جس سے وسیع علاقوں کو اس طرح کم کر دیا گیا ہے جو کہ گھاس کے بغیر چاند کی گڑھوں سے بھری سطح کی طرح نظر آتے ہیں۔ پہاڑیوں کو بھی کاٹ کر گرا دیا گیا ہے، اور سڑک کی تعمیر میں استعمال ہونے والی بجری بنانے کے لیے قریب ہی کرشنگ پلانٹ/فیکٹریاں قائم کر دیے گئے ہیں۔ علاقے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان میں سے ایک فیکٹری، جس کے باہر کوئی سائن بورڈ نہیں ہے، وفاقی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر کی ملکیت ہے۔ مقامی ضلعی کمشنر کے دفتر کے ایک ملازم نے ڈان کے ساتھ ایک ملاقات میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
جی پی ایس اور سیٹلائٹ میپنگ کا استعمال کرتے ہوئے، ڈان نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے آس پاس کے ملیر اور جامشورو دونوں اضلاع کے کچھ حصوں میں پڑنے والی کم از کم 4,000 ایکڑ زمین میں اس طرح کی کھدائی کی گئی ہے یا اس وقت کی جا رہی ہے۔ اور یہ اس المیے کا محض ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ جامشورو، بشمول لونی کوٹ اور نوری آباد اندرون سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر ریت کی کان کنی Mining ہو رہی ہے۔ اگرچہ ملیر میں ریتی چوری کے اس طرح کی کھدائی دہائیوں پہلے شروع ہوئی تھی، لیکن کراچی کی ترقی کے ساتھ اس میں شدت آئی اور 60 اور 70 کی دہائی میں ملیر کی ایک دیھ بولھاڑی کی ریت کو عالمی معیار کی ریت کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کھدائی بعد میں جامشورو تک پھیل گئی اور ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ غیر پائیدار سطح تک پہنچ گئی ہے۔ BTK کے قریب زیادہ تر ریتی کے یہ دِکّے (ریتی کی کھدائی کے مقامات کو یہاں دِکّا کہا جاتا ہے) ڈان نے جن کا نقشہ بنایا ہے، وہ 2017 سے پہلے موجود نہیں تھے۔
نقشے میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے آس پاس ریت کے دِکّے نظر آتے ہیں ، بشمول کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود سے پانچ کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر۔ سندھ (کسی بھی زمین سے ریتی (ریت) اور بجری سمیت معدنیات لینے پر پابندی) ایکٹ 2003 کے سیکشن 3 کے مطابق: ”حکومت کی پیشگی منظوری کے علاوہ کوئی بھی شخص کسی بھی زمین سے مٹی، ریتی اور بجری سمیت معدنیات نہیں لے گا۔ کھدائی کے ذریعے یا دوسری صورت میں اس علاقے کے ٹوپوگرافی، آثار قدیمہ، حیاتیات اور ماحولیات پر منفی اثر پڑنے پر کوئی منظوری نہیں دی جائے گی۔“
مائنز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (MMDD)، سندھ، صوبے میں تمام کان کنی کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ ڈان کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر، ڈی جی ایم ایم ڈی ڈی عمر فاروق کے دفتر نے ریت کی کان کنی کی منظوری کی کاپیاں شیئر کرنے سے انکار کر دیا جو فی الحال نافذ العمل ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ جن لوگوں کو کان کنی کی رعایتیں دی گئیں ان کی شناخت خفیہ تھی۔ نہ ہی انہوں نے سروے کے نقشے شیئر کیے، جن کی بنیاد پر ظاہری طور پر منظوری دی گئی تھی، اور جو اس بات کا تعین کرنے میں مدد کر سکتے تھے کہ مائننگ لیز کی شرائط کے مطابق کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی معلومات فراہم نہیں کیں کہ جامشورو میں کتنے رقبے میں کان کنی کی جا رہی ہے۔ ڈان کے نمائندے کو ڈپٹی ڈائریکٹر ندا شعیب نے مطلع کیا: ”ہم آپ کے ساتھ کوئی لسٹ شیئر نہیں کر سکتے… آپ کو چیف انسپکٹر آف مائنز کے دفتر جانا پڑے گا۔ پھر وہ فیصلہ کریں گے کہ وہ معلومات شیئر کر سکتے ہیں یا نہیں۔“
