کراچی کی آبی گذر گاہیں اور ملیر ندی کی حیثیت، چند حقائق

حفیظ بلوچ

آبی گذر گاہیں یا ندیاں فطرت کی انسانوں کو دی ہوئی نعمتیں ہوتی ہیں. انہی دریاؤں کی بدولت انسانی تہذیب کی شروعات ہوئی۔ انہی ندیوں دریاؤں کی بدولت انسان نے زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانا سیکھا۔ انہی ندیوں کی وجہ سے انسان نے اپنے وجود کو پہچانا ـ

ہم اگر کراچی کی جغرافیائی ساخت اور محلِ وقوع اور اس کے ارد گرد نظر ڈالیں تو اس کے ایک طرف کھارا سمندر اور دوسری جانب پہاڑ اور ندی نالے ہیں۔ انہی ندی نالوں نے برسوں سمندر کے کھارے پانی کو سمندر تک محدود رکھا ہے۔ کراچی کا زیرِ زمین موجود میٹھا پانی انہی بچی ہوئی ندیوں کے بدولت ہے۔ کراچی کے ماحولیاتی تحفظ کی ضامن یہی ندیاں ہیں۔

ملیر، جسے کراچی کا گرین بیلٹ مانا جاتا ہے، کراچی کے پورے ماحولیاتی ایکو سسٹم کو اسی ملیر کی زراعت نے بچا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملیر کو کراچی کے پھیپھڑوں/ لنگس کا درجہ حاصل ہے۔ ملیر کی زراعت اس کی سرسبزی انہی ندیوں کی بدولت ہے۔ گڈاپ سے لے کر ملیر تک پانچ چھوٹی بڑی ندیاں مل کر ایک ملیر ندی کا روپ دھارتی ہیں۔ ملیر صدیوں کے تہذیب کا تسلسل ہے، جہاں مختلف قبائل مختلف زبان کے لوگ صدیوں سے ساتھ رہتے آ رہے ہیں، اور یہ تہذیب اسی ملیر ندی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔

دنیا بھر میں ندیوں اور دریاؤں کے حقوق طے کر دیئے ہیں، ان کے حق کو تسلیم کیا جا چکا ہے ـ مگر ہمارے یہاں سب کچھ الٹا ہے۔ ہم نے ہر اچھی چیز کو تباہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ـ دریائے سندھ، جسے شیر دریا کہا جاتا ہے، مگر آج دریائے سندھ اپنی بقا کے سوال لیئے سوکھا پڑا ہے۔ اس کے بہتے پانی پہ اتنے ڈاکے پڑے ہیں کہ اب دریائے سندھ صرف سیلاب کے دنوں میں اپنا غصہ انسانوں پہ نکال پاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کی دو ندیوں میں سے ایک لیاری ندی کو گٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جتنے بھی نالے تھے، انہیں گٹر نالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گجھڑو، ہور ونگی جو میٹھے پانی کی گذر گاہیں تھیں، اب ان میں سیاہ گٹر بہتا ہے۔ مون سون کی بارشوں میں جب برسات کا میٹھا پانی اس گٹر میں شامل ہو کر بہنے لگتا ہے تو اوور ہوجاتا ہے ـ

باقی بچی کراچی کی ملیر ندی، تو ان پچھتر سالوں میں ملیر ندی کی معدنیات ’ریتی بجری‘ کی چوری ریاستی سرپرستی میں جاری ہے، جس کی وجہ سے کراچی کا زیرِ زمین پانی کم ہوتا جا رہا ہے یا کھارا ہوتا جا رہا ہے۔ کورِ ونگی شرافی کی زرعی زمینیں بنجر ہو گئیں، تو وہاں انڈسٹریل زون بنا کر وہاں کے انڈیجینئس پاپولیشن کو، جس میں اکثریت کسانوں کی تھی، وہاں سے اٹھایا گیا یا ان کو ان کے گوٹھوں تک محدود کیا گیا۔ ملیر ندی کے استحصال سے ملیر کی زراعت متاثر ہوئی۔ زمینیں بنجر ہونا شروع ہوئی۔ ان بنجر زمینوں کو یا تو ہاؤسنگ پراجیکٹس کے لیئے بلڈر مافیاز کے حوالے کیا گیا یا انہی زرعی زمینوں پر ملیں بنائی گئیں۔

