گورنر پنجاب کی برطرفی، گورنر ہاؤس پولیس کے حصار میں، اس آئینی بحران پر آئین کیا کہتا ہے؟

نیوز ڈیسک

وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹائے جانے کا نوٹیفیکشن جاری کرنے کے بعد پنجاب میں آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے

وزیر اعظم کی تجویز پر کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں گورنر پنجاب کو ہٹانے اور نئے گورنر کی تعیناتی تک پنجاب اسمبلی کے اسپیکر قائم مقام گورنر کے فرائض انجام دینے کا کہا گیا ہے

منگل کو کیبنیٹ ڈویژن کی جانب سے عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ گورنر پنجاب کو ہٹائے جانے کی سمری کے دن پورے ہونے کے بعد، آئین اور ضابطے کے مطابق، گورنر پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا ہے

واضح رہے اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کی وزیر اعظم شہباز شریف کی سمری کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کا کہا تھا

وفاقی حکومت کے اس اقدام کے بعد پنجاب میں ایک آئینی بحران کی صورت بن گئی ہے کیونکہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا کہنا ہے کہ وہ صدر پاکستان کی ہدایت کے مطابق اپنا کام جاری رکھیں گے

جبکہ دوسری جانب صوبائی حکومت نے گورنر ہاؤس سے گورنر عمر سرفراز کی سکیورٹی کو ہٹاتے ہوئے گورنر ہاؤس میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے

واضح رہے کہ گورنر عمر سرفراز چیمہ اس وقت گورنر ہاؤس میں موجود نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہ پر ہیں

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے موجودہ صورتحال پر قانونی ماہرین سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے

اس وقت گورنر ہاؤس لاہور پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اور اس کے مرکزی داخلی دروازوں پر پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، جبکہ گورنر ہاؤس لاہور کے باہر پولیس کی انٹی رائٹس فورس کی بھی بھاری نفری تعینات ہے

دوسری جانب حکومت پنجاب نے وزیر اعلیٰ حمزه شہباز کی تجویز پر ایڈووکیٹ پنجاب احمد اویس کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے اور اس ضمن میں سمری گورنر پنجاب کو ارسال کر دی ہے

پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ ’تاحال پارٹی لیڈرشپ کی جانب سے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو گورنر ہاؤس جانے کے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی گئیں ہیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج جہلم میں عمران خان کا جلسہ ہے ہم اس کی تیاری میں ہے تاہم اب تک گورنر ہاؤس کے باہر کسی قسم کے احتجاج یا مظاہرے کی ہدایات نہیں ملیں

پنجاب کے”سابق“ گورنر عمر سرفراز چیمہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لیگل آپشنز پر غور کر رہے ہیں اور اپنے لائحہ عمل سے میڈیا کو جلد آگاہ کریں گے

گورنر پنجاب کی برطرفی کے بعد گورنر ہاؤس کو انتظامیہ نے نو گو ایریا بنا دیا ہے، پولیس کی بھاری نفری گورنر ہاؤس کے چاروں اطراف تعینات کر دی گئی ہے جبکہ واٹر کینن اور اینٹی رائٹس پولیس کے دستے بھی گورنر ہاؤس کے تمام دروازوں پر پہرہ دے رہے ہیں

گورنر ہاؤس کے اندر کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں ہے جبکہ مرکزی دروازے پر پولیس کی چیک پوسٹ بھی بنا دی گئی ہے

عمر سرفراز چیمہ کا کہنا ہے کہ وہ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر ہی موجود ہیں۔ جب پولیس تعینات کی گئی وہ اس وقت گورنر ہاؤس میں موجود ہی نہیں تھے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ان سے سیکیورٹی اور پروٹوکول واپس لے لیا گیا ہے

پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ گورنر پنجاب کو صدر پاکستان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جاسکتا۔ آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق ’گورنر صدر مملکت کی رضا مندی تک عہدے پر قائم رہے گا۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’موجودہ گورنر پر نہ تو بدانتظامی کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی کسی عدالت کی طرف سے سزا ہوئی۔ موجودہ گورنر پنجاب نے نہ ہی آئین کے خلاف کوئی کام کیا، ہٹایا نہیں جا سکتا۔‘
صدر پاکستان کے مطابق ’ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے صدر مملکت کا فرض ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق پاکستان کے اتحاد کی نمائندگی کرے۔‘

