عمران خان پر قاتلانہ حملے میں ملوث حملہ آور نوید احمد کون ہیں؟ حملہ آور ایک یا دو؟

ویب ڈیسک

سوہدرہ کے محلہ مسلم آباد کی گلی مسجد رضا والی میں ایک چار مرلے کا گھر ہے، جو اندر اور باہر سے ابھی پلستر نہیں ہوا۔ اس کی سیمنٹ سے محض چُنائی ہوئی ہے، گویا یہ گھر ابھی زیرِ تعمیر ہے۔ اس زیرِ تعمیر گھر میں اپنے دو ننھے بیٹوں، بوڑھی والدہ اور اہلیہ کے ہمراہ نوید احمد رہائش پذیر تھے

عمران خان کے لانگ مارچ پر فائرنگ کے بعد سے وزیر آباد کا یہ علاقہ خبروں میں ہے کیونکہ پولیس کی حراست میں موجود ایک مبینہ حملہ آور نوید احمد کا تعلق اسی علاقے سے بتایا جا رہا ہے

وزیر آباد میں اللہ والا چوک کے مقام پر جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا کنٹینر پہنچا تو وہاں اچانک فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت بعض دیگر لوگ زخمی ہوئے

عمران خان پر فائرنگ کے فوراً بعد پی ٹی آئی کارکنان حملہ آور نوید احمد کے پیچھے بھاگے جنہیں انہوں نے فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور ایک کارکن نے تو انھیں فائرنگ کے دوران روکنے کی بھی کوشش کی تھی

نوید احمد کو کچھ ہی دیر میں ایلیٹ فورس نے پکڑ لیا اور مقامی تھانے لے گئے

اس واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی پولیس نے کوئی باقاعدہ بیان جاری کیا ہے۔ مگر نوید احمد کی تھانہ کنجاہ گجرات کے اندر سے متعدد وڈیوز منظر عام پر آئی، جس میں وہ عمران خان پر حملے کا اقرار کرتے نظر آئے

بعد ازاں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے فائرنگ کرنے والے ملزم کا وڈیو بیان لیک کرنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پولیس عملے کو معطل کر کے ان کے موبائل فرانزک کی غرض سے ضبط کر لیے ہیں۔ جبکہ آر پی او گجرات کے مطابق ’ملزم کو حراست میں لیا گیا ہے، اور فی الحال کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی‘

حملہ آور نوید احمد کون ہے؟

سوہدرہ دریائے چناب کے کنارے پر آباد ہے۔ یہ گنجان آبادی کا قصبہ ہے۔ خیال ہے کہ اس قصبے میں قریب ہر خاندان میں سے کم از کم ایک فرد ملک سے باہر روزگار کی خاطر مقیم ہے

نوید احمد کا بڑا بیٹا لگ بھگ ڈیڑھ برس کا ہے جبکہ چھوٹا بیٹا محض دس دن پہلے پیدا ہوا تھا

یہ جس گھر میں رہائش پذیر ہیں، وہ اُن کے والدہ کا وراثتی گھر ہے، جو نوید کے حصے میں آیا۔ مقامی صحافی عقیل احمد لودھی کے مطابق ’ملزم نے اپنے بھائیوں کو حصہ دے کر، یہ گھر اپنے پاس رکھ لیا تھا‘

نوید احمد کے والد محمد بشیر کی لگ بھگ پندرہ سال پہلے وفات ہوگئی تھی۔ نوید احمد آرائیں فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد نلکے لگانے (بورنگ) اور کباڑ کا کام کرتے تھے

ان کے باقی بھائی بھی اپنے والد کا چھوڑا کام کر رہے تھے۔ نلکے لگانے کا کام چونکہ تھوڑا جدید ہوگیا ہے تو بورنگ کے لیے یہ لوگ اب مشینوں کا استعمال کرتے ہیں۔ نوید احمد چار، ساڑھے چار سال سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے رہے اور چند ماہ قبل ہی واپس آئے

ان کے ایک ہمسائے عبداللہ کے مطابق ’یہ چار، پانچ سال سعودی عرب میں مقیم رہا، وہاں محنت مزدوری کرتا تھا۔ واپس آ کر کوئی خاص کام نہیں کر رہا تھا۔ البتہ اپنے بھائی کے ساتھ بورنگ کے کام میں ہاتھ بٹاتا رہتا تھا۔اس کے علاوہ کاٹھ کباڑ کا کام بھی کر لیتا تھا۔‘

عبداللہ نے بتایا ہے کہ ’نوید احمد سنی بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار مسجد میں نماز پڑھتا ہوا پایا جاتا تھا‘

جبکہ سوہدرہ ہی کے رہائشی خالد مجید کا کہنا تھا ’اس کی فیملی مذہبی بالکل نہیں ہے۔ میں نے کبھی اس کو باقاعدہ طور پر نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔یہ عام سا روایتی مذہبی گھرانہ ہے‘

