کراچی کے قریب واقع جزیرے منوڑہ کے ساحل کی تپتی ریت پر، گرم ہواؤں کے جھونکوں کے درمیان سمندری موضوعات پر مصوری کرنے والے محبوب ذاکر کا شمار معاشرے میں ان بے شمار چھپے کرداروں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں ہم میں سے اکثر لوگ لاعلم رہتے ہیں
کراچی کے ضلع کیماڑی اور بندرگاہ سے کچھ دوری پر واقع قدیم جزیرہ منوڑہ مذہبی ہم آہنگی اور سیاحت سمیت کئی تاریخی حوالوں سے جانا جاتا ہے
جزیرہ منوڑہ کراچی کی بندرگاہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا
اصل میں 1797ع میں تالپور میروں نے مٹی کے قلعے کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ اس قلعے پر انگریزوں نے 1839ع میں قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد انہوں نے کراچی اور زیریں سندھ پر قبضہ کیا تھا
انگریزوں نے سندھ پر قبضے کے دوران سب سے پہلے منوڑہ پر ہی برطانوی جھنڈا لہرایا تھا
1995ع سے کراچی یاٹ کلب میں ملازمت کرنے والے محبوب ذاکر منوڑہ صالح آباد کے رہائشی ہیں
محبوب ذاکر ایک مصور ہونے کے ساتھ ساتھ ہوا سے چلنے والی ’کشتی رانی‘ کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں
محبوب ذاکر نے بتایا کہ انہیں پینٹنگ کرتے تقریباً تیس سال ہو گئے ہیں
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”اس وقت ٹیکنالوجی نہیں تھی، تب میں صرف جلے ہوئے کوئلے کو استعمال کر کے دیواروں پر پینٹنگ کرتا تھا“
انہوں نے کہا ”مجھے بچپن سے پینٹنگ کا شوق تھا لیکن میرا ٹیلنٹ کہیں دفن تھا۔ میرے باس منصور احمد نے میری پینٹنگ کی مہارت میں اہم کردار ادا کیا“
ذاکر محبوب نے بتایا ”ایک روز منصور احمد نے مجھے پینٹنگ کرانے کے لیے اپنے ہٹ پر بلایا جہاں وہ میری پینٹنگ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کی وجہ سے کلب کے دو ممبران خالد محمود، ندیم خالد نے مجھے انڈس ویلی میں چھ ماہ کا فری کورس کرایا، جس سے میری پینٹنگ میں مزید مہارت پیدا ہو گئی“
محبوب ذاکر کہتے ہیں کہ شروع شروع میں سمندر کی کوئی پینٹنگ بنا لی یا کوئی جانور، پرندوں کی پینٹنگ بنا لی، آہستہ آہستہ انہیں اس میں مہارت حاصل ہو گئی
ان کا کہنا ہے ’میں پینٹنگ اس طرح کی بناتا ہوں تاکہ لوگوں کو اس میں کچھ نظر آئے، میری پینٹنگ میں کہیں سمندر ہے، مچھلیاں ہیں تو کہیں کچھ پرندے اڑ رہے ہیں‘
وہ کہتے ہیں کہ ان پینٹنگز سے دیکھنے والوں کو محسوس کرنا ہے کہ یہ پرندے کیا بتا رہے ہیں اور یہ نظر آنے والی مچھلیاں کیا کہنا چاہ رہی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت تھا جب میں ساحل سمندر پر لکڑی کے ٹکڑوں سے پینٹنگ بناتا تھا، اس وقت میری استطاعت بھی نہیں تھی کہ مہنگا اور اچھا سامان خرید سکوں۔ آہستہ آہستہ سے اللہ کی مہربانی سے اتنا سامان آگیا کہ میں اب پورے شوق سے پینٹنگ کرتا ہوں۔‘
محبوب ذاکر بتاتے ہیں کہ سمندر کی پندرہ میٹر گہرائی میں جا کر مچھلی کا شکار کر کے گھر چلا رہا ہوں
انہوں نے کہا ’مجھے مصوری کے ساتھ ساتھ کشتی چلانے اور غوطہ خوری کا بھی شوق ہے۔ میں نے پانی میں جا کر اسپیئر ڈائیونگ شروع کی اور پھر پانی میں گن کے ساتھ اسپیئر فشنگ کی‘
ان کا کہنا تھا ’میں بچپن سے ہی سمندر پر رہ رہا ہوں۔ سمندر سے اتنی محبت ہے کہ ’کشتی رانی‘ اور ’اسپیئر فشنگ ڈائیونگ‘ بھی کرتا ہوں۔ کلب ممبرز کے بچوں کو سیلنگ کی ٹریننگ بھی دیتا ہوں‘
محبوب ذاکر کہتے ہیں کہ سمندر ہم نے خود خراب کیا ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں، کچرا سب پھینکتے ہیں۔ سمندر کو پورا گٹر بنا دیا ہے۔ آج سے بائیس سال قبل اتنا صاف پانی تھا کہ بتا نہیں سکتا۔ ”لگتا نہیں کہ ہم اس صاف سمندر میں کھڑے ہیں“
کشتی رانی سے منسلک روزگار کے سوال پر محبوب نے بتایا کہ اس کشتی رانی نے ’مجھے تقریباً پندرہ سے بیس بیرونی ممالک کی سیر کرا دی ہے‘
ذاکر محبوب نے کہا ”اس کشتی کی وجہ سے پورا یورپ گھوم چکا ہوں۔ اس کشتی رانی کی وجہ سے چین، پورا گلف گھوما ہے، اس نے مجھے بہت مزے کرائے“