اپنی طرف سے، انسپکٹر مائنز سرمد حبیب نے ڈان کو بتایا کہ جو معلومات مانگی گئیں وہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ ”ڈی جی مائنز اینڈ منرل لیز دینے کے مجاز ہیں۔ ان کے پاس کان کنی Mining کی شرائط و ضوابط کے ساتھ لیز کی دستاویزات اور لیز پر دیئے گئے علاقوں کے نقشے موجود ہیں۔ خود ڈی جی عمر فاروق نے بارہا درخواست کے باوجود ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
آخر میں، ایم ایم ڈی ڈی نے صرف ایک ہی معلومات شیئر کی جو درخواست کی فیس، مراعات، رائلٹی وغیرہ اور ٹی او آرز کی فہرست سے متعلق نوٹیفکیشن تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مؤخر الذکر میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں: "یہ کہ آپ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات کریں اور [sic] سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ایکٹ 2014 کی تمام شرائط و ضوابط پر عمل کریں…”
حقیقت یہ ہے کہ ڈان کی طرف سے جو معلومات مانگی گئیں ہیں، عوام اسے جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے سیکشن 6 (k) کے مطابق: ”ایک عوامی ادارہ فعال طور پر… اس کی طرف سے دی گئی رعایتوں، اجازت ناموں یا اجازتوں کے وصول کنندگان کی مکمل تفصیلات ظاہر اور شائع کرے گا۔“ تو پھر ایم ایم ڈی ڈی سرکاری زمین پر کی جانے والی کان کنی کی تفصیلات کے بارے میں اتنا پریشان کیوں ہیں؟
متعدد ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جامشورو میں ریت کی زیادہ تر مائننگ بغیر کسی قانونی منظوری کے ہوتی ہے۔ سندھ حکومت کے ایک اہلکار کے الفاظ میں: ”مائننگ شروع ہونے سے پہلے، نقشہ سازی کرنا ضروری ہے۔ آپ کہیں بھی کھدائی شروع نہیں کر سکتے، لیکن یہاں یہی ہو رہا ہے۔“ ایک اور نے کہا: ”جامشورو میں ریت کی کان کنی کے لیے صحیح معنوں میں ٹھیکے نہیں ہیں کیونکہ پورے علاقے پر طاقتور جاگیرداروں کا کنٹرول ہے، اور وہ اس کا انتظام کرتے ہیں۔ آپ ان کی اجازت کے بغیر کوہستان میں کہیں بھی کھدائی نہیں کر سکتے۔“
مہران یونیورسٹی کے مائننگ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فہد عرفان صدیقی کہتے ہیں، ”جہاں تک مائننگ کے پروٹوکول اور معیارات، جسے ہم مائننگ کنسیشن رولز کہتے ہیں، کا تعلق ہے، ہم ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں“ ”قواعد کی گنجائش بھی بہت محدود ہے۔ لیز ہولڈر لیز دینے والی کمیٹی کو ایک ترقیاتی اسکیم پیش کرتا ہے — آپ کان کو کیسے چلائیں گے، اور دن کے اختتام پر آپ اس پر دوبارہ دعویٰ کیسے کریں گے؟ آپ کھدائی کی گئی زمین کو کسی حد تک کیسے بحال کریں گے؟ کیا یہ ایک اور ڈمپنگ گراؤنڈ بن جائے گا یا آپ وہاں پودے/درخت لگائیں گے؟ یہ سب اس کا حصہ ہونا چاہیے۔‘‘
اس کی بجائے یہ سرگرمی اتنی غیر منظم ہے کہ ایم ایم ڈی ڈی کے دعووں کے برعکس نجی زمین سے بھی بڑی مقدار میں ریتی اٹھائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں جب مول ندی کے ساتھ زرعی اراضی کے کچھ مالکان نے اپنی زمین پر ریتی اٹھانے کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو مقامی بااثر افراد نے انہیں انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دیں اور وہ پیچھے ہٹ گئے
ناجائز منافع
