ملیر ایکسپریس وے کراچی کی ماحولیاتی شہ رگ پر حملہ اور عوام کے 160 ملین ڈالرز کا ضیاع ہے، پریس کانفرنس

نیوز ڈیسک

کراچی کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملیر ایکسپریس وے کا منصوبہ کراچی کی ماحولیاتی شہ رگ ملیر کی زرعی زمینوں کو کاٹ کر فقط اس لئے تعمیر کیا جارہا ہے تا کہ حالیہ دنوں ملیر کی زرخیز زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کر کے ہاؤسنگ سوسائیٹیز تعمیر کرنے والی بلڈر مافیا ان تعمیرات کی قیمت بڑھا سکے

یہ بات ملیر ایکسپریس وے کے براہ راست متاثرین کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں، شہری امور کے ماہرین اور کراچی کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے جانب سے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی

پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا واحد مقصد کراچی کی اشرافیہ کی کالونی ڈی ایچ اے کو ان منصوبوں تک براہ راست راستہ فراہم کرتا ہے، تاکہ ان قبضہ گیر منصوبوں کے دام آسمان کو چھو سکیں

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کے گردشی قرضوں میں پھنسنے اور مہنگائی و بے روز گاری میں آئے دن ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی ایسے منصوبے ہیں، جن کا تعلق کسی پیداوار سے نہیں ہو تا۔ ان منصوبوں کے سبب بلڈرز و کنسٹرکشن مافیاؤں کی لپیٹ میں پھنسی ہماری اقتصادیات روز بروز دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھتی جارہی ہے، محض اس لئے تا کہ یہ مافیائیں اور کرپٹ حکومتیں اپنی تجوریاں بھر لیں

رہنماؤں نے کہا کہ ہم ملیر کے عوام اور یہاں کے عوامی نمائندوں نے ماحول اور دیگر شعبوں کے ماہرین و تنظیموں کے ہمراہ 9 مارچ 2022 کو ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ (SEPA) کی جانب سے انوائرنمینٹل امپیکٹ اسمنٹ (EIA) پر ہونے والی عوامی سماعت میں ناصرف تفصیل سے اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا بلکہ ایک تفصیلی دستاویز بھی جمع کرائی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت سندھ نے عوام، ملیر کے منتخب نمائندوں اور تمام ماحولیاتی و شہری ماہرین کو نظر انداز کرتے ہوئے بالخصوص ملیر کی عوام اور کراچی کے ماحول کو تباہی کی بھٹی میں جھونکنے کے اس منصوبے کا آغاز محض اس لئے کیا کہ اس سے بلڈر مافیا، کنسٹرکشن مافیا اور سندھ حکومت کے کرپٹ وزیر ، مشیر اور افسران اپنی تجوریاں بھر سکیں

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ امپیکٹ اسسمنٹ رپورٹ کراچی کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے، جس میں نہ تو اس علاقے کے عوام و منتخب عوامی نمائندوں کی بات کو سنا گیا نہ ہی شہری پلاننگ اور ماحولیاتی ماہرین کی بات کو سنا گیا۔ یہ بوگس رپورٹ مکمل طور پر ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ لگانے خاص کر رہائشیوں پر پڑنے والے ذاتی ، سماجی اور اقتصادی لاگت کا اندازہ لگانے سے قاصر رہی ہے

پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بغیر کوئی ٹھوس تجزیہ پیش کئے دعوی کیا گیا ہے کہ اس ایکسپریس وے سے یومیہ 9000 گاڑیاں گزرا کریں گی، جس سے موجودہ راستے سے گزرنے کے مقابلے میں 14.3 منٹ کم وقت میں لوگ کلفٹن اور ڈی ایچ اے سے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی پہنچ سکیں گے ۔ بھوک افلاس اور غربت میں ڈوبے اس شہر کی اشرافیہ کو مافیائوں کے نئے منصوبوں تک براہ راست راستہ فراہم کرنے کے لئے 160 ملین امریکی ڈالر کا یہ منصوبہ عوام کے گھروں ، فصلوں اور ماحول کو قربان کر کے تعمیر کیا جارہا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہونے والی ماحولیاتی تباہی کا پہلا نشانہ وہی ڈفینس اور کلفٹن کی آبادی ہوگی، کیونکہ سطح سنندر بلند ہونے کا سب سے پہلے ان ہی علاقوں پر اثر ہو گا۔ اور وہ بھی محض 14.3 منٹ پہلے بحریہ ٹاؤن پہنچنے کے عوض

رہنماؤں نے کہا کہ اس وقت یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ گڈاپ و کاٹھور کی آبادیوں پر قبضہ کر کے عالیشان سوسائیٹیاں قائم کرنے کے بعد ملیر کی یہ گرین بیلٹ ان آخری چند علاقوں میں سے ہے جو کراچی پر آنے والے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے میں کردار ادا کرتی ہے، جسے عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے 160 ملین ڈالرز مافیاؤں کی جیبوں میں ڈالنے کے لئے بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں دانستہ طور پر یہ کہا گیا کہ اس علاقے میں پانی کے وسائل محدود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت ایسے 27 کنویں براہ راست متاثر ہوں گے جو ملیر کی بہت بڑی زرعی اراضی کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے ملیر ندی میں گرنے والی دیگر ندیوں کا بہاؤ بھی متاثر ہوگا جس سے نہ صرف شہر کے بڑے حصے کے لئے پانی کے مسائل بڑھیں گے بلکہ زرعی زمینوں تک پانی کی رسائی ختم ہونے کی وجہ سے فصلیں تباہ، اور بے روزگار اور زرعی پیداوار کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوگا

رہنماؤں نے ملیر ایکسپریس وے کے لیے کی گئی انوائرنمینٹل امپیکٹ اسسمنٹ پروگرام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ Ecological Impact کے حوالے سے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی اور انٹیگریٹڈ بائیوڈائیورسٹی اسسمنٹ ٹول کے حساب سے IUCN کی ریڈ لسٹ میں 118 انواع کی پرجاتیوں کی نشاندہی کی ہے، جو نا پید ہو رہے ہیں جبکہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ پرجاتیاں ملیر کا حصہ ہیں

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اسی طرح رپورٹ میں پرندوں کی 15 اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے، جبکہ ویب سائیٹ Ebird کے مطابق ملیر ڈیم پر 176 سے زائد پرندوں کی شناخت ہوئی ہے، جس میں سے کئی معدومیت کے قریب ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ منصوبہ 39 کلومیٹر کی جنگلی حیات کی نقل و حرکت میں خلل کا باعث بنے گا جسے رپورٹ میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے

انہوں نے کہا کہ منصوبے نے اس بات کی نشاند ہی تو کی ہے کہ اس علاقے سے تیاری کے ساتھ جنگلی حیات ختم ہو رہی ہے مگر اس بات کا ذکر نہیں کہ اس کی وجہ ملیر ایکسپریس وے کی طرح اس حیات کی گردن پر قدم رکھنے والوں میں بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی ، ایجوکیشن سٹی اور ان جیسے دیگر منصوبے شامل ہیں اور ان ہی منصوبوں کو نوازنے کے لئے ایکسپریس وے کے ذریعے مزید تباہی کا انتظام کیا جارہا ہے

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ملکی قوانین کے حوالے سے بھی اس رپورٹ میں تسلی بخش انداز میں کوئی بات نہیں کی گئی کہ ان قوانین کی پابندی کرتے ہوئے آخر ماحول کو تباہ کرنے والا یہ منصوبہ کیسے آئینی اور قانونی تصور کیا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جانور اور موسم کا معاملہ تو ایک طرف رپورٹ نے مقامی آبادی پر پڑنے والے اثرات پر بھی بات کرنا گوارا نہیں کی جبکہ ڈیٹا کے مطابق یہ منصوبہ 1500 سے زائد لوگوں کی رہائش، 210 مستقل مکانات، 66,35 ایکڑ نجی زرعی اراضی اور 49 ایکڑ تعمیرات کو تباہ کرے گا۔ اس کے علاوہ کئی مساجد ، مندر، درگاہیں و دیگر مذہبی، تاریخی اور آثار قدیمہ کے مقامات بھی اس منصوبے کا نشانہ بنیں گے

رہنماؤں نے اس بات پر حیرت کیا کہ منتخب نمائندوں، ماہرین، میڈیا اور مقامی آبادی نے کئی بار اس منصوبے کے ڈیزائن کو تبدیل کرنے کے لئے لکھا بھی اور مظاہرے بھی کئے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں، لیکن SEPA نے جان بوجھ کر ان کو رپورٹ کا حصہ نہیں بتایا اور نہ ہی اس پر کوئی بات کی

رہنماؤں نے کہا کہ سب سے آسان طریقہ حکومت نے یہ نکالا ہے کہ لوگوں کو متبادل دینے کا وعدہ کر کے ان کے گھروں، کاروبار، زمینوں، فصلوں، ماحول اور زندگیوں کو روند کر اس پر اپنی کرپشن کے عالیشان منصوبے تیار کر دے۔ ماضی کے منصوبوں کی طرح اس رپورٹ میں بھی ایک لینڈ ایکویزیشن اینڈ ری سیٹلمنٹ پلان تیار کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے، لیکن یہ سوائے عوام کو رسوا کرنے کے اور کچھ نہیں