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے صدر عارف علوی اور گورنر پنجاب عمرسرفراز چیمہ کوخبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چند گھنٹوں کے گورنر موصوف شرافت سے گھر چلے جائیں۔ اپنی عزت مزید خراب نہ کریں تو بہتر ہوگا۔‘

گورنر پنجاب کی برطرفی: آئین کیا کہتا ہے؟

صدر نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے وزیر اعظم کی سمری مسترد کر دی ہے اور وفاقی حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے گورنر کو برطرف کرنے کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس بحران کے موقعے پر سوال یہ ہے آئین کیا کہتا ہے اور آئین کی روشنی میں کس کا موقف درست ہے: صدر کا یا وزیر اعظم کا؟

معروف آئینی اور قانونی ماہر اور تجزیہ کار ایڈووکیٹ آصف محمود اس حوالے سے کہتے ہیں ”ہمارے ہاں ہر معاملے کا حل سیاسی عصبیت سے تلاش کیا جاتا ہے، چنانچہ فطری رجحان یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ہمدردوں کے نزدیک صدر پاکستان کا موقف درست ہے اور تحریک انصاف کے ناقدین کے خیال میں وزیر اعظم کا موقف ٹھیک ہے۔ معاملے کی درست تفہیم کے لیے لازم ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر معاملے کا آئین کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔“

انہوں نے کہا ”آئین کے دو آٓرٹیکل ایسے ہیں جواس معاملے سے متعلق ہیں اور جہاں سے ہمیں رہنمائی مل سکتی ہے۔ ایک ہے آرٹیکل 48 اور دوسرا ہے آرٹیکل 101۔ ان دونوں میں دو مختلف اصول بیان کیے گئے ہیں۔ صدارتی کیمپ کا انحصار ایک اصول پر ہے جب کہ وفاقی حکومت دوسرے اصول پر انحصار کر رہی ہے۔ ہم جب تک فریقین کے موقف کو اس کے دلائل کے ساتھ نہ سمجھ لیں جب تک رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہو گا“

آصف محمود کے مطابق ’صدارتی کیمپ کا موقف یہ ہے کہ گورنر کو ہٹانے کے حتمی اختیارات صدر کے پاس ہیں اور وہ کسی کی مشاورت پر عمل کر تو سکتا ہے لیکن وہ لازمی طور پرایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس موقف کے حق میں دلیل کے طور پر آرٹیکل 101 کی ذیلی دفعہ 3 کوپیش کیا جا رہا ہے جس میں لکھا ہے کہ:

The governor shall hold office during the pleasure of the President

’یعنی جب تک صدر کی خوشنودی حاصل رہے گی، تب تک گورنر اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔ چنانچہ صدارتی کیمپ یہ سمجھتا ہے کہ چوں کہ صدر مملکت گورنر پنجاب سے خوش ہیں اور ان کی خوشنودی گورنر کو حاصل ہے تو اس صورت میں آرٹیکل 101 کے تحت گورنر اپنے منصب پر کام کرتے رہیں گے۔

’وزیراعظم کیمپ اپنے موقف کے حق میں آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 1 کو پیش کر رہا ہے، جس میں لکھا ہے کہ:

In excerise of his functions, the President shall act [on and] in accordance with the advice of the Cabinet or Prime Minister

’یعنی صدر اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرے گا۔ یہاں May کی بجائے Shall کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بتا رہا ہے کہ صدر اس ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔ اور وہ اس ایڈوائس کو رد نہیں کر سکتا۔

’ذیلی دفعہ 2 صدر کو صرف اتنا سا اختیار دیتی ہے کہ صدر چاہے تو 15 دن کے اندر اندر یہ ایدوائس واپس بھیج سکتے ہیں کہ اس پر نظر ثانی کی جائے، اور اس نظر ثانی کے بعد بھی اگر کابینہ یا وزیر اعظم وہی ایڈوائس دوبارہ بھیج دیں تو صدر دس دن کے اندر اندر اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے

’اب معاملہ یہ ہے کہ صدر نے ایڈوائس نظر ثانی کے لیے بھیجنے کی بجائے رد کر دی ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اختیار انہیں کہاں سے حاصل ہوا؟ ذیلی دفعہ ۱یک کے تحت تو صدر اس ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ نظر ثانی کا کہہ سکتے تھے۔ صدارتی کیمپ کے نزدیک اس کا جواب آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 2 میں موجود ہے جہاں لکھا ہے کہ:

’دفعہ 1 میں دیے گئے اصول کے باوجود، اپنے آئینی اختیارات کے استعمال میں صدر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرے گا اور صدر کے ایسے کسی بھی فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

