صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں مقامی انتظامیہ نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ پر اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر پابندی عائد کردی ہے
ایک سرکاری حکم نامے میں اساتذہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’تمام سرکاری اساتذہ کے بچے پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں میں ان کی دلچسپی نہیں ہے اور تعلیمی معیار دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔‘
سرکاری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری اساتذہ کے بچے آئندہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں سرکاری اساتذہ اپنا کردار ادا کریں‘
ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سرکاری اساتذہ کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر تصدیقی سرٹیفکیٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے پاس جمع کرائیں
نیز انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ کسی سرکاری استاد کا بچہ نجی اسکول میں پایا گیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا
لورالائی کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عتیق الرحمان شاہوانی نے تصدیق کی کہ ضلعی انتظامیہ نے یہ فیصلہ سرکاری محکموں کے ضلعی سربراہان پر مشتمل ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا
ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی معیار مسلسل گر رہا ہے۔ پہلے سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار بہت بہتر تھا۔ ہم خود بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھے ہیں، مگر اب اسکولوں کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ سرکاری اساتذہ اپنے بچے بھی وہاں داخل کرانے کے لیے تیار نہیں‘
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے گھر میں تیار ہونے والا کھانا تو دوسروں کو پیش کریں مگر خود نہ کھائیں‘
ڈاکٹر عتیق شاہوانی کا کہنا تھا کہ جب سرکاری اساتذہ کے بچے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھیں گے تو ان کی سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب توجہ بڑھے گی اور معیار تعلیم بھی بہتر ہوگا
اس سوال پر کہ کیا یہ پابندی باقی سرکاری افسران پر بھی لاگو ہوگی؟ ڈپٹی کمشنر لورالائی نے بتایا کہ ’فی الحال صرف سرکاری اساتذہ کو پابند کیا گیا ہے، مستقبل میں ہم باقی افسران کو بھی اس کا پابند کر سکتے ہیں‘
دوسری جانب لورالائی میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی انجمن (گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن) کے صدر گل خان کدیزئی نے ڈپٹی کمشنر کے فیصلے پر تنقید کی ہے
ان کا کہنا ہے کہ ضلع کے بیشتر اسکولوں میں فرنیچر، پانی، بجلی اور لیٹرین نہیں ہے۔ بعض اسکول تو ایسے بھی ہیں جن کی کوئی چار دیواری بھی نہیں۔ تعلیمی سال ختم ہونے پر بھی مفت تقسیم کی جانے والی سرکاری کتابیں طلبہ تک نہیں پہنچتیں‘
ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں ان تمام سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری محکمہ تعلیم سمیت دیگر سرکاری محکموں کی ہے، مگر وہ ان کو پورا نہیں کر رہے۔ جب تک سیکریٹریز، ضلعی محکموں کے سربراہان اور ڈپٹی کمشنر خود اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھائیں گے اس پابندی کا کوئی فائدہ نہیں‘
گل خان کدیزئی کا کہنا تھا کہ اساتذہ جب خود ایسے اسکولوں میں پورا دن موجود ہوتے ہیں، وہاں باقی بچوں کو پڑھاتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو وہاں لے جاسکتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ بعض اساتذہ کی تعیناتی اپنے گھر سے دور ہوتی ہے یا بعض ایسے سرکاری سکول ہوتے ہیں جہاں پانچ پانچ کلاسز کو صرف ایک استاد پڑھاتا ہے، اس لیے استاد اپنے بچوں کو نجی اسکول میں پڑھانے کو ترجیح دیتا ہے
جی ٹی آے کے ضلعی صدر کا کہنا تھا کہ اپنی ڈیوٹی سے صرف وہ اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں جو کسی وزیر، رکن اسمبلی، سیکریٹری یا با اثر شخصیت کی سفارش رکھتا ہو۔ ایسے اساتذہ کے خلاف کارروائی کرکے اساتذہ اور سہولیات کی کمی کو دور کیا جائے تو تعلیمی اداروں کا معیار خود بہتر ہوجائےگا
بلوچستان کے سابق سیکریٹری تعلیم غلام علی بلوچ کا اس سرکاری حکم نامے کے حوالے سے کہنا ہے کہ صوبائی سطح پر حکومت کی ایسی کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی قانون موجود ہے، جس کے تحت نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلانے پر سرکاری اساتذہ کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکے
ان کا کہنا تھا ”مقامی انتظامیہ نے اپنے طور پر تعلیمی معیار بہتر کرنے کے لیے کوئی انتظام کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس اقدام سے تعلیمی معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے.“