غیر قانونی طور پر ریتی چوری کے ناجائز منافع کو اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے: ہر ڈمپر کا مواد بحریہ ٹاؤن کراچی کے اندر 27,000 روپے، سہراب گوٹھ میں 30,000 روپے میں اور اگر فاصلے کے لحاظ سے آگے فروخت کیا جائے تو اس سے زیادہ۔ بعض اوقات، اگر نجی زمین سے ریتی اٹھائی جا رہی ہو، تو ٹھیکیدار مالک کو دو ہزار سے ڈھائی ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ ڈمپر بھرنے والے لوڈر (شاول) کا مالک 6,000 روپے؛ مقامی وڈیرے، جنہیں کمدار کہا جاتا ہے، ضلع جامشورو میں دیہہ مول اور ملیر ضلع میں ڈیہہ بولاری کے درمیان سرحد کے قریب ترین گوٹھ میں گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دینے کے لیے 1,300 روپے ‘ضلع بندی ٹیکس’ وصول کرتے ہیں، جبکہ بحریہ ٹاؤن ‘روڈ ٹیکس’ کے نام سے یہاں سے گزرنے والے فی ڈمپر سے پانچ سو سے سات سو روپے وصول کرتا ہے. ایندھن اور دیکھ بھال کے باقی کے اخراجات – درجہ بندی کے بااثر اسٹیک ہولڈرز کو جاتا ہے، جن میں پولیس اور مبینہ طور پر قبائلی سردار شامل ہیں. ایک ڈمپر ڈرائیور نے ڈان کو بتایا کہ تقریباً 65 ڈمپر روزانہ 24 گھنٹے تین چکر لگاتے ہیں۔
ڈان کی جانب سے 2018 میں کی گئی تحقیقات سے پتا چلا کہ ملیر میں ریتی اٹھانے اور اس کے لیے کھدائی کرنے پر دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود رات کے وقت یہ کارروائی بغیر کسی چیکنگ کے جاری رہی اور اس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار کے ماتحت علاقے کی پولیس نے اس پر یہاں قتل بھی کیا۔ ہر ٹھیکیدار نے پولیس والوں کو فی ڈمپر 20,000 روپے فی رات ادا کیے، چاہے اس نے کتنے ہی پھیرے لگائے ہوں۔ ہر رات ہر دِھکا (ریتی کھدائی کی جگہ) سے زمین کی اوپر تہہ ہٹانے کے لیے 100 ڈمپر ہو سکتے ہیں۔ تاہم، فی الحال ملیر میں پابندی کا نفاذ ہو رہا ہے، شاید محض میڈیا کو دکھانے کے لیے!
ریت کی چوری ایک بہت ہی منافع بخش کاروبار ہے اور اس کا فائدہ قانونی طور پر متعین بہت ہی ہلکی سزا یا سرزنش کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے: پہلی سزا کے لیے تین ماہ کی قید اور 10,000 روپے سے زیادہ جرمانہ؛ اور اس کے بعد کسی بھی جرم کی صورت میں، ایک سال تک قید اور 20,000 روپے سے زیادہ جرمانہ۔
یہاں تک کہ پی پی پی کی زیرقیادت حکومت کے اپنے قانون ساز جب بھی قانون کی لاپرواہی کے باعث ہونے والی ریتی کی کھدائی، چوری اور لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں کوئی توجہ نہیں ملتی۔ 23 جولائی 2019 کو لکھے گئے خط میں اور وزیر مائنز اینڈ معدنیات میر شبیر بجارانی کو لکھے گئے ایک خط میں، ایم این اے نفیسہ شاہ نے "کوٹ ڈیجی کے علاقے میں اندھا دھند، حد سے زیادہ، غیر قانونی کان کنی کی طرف اشارہ کیا، جس میں شاندار قدیم اور قدرتی ارضیاتی پہاڑیاں ہیں…. ایم ایم ڈی ڈی نے 99 سال سے زائد عرصے کے لیے 200 سے زیادہ سائٹس لیز پر دی ہیں۔ میں نے اس سے قبل وزیر اعلیٰ اور سیکرٹری وائلڈ لائف اینڈ فاریسٹ کو خطوط لکھے ہیں کہ اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دیا جائے۔ تاہم اب تک اس علاقے کے قدرتی اور حیاتیاتی ورثے کے تحفظ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ خط میں کھدائی سے مراد چونا پتھر کی کھدائی ہے، جو اس تحقیقات کے دائرہ سے باہر ہے، یہ صورت حال حکومت کی بے حسی اور طویل مدتی فوائد پر منافع کو ترجیح دینے کی حرص کو واضح کرتی ہے
