سائنسدانوں نے پہلی بار چاند سےحاصل کی گئی مٹی میں پودے اگانے میں کامیابی حاصل کی ہے جو چاند پر انسان کے طویل مدتی قیام کو ممکن بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو کمیونیکیشنز بائیولوجی کے جریدے میں اس تجربے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جن نے محققین کو امید دلائی ہے کہ ایک دن براہ راست چاند پر پودے اگانا ممکن ہوگا
تحقیق کاروں نے سنہ 1969ع اور 1972ع کے اپالو مشنز کے دوران جمع کیے گئے مٹی کے نمونوں کو پودے اگانے کے لیے استعمال کیا
تحقیق کار اس وقت حیرت زدہ رہ گئے، جب انہوں نے دیکھا کہ چاند کی مٹی میں بیچ صرف دو دن میں ہی پھوٹ پڑے
فلوریڈا یونیورسٹی کی پروفیسر اور چاند کی مٹی میں پودے اگانے سے متعلق مقالے کی شریک مصنف اینا لیزا پال کا اس حوالے سے کہنا ہے ’میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ ہم کتنے حیران تھے۔ ہر پودا… چاہے چاند کے نمونے میں ہو یا کنٹرول میں تقریباً چھ دن تک ایک جیسا نظر آتا تھا‘
اس کے بعد اس میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ چاند کی مٹی میں اُگنے والے پودے تناؤ کا شکار نظر آئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی نشوونما رک گئی لیکن تحقیق میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑی پیشرفت ہے اور اس کے زمینی مضمرات ہیں
تاہم اس تحقیق سے وابستہ یونیورسٹی آف فلوریڈا کے مصنفین کے مطابق اس موضوع پر ابھی مفصل مطالعہ کرنا باقی ہے
ناسا کے سربراہ بل نیلسن کا کہنا ہے ”یہ تحقیق چاند اور مریخ پر انسانی مشنز کے لیے اہم ہے. اس تحقیق سے چاند اور مریخ پر پائے جانے والے وسائل کو ترقی دے کر سائنسدانوں کے لیے خوراک پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے“
پودوں کی نشوونما کی یہ بنیادی تحقیق اس بات کے حوالے سے بھی اہم ہے کہ ناسا کے زرعی شعبے میں اختراعات سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ زمین پر خوراک کی کمی والے علاقوں میں پودوں کی نشوونما میں سامنے آنے والے مسائل پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے
یہ خلائی زراعت کے حوالے سے انسان کے علم میں بڑی پیش رفت ہے۔ اس سے مستقبل کے خلائی مشنوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ان کے اخراجات کی بھی بچت ممکن ہوگی۔ علاوہ ازیں اس سے خلا میں دیر اور دور تک کے سفر کی سہولت بھی پیدا ہوگی
لیکن محققین کے لیے ایک مشکل یہ ہے ان کے پاس تجربہ کرنے کے لیے چاند کی اتنی زیادہ مٹی نہیں۔ ناسا کے خلا باز سنہ 1969 سے تین سال کے عرصے میں چاند کی سطح سے 382 کلوگرام چاند کی چٹانیں، بنیادی نمونے، کنکریاں، ریت اور مٹی واپس لائے
فلوریڈا یونیورسٹی کی ٹیم کو نمونوں سے تجربے کے لیے فی پودا صرف ایک گرام مٹی دی گئی، جسے کئی دہائیوں سے بند رکھا گیا
اپنے تجربے کے لیے محققین نے اپالو 11، 12، اور 17 مشنوں کے دوران چاند کے مختلف مقامات سے اکھٹی کی گئی مٹی کا صرف 12 گرام استعمال کیا
انہوں نے انگوٹھے کے سائز کے چھوٹے برتنوں میں تقریباً ایک گرام مٹی ڈالی (جسے ’ریگولتھ‘ کہا جاتا ہے) اور پانی ڈالا، پھر اس میں بیج ڈال لگائے۔ انہوں نے ہر روز پودوں کو محلول کی صورت میں خوراک بھی دی
محققین نے اس تجربے کے لیے سرسوں سے ملتے جلتے پودے ارابڈوپسز تھالیانا لگانے کا انتخاب کیا کیونکہ یہ آسانی سے اگتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا پہلے ہی بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا جا چکا ہے
ایک کنٹرول گروپ کے طور پر بیج زمین سے مٹی میں بھی لگائے گئے اور ساتھ ہی چاند اور مریخ کی مٹی کے نمونوں میں بھی لگائے گئے
نتیجہ یہ ہوا کہ دو دن کے بعد چاند کے نمونوں سمیت سب میں وہ پودے اگ آئے
اس تحقیقی مقالے کی مصنفہ انا لیزا پال نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہر پودا چاہے وہ چاند (کی مٹی) کے نمونے میں ہو یا کنٹرول گروپ میں، چھٹے دن تک ایک جیسا نظر آ رہا تھا۔‘
لیکن اس کے بعد ان پودوں میں فرق ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور چاند کے نمونوں میں پودے آہستہ آہستہ بڑھے اور ان کی جڑیں کم ہو گئیں
اس کے بیس دن کے بعد سائنس دانوں نے تمام پودوں کو کاٹنے کے بعد ان کے ڈی این اے کا مطالعہ کیا
ان کے تجزیے سے پتا چلا کہ چاند کی مٹی پر لگائے گئے پودوں نے ناسازگار ماحول میں اگنے والے پودوں کی طرح ردعمل ظاہر کیا تھا جیسا بہت زیادہ نمکیات اور بھاری دھاتوں والی مٹی میں ہوتا ہے۔
اب سائنس دان یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس ماحول کو پودوں کے لیے مزید سازگار کیسے بنایا جا سکتا ہے.
واضح رہے کہ ناسا نے سنہ 1972ع کے بعد پہلی بار سنہ 2025ع میں انسانوں کو چاند پر اتارنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے