بیس برس کا ایک نوجوان جو نشے کی اذیت سے گزر رہا تھا، منشیات سے بحالی کے سینٹر کی راہداری سے بڑے اشتعال میں گزرتا ہے
ٹی وی والے کمرے میں خوش نما لباس میں ملبوس ایک نوجوان عورت صحتیابی کے بعد کے مرحلے میں تھکے تھکے انداز میں سگریٹ کے کش لیتی ہے اور پھر اپنا سر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیتی ہے
ملک شام میں ایک عشرے سے جاری جنگ بھلے ہی ختم ہو گئی ہو لیکن منشیات کے استعمال کی وجہ سے ملک ایک ’نارکو اسٹیٹ‘ میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس خطے میں بدحالی کے نئے بیج بو رہا ہے
اردن کے دارالحکومت عمان کے الرشید ہسپتال کے کمرے کسی ہوٹل کے کمروں جیسے نظر آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں لیکن یہاں چیک ان کرنا مایوسی کا عمل ہے
اس ہسپتال کی نرس نے بتایا ’یہ ایک طویل عمل ہے۔ مریض کم از کم ایک ماہ اور کبھی کبھی تین ماہ تک یہاں ٹھہرتے ہیں۔‘
اس ہسپتال میں داخل ہونے والوں کا تعلق اردن اور خلیجی عرب ریاستوں سے ہے، جہاں ”کیپٹاگون“ نامی منشیات ایک عام نشہ بن چکی ہے، جو شام اور لبنان میں سستے داموں تیار ہوتی ہے اور اسے ’غریب آدمی کی کوکین‘ کہا جاتا ہے
کنسلٹنٹ ماہر نفسیات اور کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر علی القم کہتے ہیں ’کیپٹاگون استعمال کرنے کے نتائج بہت سنگین نکلتے ہیں۔ ان میں تشدد اور نفسیات مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’اس کی لت بھی لگ جاتی ہے۔ لوگ اکثر ایک گولی سے شروع کرتے ہیں اور پھر دو یا تین تک بڑھ جاتے ہیں، پھر کرسٹل میتھ جیسی سنگین دوا پر منتقل ہو جاتے ہیں‘
کہا جاتا ہے کہ شام میں تنازعہ کے عروج پر، اسمگلروں اور عسکریت پسند گروپوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیپٹاگون کی سپلائی، جس میں کیفین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، کو جنگجوؤں کی ہمت بڑھانے اور فرنٹ لائن پر چوکنا رہنے میں مدد دینے کے لیے فراہم کیا
جائز روزگار کے مواقع محدود ہونے اور بڑھتی ہوئی غربت کے باعث بہت سے عام شامی شہری بھی منشیات کے کاروبار میں ملوث ہو گئے
شام کی معیشت ایک دہائی کی جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے اور رہی سہی معیشت بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔ ان حالات میں منشیات کا کاروبار اربوں ڈالر کی صنعت میں تبدیل ہو چکا ہے، جس کی مالیت کسی بھی قانونی برآمدات سے کہیں زیادہ ہے
اگرچہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے اعلی سرکاری اہلکاروں کے منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کی خبروں کی سختی سے تردید کی جاتی ہے، لیکن بعض اطلاعات کے مطابق شامی فوج کی طاقتور شخصیات کیپٹاگون کی تیاری اور تقسیم میں شامل ہیں
قبرص میں قائم ایک کنسلٹنسی سینٹر فار آپریشنل اینالیسس اینڈ ریسرچ (سی او اے آر) کے شامی تجزیہ کار ایان لارسن کہتے ہیں ’جن علاقوں میں کیپٹاگون کی پیداوار سب سے زیادہ ہے، وہ اسد حکومت کے زیر کنٹرول ہیں اور حکومت کے ان خاندانوں سے قریبی تعلقات ہیں‘
اس سال کے آغاز سے اب تک فوج نے چرس کے سترہ ہزار پیکٹ اور کیپٹاگون کی ایک کروڑ ستر لاکھ گولیاں برآمد کی ہیں۔ سنہ 2021ع میں کیپٹاگون کی ایک کروڑ پچپن لاکھ گولیاں جبکہ سنہ 2020ع میں چودہ لاکھ گولیاں برآمد ہوئی تھیں
اردن بڑی حد تک منشیات کی سب سے بڑی منڈی اور خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کے لیے ایک ٹرانزٹ روٹ ہے
اردن کی فوج کے کرنل زید الدباس کہتے ہیں ’ہم نے حال ہی میں جو سب سے خطرناک چیز دیکھی ہے، وہ اسمگلروں کے ساتھ مسلح گروہوں کی موجودگی ہے‘
ان کا اندازہ ہے کہ جنوبی شام میں تقریباً ایک سو ساٹھ گروپ کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ’منظم جرائم کی طرح نئے حربے‘ ہیں اور وہ ڈرون اور مہنگی ترین گاڑیاں استعمال کرتے ہیں
جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے اور ایک اردنی فوجی کے قتل کے ساتھ فوج نے بھی اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کر لی ہے اور اب موقع پر گولی مارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے
27 جنوری کو فوج کا کہنا تھا کہ ستائیس اسمگلروں کو اس وقت مار دیا گیا، جب وہ سرحد کے ساتھ کئی مقامات پر اردن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ الگ الگ کارروائیوں میں چار دیگر افراد بھی مارے گئے
فوج اس کے لیے مزید تعاون چاہتی ہے جو اردن کی فوج کے ایک افسر کے مطابق سرحدوں پر ’غیر اعلانیہ جنگ‘ کے مترادف ہے
کرنل مصطفیٰ الحیاری کہتے ہیں ”ہم خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سے لڑ رہے ہیں۔ منشیات ہمارے خاندانوں، اخلاقیات اور اقدار کو تباہ کر رہی ہیں“