دورے کے دوران، مقامی لوگ ڈان کی ٹیم کو مول ندی کے ساتھ ایک خوبصورت مقام پر لے گئے، پانی کا یہ بہاؤ کراچی سے تقریباً 30 میل دور ملیر ندی میں گرتا ہے۔ یہاں کھدائی اور کٹائی کی وجہ سے پتھریلی سطح کئی جگہوں پر مکمل طور پر نظر آتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کے پروفیسر اور ملیر کے رہائشی رُخمان گل پالاری یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’آپ نے ان پتھروں میں سے کسی کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔ مول ندی میں بہت سی مچھلیاں ہوا کرتی تھیں۔ ہم ایک اجرک کو پانی کی سطح کے بالکل نیچے رکھتے اور اس میں دو تین مچھلیاں پھنس جاتیں۔“
اب وہ زمانے کب کے یو ہو چکے۔ ملیر اور جامشورو میں، 2000ع اور 2021ع کے درمیان کے سالوں کے دوران اوسط سالانہ بارش میں فرق آیا ہے۔ لیکن ریت کی بے رحمانہ کھدائی اور چوری نے اس کے اثرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ریت ایک اسپنج کی طرح کام کرتی ہے، قیمتی بارش کے پانی کو جذب کرتی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جب کھیرتھر رینج پر بارش ہوتی ہے، جو سندھ اور بلوچستان کے درمیان سرحد کے ساتھ گزرتا ہے، تو مول اور ملیر کی پہاڑی ندیوں کو پانی سے بھر دیتی ہے۔ تاہم، جب ندی سے ریت کو ہٹایا جاتا ہے، تو پانی کو جذب کرنے کے لیے درکار پوروسیٹی کم ہو جاتی ہے
ایک کسان نے ڈان کو بتایا: ”کچھ جگہوں پر، انہوں نے 40 فٹ تک کھدائی کی ہے۔ کیا آپ 40 فٹ ریت کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت کا تصور کر سکتے ہیں؟“
ندی میں اور اس کے کنارے پر ضرورت سے زیادہ ریت کی کھدائی پانی کے قدرتی بہاؤ میں خلل ڈالتی ہے اور جذب کرنے قوت ختم ہونے سے اس کی رفتار کو اس قدر تباہ کن حد تک بڑھا دیتی ہے کہ یہ کسی بھی اسٹرکچر سے ٹکرا کر اسے تباہ کر سکتا ہے ، جس میں ہائی وے پلوں کی بنیادوں کے ڈھیر اور بارش کے پانی کے چیک ڈیم شامل ہیں۔
مہران یونیورسٹی کے مائننگ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر صدیقی کہتے ہیں، ’’جن قدرتی راستوں کے ساتھ بارشوں کے پانی کا بہاؤ گزرتا ہے ان کی خرابی سے بہاؤ کے انداز میں خلل پڑتا ہے۔ گلشن معمار اور سعدی ٹاؤن جیسے علاقوں میں ہم جس قسم کے سیلاب کو دیکھ رہے ہیں، اس میں زمین کی کٹائی ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے“
ملیر لنک روڈ پر کاٹھور پل بھی کئی سالوں سے غیر محفوظ بنا ہوا ہے، کیونکہ آس پاس میں ریت کی کان کنی نے پانی کے بہاؤ کا انداز بدل دیا ہے اور ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے یہ ناقابل استعمال ہو گیا ہے۔ ٹریفک کے لیے ملیر ندی کے اندر کاز وے بنانا پڑا۔ ملیر ڈیم کو نقصان بھی اسی وجہ سے ہے۔ سیٹلائٹ کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ 2004 میں ندی کا بیڈ اور اس کے اردگرد کی نباتات اپنی قدرتی حالت میں تھیں۔ 2021 میں، دیکھا جا سکتا ہے کہ ریت کی کان کنی نے ندی کے بیڈ کو بری طرح خراب کر دیا ہے۔ اس کا پہاڑی طوفان کے بہاؤ پر اثر پڑے گا، جو بالآخر ڈیم کے ڈھانچے کو متاثر کرے گا۔