رہنماؤں نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے ، اور لنگی اور گجر نالہ متاثرین کو کورٹ نے ایسی جگہ بسانے کا فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تمام جدید ضروریات زندگی بشمول روزگار، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات موجود ہوں اور متاثرین باعزت زندگی گزار سکتے ہوں۔ مگر عالیشان محلوں میں رہنے والے حکومتی عہدیداران نے آج تک ان لوگوں کو ملبے پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا ہے، جہاں خواتین اور بچے کھلے آسمان کے نیچے زمین پر سونے اور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین کے ساتھ تو جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، جبکہ گجرو اور اورنگی کے متاثرین میں سے کئی کی تو آج تک آئی ڈیز رجسٹر نہیں کی گئیں اور پہلا چیک بھی نصیب نہیں ہوا، جبکہ سندھ حکومت اور افسران نے اپنے لوگوں کو متاثرین کے نام سے چیکس بھی دے دیئے ہیں اور متاثرین کو کرائے کی مد میں ملنے والے چیکس حاصل کرنے کے لئے رشوت بھی دینی پڑ رہی ہے ۔ دو سال میں متبادل فراہم کرنے کا فیصلہ ہے لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی جگہ کا تعین تک نہ ہو سکا۔ آخر میں عوامی دباؤ پڑا تو لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی طرح شہر سے باہر کہیں پھینک دیا جاۓ گا، لہٰذا املیر کی عوام اس غنڈہ گر دی اور پاکستان بننے سے قبل آباد ان زمینوں کو تباہ کرنے کی سختی سے مخالفت کرتی ہے

انہوں نے کہا کہ کسانوں کے حقوق اور قومی و بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے بھی یہ رپورٹ مکمل طور پر خاموش ہے اور نہ ہی اس رپورٹ میں مقامی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے اس خط کا ذکر ہے، جو اس منصوبے کے خلاف وزیر اعلیٰ سندھ کو جمع کرایا گیا تھا اور منصوبے کا راستہ تبدیل کر کے زرعی زمینوں، آبادیوں اور چرند پرند و نباتات کو بچانے کی درخواست کی گئی تھی۔ سندھ حکومت کی جانب سے منتخب نمائندوں کی رائے کو نظر انداز کرنے اور کھلے جھوٹ پر مبنی رپورٹ کو شائع کرنے، جس میں زمین کو زرعی اراضی کے بجاۓ تجارتی اراضی لکھا گیا ہے، حکومت سندھ کے غیر جمہوری اور نو آبادیاتی طرز حکومت کو ظاہر کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگ سندھ حکومت سے احساس بیگانگیت کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس شہر سے نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اس شہر کو محض کالونی سمجھا ہے اور خاص کر ان علاقوں میں، جہاں سے وہ جیتتی رہی ہے، بد ترین استحصال کا نشانہ بناتے ہوئے لینڈ ، ڈرگ اور ریتی بجری مافیا اور راؤ انوار جیسے کرپٹ اور ظالم افسران کے حوالے کر دیا ہے

رہنماؤں نے کہا کہ اس منصوبے کے حوالے سے بھی حکومتی بدنیتی اس وقت صاف عیاں ہو گئی، جب EIA رپورٹ جسے منصوبہ شروع ہونے سے پہلے شائع کرنا ہوتا ہے، وہ منصوبہ شروع ہونے کے ایک سال بعد شائع کی گئی، جو ریاست کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور جس طرح کی رپورٹ شائع کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ SEPA سندھ کے ماحول کی حفاظت کرنے کے بجاۓ مافیاؤں کے منصوبوں کو جواز فراہم کرنے اور سندھ کا ماحول خراب کرنے کا ایک ادارہ بن چکا ہے، جس کے افسران عوام کے پیسوں پر پل کر عوام کا خون چوسنے کا کام کر رہے ہیں

رہنماؤں نے کہا کہ کراچی کے عوام ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف قانونی اور سیاسی مزاحمت کو مزید تیز کرنے کا عزم رکھتے ہیں

پریس کانفرنس میں اینٹی ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی کے اسلم بلوچ، حاجی عزیزاللہ ، ماہر جنگلی حیات سلمان بلوچ، انڈیجینئس رائٹس الائنس کے حفیظ بلوچ، لیگل ایڈ کے ایڈووکیٹ کاظم مہیسر، کراچی بچاؤ تحریک کے خرم علی، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی عبیرہ اشفاق، کراچی اربن لیب کی ڈاکٹر نوشین انور، اربن ریسورس سینٹر کے زاہد فاروق اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ کے احمد شبر شریک تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close