روس اور چین کا افغانستان سے خطرات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے پر اتفاق

ویب ڈیسک

ماسکو : روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے ابھرنے والے ’خطرات‘ سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر اپنی کوششیں تیز کریں گے

روس کے اعلیٰ حکام کے مطابق ایک ٹیلی فون کال کے دوران روسی اور چینی رہنماؤں نے ’افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا‘

چین کے پیپلز ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر کے ساتھ کال میں چین کے صدر نے عدم مداخلت اور افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرنے کے چین کے موقف کا اعادہ کیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ ولادمیر پیوٹن نے شی جن پنگ کو بتایا کہ وہ افغانستان میں چین کے موقف اور مفادات کا اشتراک کرتے ہیں اور وہ چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ غیر ملکی افواج کو افغانستان میں مداخلت اور تباہی سے بچایا جا سکے

چینی صدر نے افغانستان کی تمام جماعتوں پر زور دیا کہ وہ ایک واضح اور جامع سیاسی فریم ورک بنائیں اوراعتدال پسند، مستحکم پالیسیاں نافذ کریں اور تمام دہشت گرد گروہوں سے تعلقات ختم کریں

ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ روس چین کے ساتھ مل کر دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنا اور افغانستان کے سیکیورٹی خطرات کو ’پھیلنے‘ سے روکنا چاہتا ہے

انہوں نے افغانستان میں امن کے قیام کی اہمیت اور ملحقہ علاقوں میں عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنے کے بارے میں بھی بات کی

روسی اور چینی صدر نے دوطرفہ روابط کو تیز کرنے اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی ’ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے‘ پر اتفاق کیا جو کہ آئندہ ماہ تاجکستان میں ایک سربراہی اجلاس طلب کرنے والی ہے۔

واضح رہے کہ وسطی ایشیا میں کئی سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ افغانستان اور چین کی سرحد لگتی ہے

اگرچہ ماسکو، کابل میں طالبان قیادت کے بارے میں محتاط طور پر پر امید ہے لیکن روسی صدر نے افغان عسکریت پسندوں کو پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کے طور پر داخل ہونے سے خبردار کیا ہے

اس سے قبل روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتوں کی شمولیت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو نے سوویت یونین کے ملک پر کئی دہائیوں سے حملے سے ’سبق‘ سیکھا ہے

جبکہ کل روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ امریکا، روس، چین اور پاکستان، افغان بحران کو حل کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے

دوسری جانب اسی تناظر میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اگر نیٹو کی تعیناتی کی دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں حاصل ہونے والی ’بہتری‘ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے طالبان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے میں جھجھکنا نہیں چاہیے.

__________

یہ بھی پڑھئیے:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close