’دلچسپ بات اب یہ ہے کہ آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 1 میں صدر کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایڈوائس کے مطابق کام کرے اور اسی آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 2 میں اسے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرنے کا کہا گیا ہے اور دونوں جگہ May کی بجائے Shall کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

’بظاہر یہ تضاد ہے اور آئین کی تشریح کے معاملے جب متضاد باتیں سامنے آ جائیں تو عدالت اس کی تشریح کرتی ہے۔ لیکن آرٹیکل 48 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت کم از کم یہ معاملہ تو عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

تضاد کے حل کا طریقہ کیا ہے؟

اس بارے میں آصف محمود کا کہنا تھا کہ ’جب فریقین سیاسی عصبیت کی بنیاد پر آئین کی شرح بیان کریں گے تو ظاہر ہے وہاں مقصود آئین فہمی نہیں ہوتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئین میں سے اپنے مفاد کی چیز برآمد کرلی جائے۔ آئین کی شرح کا اصول جب یہ ہو تو تضادات بڑھ تو سکتے ہیں حل نہیں ہو سکتے۔

’ایک شہری کے طور پر البتہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آئین کی پوری سکیم کے اندر رہتے ہوئے کیا آرٹیکل 101 کی ذیلی دفعہ 3 کے وہی معنی ہیں جو صدارتی کیمپ بیان کر رہا ہے؟

میرے خیال میں اس کا جواب اثبات میں دینا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر اس اصول کو مان لیا جائے کہ گورنر اس وقت تک منصب پر رہے گا جب تک اسے صدر کی خوشنودی حاصل رہے گی تو اس طرح تو عمران خان بھی اب تک وزیر اعظم ہوتے۔ کیوں کہ آرٹیکل 91 کی ذیلی دفعہ 7میں یہی اصول وزیر اعظم کے لیے بھی موجود ہے کہ جب تک انہیں صدر کی خوشنودی حاصل رہے گی وہ وزیر اعظم رہیں گے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر رہنے یا ہٹ جانے کا صدر کی خوشنودی سے عملی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

یہاں اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر صدر کی خوشنودی کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ بات آئین میں کیوں لکھی ہے؟

آصف محمود کے مطابق ’اس کا تعلق صدر کی صوابدید سے نہیں بلکہ ان کے منصب کے آئینی طریقہ کار سے جڑا ہے۔ یعنی صدر کی خوشنودی یہ نہیں ہو گی کہ وہ ذاتی طور پر کیا چاہتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مروجہ طریقہ کار کے تحت صدر کیا چایتے ہیں۔

’یہ مروجہ طریقہ کار کیا ہے؟ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ صدر اپنے ’فنکشنز‘ (کارہائے منصبی) میں وزیر اعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پر عمل کرے گا۔ دوسرا حصہ آئین میں وہاں بیان ہوا ہے جہاں کابینہ کا ذکر ہے۔ آرٹیکل 91کی ذیلی دفعہ ایک میں لکھا گیا ہے کہ ایک کابینہ ہو گی جس کا سربراہ وزیر اعظم ہو گا اور جس کا کام صدر کو اس کے ’فنکشنز‘ (کارہائے منصبی) میں مدد کرنا ااور مشاورت دینا ہوگا۔ گویا صدر کے کارہائے منصبی کابینہ کے فیصلوں کے ماتحت ہوں گے۔

تو پھر صدر کی صوابدید کا کیا ہوا؟

بعض ماہرین قانون کا خیال ہے کہ اس کا تعلق صدر کے اختیارات سے ہے اس کے فنکشنز سے نہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ صدر کے اختیارات کو اس کے کارہائے منصبی سے الگ کر کے دیکھا جا سکے اور کیا آئین میں کہیں لکھا ہے کہ ان دونون میں کیا فرق ہو گا اور اس کا دائرہ کار کیا ہو گا؟ یعنی یہ کہ گورنر کی برطرفی کا تعلق صدر کے اختیارات سے ہو گا یا اس کے ’فنکشنز‘ سے؟

’ہمارے آئین کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ اقوال زریں کی صورت موجود تو ہے لیکن ان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا۔ جب عمل ہو گا تو اس کی شرح بھی ہوتی جائے گی اور ابہام بھی دور ہوتے جائیں گے۔ جب کوئی دستاویز عمل درآمد کے مرحلے سے گزرتی ہے تب ہی معلوم ہوتا ہے اس کی خوبیاں کیا ہیں اور کہاں اصلاح کی ضرورت ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close