پچھلے چالیس سال سے ملیر کے باقی بچے کھچے زرعی علاقے میں وہاں کے زمیندار کسان اپنی مدد آپ کے تحت سخت مشکل میں زراعت کرتے آ رہے ہیں۔ اس دوران ریتی بجری مافیا کے خلاف جہدوجہد جاری رہی، جس کی بدولت ریتی بجری چوری کے خلاف قوانین بنائے گئے دفعہ 144 لگایا گیا، یہ قوانین دفعہ 144 آج بھی لاگو ہے مگر ریتی بجری مافیا بلڈر مافیا ریاستی اداروں کے مدد سے ملیر ندی کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی ریتی بجری مافیا کے خلاف جہدوجہد میں ملیر کے ایک عظیم فرزند ایم پی اے عبداللّٰہ مراد کی شہادت کا المناک درد آج بھی ملیر کے لوگ محسوس کرتے ہیں، کرتے رہیں گے ـ

اس ساری صورتحال میں پچھلے دس سالوں میں بدتری ڈی ایچ اے کراچی اور بحریہ ٹاؤن کراچی کے ملیر میں قدم رکھنے سے اور تیزی آئی ـ اب اور شدت سے ملیر ندی کا استحصال جاری ہے، اب تو فطرت کو تباہی کا سامنا ہے ـ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے، جن کی بدولت یہ آبی گذر گاہیں اپنا وجود قائم کیئے ہوئے ہیں، انہی پہاڑوں کو کاٹا جا رہا ہے ۔ ملیر ندی کے ان کیچمینٹ ایریاز میں جو ندی نالے ہیں، انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر ملیر ندی کو تباہ کرنے کے لیئے اسے ایک گٹر کے نالے میں تبدیل کرنے کے لیئے ملیر ایکسپریس وے بنایا جا رہا ہے۔ صرف ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کو ڈیفینس اور کلفٹن سے ملانے کے لیئے۔۔۔ کس طرح چند سرمایہ داروں کے سرمایہ کو تحفظ دینے کے لیئے ایک پورے ایکو سسٹم کو تباہ کیا جا رہا ہے ـ

کراچی جس کا موسم معتدل مانا جاتا تھا، جس کے چار موسم ہوا کرتے تھے، اب وہی معتدل موسم گرمی کے بڑھ جانے اور سردی کے سکڑ جانے سے اہل کراچی والوں کے لیئے عذاب بنتا جا رہا ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافے ہیٹ ویوز سے لوگ مرتے ہیں، یہ سب اس لیئے ہو رہا ہے کہ کراچی کی فطرت کو تباہ کیا جا رہا ہے، اس کے گرین بلیٹ کو تباہ کیا جا رہا ہے، ملیر ندی کو ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہیں،ل۔ اگر یہ سرمایہ دار اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے تو کراچی رہنے کے قابل نہیں رہے گا، کراچی میں سانس لینا مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا ـ

ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کے گرین بیلٹ ملیر کو بچانے کے لیئے تحریک چلائی جائے۔ ملیر ندی کو کراچی کا ماحولیاتی محافظ قرار دے کر اس کے ارد گرد اس کے اندر جتنے بھی ماحولیاتی دشمن منصوبے ہیں، چاہے وہ ملیر ایکسپریس وے منصوبہ ہو یا دیگر غیر قانونی ہاوسنگ اسکیمیں یا فیکٹریاں، ان کو ختم کرنے کے لیئے تحریک چلائی جائے۔ ریتی بجری مافیا کے خلاف لوگوں کو منظم کر کے ریتی بجری کی چوری کو مکمل بند کیا جائے ـ

اس کے لیئے پورے کراچی کے لوگوں کو اپنے بہتر کل کے لیئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور ملیر کے لوگوں کو یہ بات سمجھنا ہوگا کہ ملیر ہے تو وہ ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب وہ ملیر ندی کو بچانے کے لیئے ملیر ندی کو اون کریں اور اس کے تحفظ کے لیئے آگے بڑھیں اور جو اس تباہی کے زمہ دار ہیں، ان کے خلاف مزاحمت کریں ـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close