مزید یہ کہ علاقے کی حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ اور ناقابل تلافی ہے۔ مٹی کی اوپری تہہ ماحول کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس پر ماحول کا دباؤ ہے؛ دوسری جگہوں سے ہوا کے دھاروں پر منتقل ہونے والے پودوں کے بیج اس پر جمع ہوتے ہیں، اور بارش اس اوپری تہہ میں حیاتیاتی سرگرمی کو جنم دیتی ہے۔ اس موضوع پر ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ’’لہٰذا سب سے اوپر والے ایک سے دو فٹ، جنہیں بننے میں صدیوں کا وقت لگتا ہے، بہت زرخیز ہوتے ہیں۔ جب لوگ ریت کی کان کنی شروع کرتے ہیں، تو سب سے پہلے اوپر کی تہہ کو ہٹا دیا جاتا ہے، جہاں وہ تمام نامیاتی مواد ہوتا ہے، جس میں پودے اگتے ہیں، جس میں کیڑے مکوڑے اور چوہے جیسے چھوٹے جانور رہتے ہیں۔ یہ مقامی حیاتیاتی تنوع اور ماحولیات کو تبدیل کرتا ہے کیونکہ مٹی کے اندر مائکروبیل سرگرمیوں کے لیے غذائیت کی قدر کا سلسلہ متاثر ہو جاتا ہے۔“
چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ریت کی کان کنی کھیرتھر نیشنل پارک کی باضابطہ طور پر متعین شدہ حدود کے قریب بھی ہو رہی ہے، قریب ترین سائٹ پانچ کلومیٹر سے بھی کم دور ہے۔ کھیرتھر ملک کا تیسرا سب سے بڑا قومی پارک ہے، اور IUCN کی طرف سے کیٹیگری II کے محفوظ علاقے کے لیے مقرر کردہ سخت معیار کے لیے اہل ہے، جو بنیادی طور پر ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ ماہر ماحولیات ناصر پنہور کہتے ہیں، ’’یہ پارک کا بفر زون ہے جو پارک کی طرح ہی اہم ہے اور یہاں کوئی سرگرمی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
وہ کہتے ہیں ”90 کی دہائی کے اوائل میں، سول سوسائٹی کے کارکنوں کی طرف سے احتجاج کے بعد کراچی سے سہون تک کوہستان تک ہائی وے بنانے کا منصوبہ روک دیا گیا۔ مقامی سیاسی شخصیات نے بھی ان کی حمایت کی کیونکہ وہ اس علاقے سے گزرنے والی سڑک نہیں چاہتے تھے، جس سے مقامی کمیونٹیز کو بیرونی دنیا سے روشناس کرایا جائے اور ان کی رٹ کمزور ہو۔ چنانچہ انہوں نے علاقے کی حیاتیاتی تنوع سے متعلق وجوہات کا بھی حوالہ دیا حالانکہ ان کی وجوہات خالصتاً سیاسی تھیں۔ وہ اب احتجاج کیوں نہیں کر رہے؟“
اس علاقے میں کم از کم 14 چھوٹے ڈیم اور چیک ڈیم ہیں۔ ان میں سب سے پرانا تھڈو ڈیم ہے، جو 2004 میں موسمی تھدو ندی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ آٹھ چیک ڈیم نسبتاً نئے ہیں، جو 2014 کے بعد سے بنائے گئے ہیں، جب بحریہ ٹاؤن کراچی پر پہلی بار تعمیر شروع ہوئی تھی۔ ایک 2021 کے آخر میں سامنے آیا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ اس علاقے میں مقامی کمیونٹیز کی زمینیں کم از کم 2015ع سے BTK کے حوالے کی جا رہی تھیں، ایک حیران کن بات یہ ہے کہ چیک ڈیم آخر کس کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ سندھ حکومت، جس کے ذمہ داران زمینوں پر قبضے میں ملوث تھے۔
چیک ڈیم پانی کے بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں، چینل (‘پرزم’) کے میلان کو چپٹا کرتے ہیں جس میں یہ بہتا ہے اور اس طرح اس کی رفتار کو کم کر دیتا ہے۔ رفتار میں یہ کمی پانی کو ریت کے ذریعے بہنے اور زمینی پانی کو ری چارج کرتی ہے، جو کہ چیک ڈیموں کے بہت سے استعمال میں سے ایک ہے۔
زمینی پانی کو ری چارج کرنا بالکل وہی ہے جس کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس شعبے کے ایک ماہر کے مطابق: ”مجھے نہیں لگتا کہ اس کا اخراج اتنا زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں وہ ایسا کرتے ہیں، وہ اوپر کی طرف ایکویفر تک گہرے سوراخ کرتے ہیں اور اسے کچل کر بھر دیتے ہیں کیونکہ جب پانی کسی رکاوٹ کو پورا کرتا ہے تو یہ تیزی سے نیچے گر جاتا ہے۔ ہم صرف سطح پر کام کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کوئی ریڈنگ لینے کے لیے پیزو میٹر نصب نہیں ہیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ بارشوں کے دوران پانی کتنا بلند ہوا ہے، زمینی پانی کی ری چارجنگ دراصل کتنی ہو رہی ہے۔“
24 گھنٹوں میں 26 ملین گیلن پانی
ضرورت سے زیادہ ریت کی کان کنی کے نتیجے میں، کوئی توقع کرے گا کہ برسوں کے دوران سبز احاطہ کم ہو جائے گا، اور علاقہ مزید بنجر ہو جائے گا۔ اس کے برعکس، نارملائزڈ ڈیفرنس ویجیٹیشن انڈیکس (یا این ڈی وی آئی) نقشے، جو ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں، ایک حیران کن رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جب کہ 2013 اور 2017 کے درمیان پودوں کی زیادہ تر اقسام میں کمی واقع ہوئی، 2017 اور 2021 کے درمیان اعتدال پسند، گھنے اور انتہائی گھنے پودوں میں اضافہ ہوا۔ لیکن یہ کسی حوصلہ افزا خبر کا ثبوت نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وضاحت اس حقیقت سے کی جا سکتی ہے کہ زیر زمین پانی کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کے ماہر محمد توحید کے مطابق: ”بڑھتے ہوئی پودوں کے پیچھے ایک اور عنصر کراچی اور اس کے گردونواح میں 2020ع میں ہونے والی بہت زیادہ بارشیں ہیں۔“
توفیق پاش موراج کا ملیر میں 1974 سے ایک فارم ہے اور وہ اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح علاقے کی پانی کی حرکیات کو سمجھتے ہیں۔ ”شروع میں وہ بالٹیوں سے پانی نکالتے تھے، پھر ڈیزل انجنوں سے اور پھر بجلی کی موٹروں سے۔ پانی کی مقدار ہم فی کنواں پھیلا کر نکال سکتے تھے اور ہم نے زیادہ سے زیادہ پانی نکالنا شروع کر دیا۔“
انہیں علاقے کا ایک کسان یاد ہے، جس نے بتایا کہ اس کے آباؤ اجداد صرف دو ایکڑ پر کاشت کرتے تھے۔ ”جیسے جیسے خاندان بڑھتا گیا، انہوں نے اپنے استعمال کے لیے اور شہر میں پیداوار بھیجنے کے لیے زیادہ سے زیادہ زمین کاشت کی۔ جب میں نے ان سے بات کی، وہ 80 ایکڑ پر کاشت کر رہے تھے۔ شروع میں ان کے پاس ایک کنواں تھا، آخر تک شاید تین یا چار کنوئیں۔“
ایک اور ماہر نے ملیر کی ’ہریالی‘ کا جزوی طور پر سہرا ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو دیا۔ 2000 کی دہائی کے وسط میں، انہوں نے سینئر بیوروکریٹس کو ملیر کے میمن گوٹھ میں زمین کے بڑے قطعات تحفے میں دیے۔ انہوں نے بہت سارے ٹیوب ویل لگائے اور اس سے زراعت کو تقویت ملی۔ انہوں نے کہا ”آپ 2010 کے بعد سیٹلائٹ کی تصاویر پر سبزہ زار میں فرق دیکھ سکتے ہیں“
تعمیراتی مقاصد کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور آس پاس کے بحریہ ٹاؤن کراچی جیسے بڑے پروجیکٹ کو لاکھوں اور لاکھوں گیلن کی ضرورت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کیس میں 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قائم کیے گئے بینچ کی سماعت کے دوران نیب نے کئی خفیہ پیش رفت رپورٹس عدالت میں پیش کیں۔ تیسری پیش رفت رپورٹ میں بتایا گیا کہ ”بحریہ ٹاؤن بغیر کسی قانونی کور یا حکومت کو فیس کی ادائیگی کے 59 بوروں سے تقریباً 1.77 ملین گیلن روزانہ کے حساب سے زیر زمین پانی نکال رہا تھا۔“
انڈیجینس رائٹس الائنس سندھ کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور معروف تاریخ دان، ماہر بشریات اور مصنف گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ ملیر میں 200 سے زیادہ سبمرسیبل پمپ ہیں اور وہ 24 گھنٹے میں 26,000,000 گیلن پانی نکال سکتے ہیں۔ ہائیڈرنٹ مالکان اس پانی کو علاقے کی مختلف ہاؤسنگ سکیموں کو فروخت کرتے ہیں
