بھارت میں مبینہ اجتماعی زیادتی کی شکایت لے کر پولیس اسٹیشن پہنچنے والی کم عمر دلت لڑکی ایس ایچ او کی جنسی درندگی کا نشانہ بن گئی
اترپردیش میں ایک تیرہ سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ جب وہ تھانے میں اپنے ساتھ ہونے والے اجتماعی ریپ کی شکایت درج کروانے گئیں تو تھانیدار نے ہی ان کا ریپ کر دیا
پولیس کے مطابق ان اہلکار کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اُنھیں معطل کر دیا گیا ہے۔
مذکورہ اہلکار کی گرفتاری بدھ کی شام عمل میں آئی اور اُنہوں نے خود پر لگنے والے الزام کا انکار کیا ہے
لڑکی کا الزام ہے کہ گذشتہ ماہ چار افراد نے اُنھیں اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا تھا
یہ خبر سامنے آنے کے بعد بھارت میں اشتعال پھیل گیا ہے اور لوگ سوشل میڈیا پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں
پولیس کو اپنی شکایت میں لڑکی کے والد نے الزام عائد کیا کہ چار افراد اُن کی بیٹی کو پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش لے گئے اور وہاں چار دن تک اُن کا ریپ کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ لوگ لڑکی کو واپس ضلع للِت پور میں اُن کے گاؤں میں چھوڑ گئے
این ڈی ٹی وی کے مطابق جب اگلے دن لڑکی اپنی خاتون رشتے دار کے ساتھ مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانے گئی تو تھانیدار نے بھی اُن کا ریپ کر دیا
للِت پور کے ضلعی پولیس چیف نِکھل پاٹھک نے میڈیا کو بتایا کہ لڑکی کو ایک مقامی این جی او چائلڈ لائن اُن کے پاس لے کر آئی تھی، جس نے اُنھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا
‘جب مجھے پتا چلا تو میں نے یقینی بنایا کہ یہ مقدمہ درج ہو۔’
اس واقعے کے بعد بھارت کی سب سے آبادی والی ریاست میں امن و امان کی صورتحال پر سوالات اٹھ رہے ہیں
کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے اپنی ایک ہندی ٹویٹ میں لکھا کہ ‘اگر خواتین کے لیے تھانے بھی محفوظ نہیں ہیں تو پھر وہ شکایت کے لیے کہاں جائیں گی؟’
اُنھوں نے مزید کہا کہ ‘کیا یو پی حکومت نے تھانوں میں خواتین کی تعیناتی بڑھانے، تھانوں کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے پر غور کیا ہے؟’
بھارت میں دسمبر 2012 سے ریپ اور خواتین کے خلاف جرائم نمایاں توجہ حاصل کرتے رہے ہیں جب دارالحکومت دلی میں ایک نوجوان خاتون کو بس میں وحشیانہ اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بعد میں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئیں
اس واقعے نے عالمی توجہ حاصل کی اور دلی میں عوام نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔ انڈیا کو جنسی جرائم کی بیخ کُنی کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے پڑے۔ سنہ 2020 میں چار افراد کو اس جرم کی پاداش میں سزائے موت دے دی گئی تھی
مگر اب بھی ملک میں ریپ کے ہزاروں واقعات سامنے آتے رہتے ہیں
بھارت میں جرائم کا ڈیٹا سنہ 2020 تک دستیاب ہے جس کے مطابق اس برس 28 ہزار 379 خواتین اور لڑکیوں کا ریپ کیا گیا تھا یعنی ہر 18 منٹ میں ایک ریپ۔
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ کئی واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے کیونکہ اکثر پولیس بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
ریاست اترپردیش پر خواتین کے خلاف جرائم پر سرکاری ردِ عمل کے حوالے سے خاص طور پر تنقید ہوتی ہے
سنہ 2020 میں ریاست اس وقت تنقید کی زد میں رہی جب ایک 19 سالہ لڑکی خود سے اجتماعی ریپ کا انکشاف کرنے کے بعد ہلاک ہو گئیں۔ پولیس اور انتظامیہ نے رات کے اندھیرے میں خاندان کی رضامندی کے بغیر اُن کی لاش کو جلا دیا۔
بھرپور ثبوتوں کے باوجود حکام کا کہنا ہے کہ اُن کا ریپ نہیں کیا گیا تھا
تازہ واقعے میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچی کا تعلق ہندوؤں کی دلت ذات سے ہے
واضح رہے کہ بھارت میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے، انھیں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، ان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں جب کہ قانون بھی انصاف دلانے کے بجائے ظالم کا کردار ادا کرتا ہے.