زمینی پانی کا بڑے پیمانے پر اخراج لامحالہ ایک اور بتدریج خطرے کو جنم دیتا ہے: سمندری کھارے پانی کا دخل! کھارا / سمندری پانی زمینی پانی سے 2.5 فیصد زیادہ بھاری ہے، اس لیے زیرِ زمین پانی کی کمی سمندری پانی کو خالی جگہ میں گھسنے کی اجازت دے گی، جو زمینی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی، جس سے کراچی اور ڈیلٹا کے علاقے میں لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہو جاتی ہے۔ زیرِ زمین پانی کا زیادہ استعمال بھی زمین کے کچھ حصوں کے ڈوبنے کا سبب بنتا ہے۔ زیرِ زمین پانی کی یہ کمی کوئٹہ اور لاہور میں پہلے ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
جامشورو کی مہران یونیورسٹی میں یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان واٹر کے 2018 کے مطالعے میں 2001 کی ایک حکومتی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، جس میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ سندھ کی کل قابلِ کاشت زمین کا تقریباً 12 فیصد کھارے / سمندری پانی کے داخل ہونے کی وجہ سے تباہ ہو گیا ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق، صوبہ اسی وجہ سے روزانہ تقریباً 80 ایکڑ اراضی سے محروم ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہری علاقوں کے نزدیک ملیر کے کچھ کسانوں نے 90 کی دہائی کے وسط سے آخر تک اپنے کنوؤں کا پانی بڑھتا ہوا پایا کیونکہ آبادی کے دباؤ کی وجہ سے سیوریج کا پانی سٹارم واٹر ڈرین میں موڑا جا رہا تھا۔ یہ بھی سمندر کی طرف بہتا تھا، لیکن اس کا کچھ حصہ ندی کے کنارے سے جذب ہو گیا اور زیرِ زمین پانی کو ری چارج کرنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ آلودہ میٹھا پانی تھا، جو نہ صرف رہائشی سیوریج ہے بلکہ تجارتی اور صنعتی سیوریج بھی ہے اور یہ سمندری پانی کو روک نہیں سکتا۔
ملیر کے کسان، مسٹر موراج کے مطابق: ’’90 کی دہائی سے میرے کنویں کا پانی 100 فٹ تک بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس کا ٹی ڈی ایس 4,800 ہے۔ زیادہ سے زیادہ ٹی ڈی ایس (TDS) جس میں آپ زراعت کر سکتے ہیں، 1,200 ہے۔ ہم مزید پپیتا اور امرود نہیں اگا سکتے، کوئی شریفہ یا گریپ فروٹ نہیں۔ اس سے پہلے ہمارے یہاں پھلوں کی 30 اقسام تھیں، جنہیں ہم اپنے کنویں کے پانی سے اگاتے تھے۔
فطرت ہمیشہ پوشیدہ اور دھیرے دھیرے اپنا کام سرانجام دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے یہ لوگوں کو چیزوں کو درست کرنے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے اور بزبانِ حال ہمیں پیغام دیتی ہے کہ اب بھی وقت ہے، فطرت کے ساتھ کھلواڑ سے باز آجاؤ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم مادی فوائد کے حرص کے اندھے پن میں یہ دیکھنے کو تیار نہیں ہیں کہ آگے کیا ہے، ہم یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم نہیں رکے تو فطرت اپنا انتقام ضرور لیتی ہے.. بدقسمتی سے ہم ایک قابلِ عمل مستقبل کے بجائے مختصر مدت کے مالیاتی فوائد کا انتخاب کرتے ہیں۔ قادر بلوچ جیسے کئی بے گھر کسان ہیں، جو انسانوں کے اس لامحدود لالچ کی وجہ سے مسلسل آنے والے عذاب کا سامنا کر رہے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ڈان نیوز میں شائع ہوا، جسے اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ترجمہ کرکے ادارے اور مصنفہ کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں شائع کیا گیا.