خالد مجید کے مطابق ’جب میں نے سُنا کہ اس نے فائرنگ کی ہے، تو حیران رہ گیا۔ کیونکہ یہ تو کسی کو تھپڑ تک مارنے والا بندہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔‘

ایک اور ہمسائے محمد اشرف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا نوید احمد علاقے میں لڑنے جھگڑنے کی شہرت رکھتا تھا تو اُن کا کہنا تھا ’بالکل نہیں۔ کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ جب بھی دیکھا تو مزدوری کرتے یا گھر ہی میں رہتے دیکھا۔‘

مقامی رہائشی خالد مجید کے مطابق ’یہ زیادہ تر خاموش رہنے والا بندہ تھا۔ لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتا تھا۔‘

تاہم ایک ہمسائے نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’اس کا مذہبی رجحان ایک خاص جماعت کی طرف محسوس ہوتا تھا۔ مقامی مسجد میں مذہبی تقریبات میں شرکت کرتا رہتا تھا‘

جبکہ محلہ مسلم آباد کے ایک رہائشی بابر حسین نے بتایا ’مجھے نہیں معلوم کہ اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو۔ یہ عام سا بندہ تھا۔ آتے جاتے اس سے سلام دعا ہو جاتی تھی۔ سلام دعا سے زیادہ یہ کوئی بات چیت نہیں کرتا تھا۔ عام سا بندہ تھا، عام سے بندوں کے ساتھ زیادہ تر اُٹھنا بیٹھنا تھا۔‘

ایک اور رہائشی نے مقامی صحافی عقیل احمد خان لودھی کو بتایا ’ملزم نوید احمد کے گھر کے قریب ایک گھر میں ہاؤس آف ڈیفوڈلز اسکول ہے جہاں چند دن قبل کوئی تقریب تھی جس میں موسیقی کا استعمال بھی کیا گیا تو نوید احمد اس بات پر سیخ پا ہوا اور اسکول کی انتظامیہ سے اس کی تلخ کلامی بھی ہوئی‘

اس اسکول کی پرنسپل ایک خاتون ہیں، جن سے صحافی عقیل احمد لودھی نے رابطہ کر کے واقعہ کی تصدیق چاہی تو رابطہ نہ ہو سکا۔ صحافی عقیل احمد لودھی کے مطابق ’اسکول کی پرنسپل دوسرے محلے میں رہتی ہیں جبکہ ملزم کی فیملی کے زیادہ تر لوگ یا تو پولیس پکڑ کر لے گئی یا وہ فرار ہو چکے ہیں۔‘

محلے داروں نے جمعرات یا بدھ کو کیا دیکھا؟

ملزم نوید احمد کے متعدد محلے داروں سے یہ پوچھا ’آج یا گذشتہ کل کسی نے ملزم کو عمران خان کے خلاف بات کرتے ہوئے سُنا ہو یا کسی ایسی سرگرمی میں دیکھا ہو، جو معمول سے ہٹ کر اور مشکوک ہو؟‘

مگر تمام لوگوں کی طرف سے ایک ہی جواب ملا ’کسی نے اُس کو نہ تو عمران خان اور نہ ہی تحریکِ انصاف کے جلسے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سنا اور نہ ہی کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث پایا۔‘

سوہدرہ کے مقامی رہائشی خالد مجید نے ہمیں بتایا کہ ’اِس وقت رات کے دس بج چکے ہیں۔ میرے ڈیرے پر پانچ سے سات لوگ بیٹھے ہیں جن کی گفتگو کا موضوع یہی ہے کہ آج یا گذشتہ روز کسی نے ملزم کو عمران خان اور لانگ مارچ سے متعلق غصہ یا ناگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا ہو؟ سب لوگ اس حوالے سے بالکل لاعلم اور میری طرح حیران ہیں۔‘

مبینہ ملزم نوید احمد پر فائرنگ کے دوران انھیں روکنے والے پی ٹی آئی کارکن ابتسام احمد کے بھائی ضرغام علی نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا ’جس ملزم کا بیان سوشل میڈیا پر چل رہا ہے، یہ نوید احمد ہی ہے اور اِس کو میرے بھائی نے پکڑا تھا۔ مگر اُس وقت نوید احمد نے جیکٹ پہن رکھی تھی اور بیان دیتے ہوئے وقت جیکٹ اُتار دی گئی تھی۔‘

ابتسام نے مقامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ کنٹینر سے قریب پندرہ فٹ کے فاصلے پر تھے جبکہ نوید ان سے دائیں جانب قریب دس فٹ کے فاصلے پر تھے۔ ’جیسے ہی اس نے شلوار میں ہاتھ ڈالا اور پستول نکالی تو میرا دھیان پڑ گیا۔۔۔ ایک سیکنڈ کے لیے اس کا ہاتھ کنٹینر کی طرف ہوگا، میں نے بھاگ کر اس کا ہاتھ ہٹایا تاکہ گولی کنٹینر سے ہٹ جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ نوید کے پاس آٹومیٹک ہتھیار تھا کیونکہ انھیں بیچ میں لوڈ نہیں کرنا پڑا

لانگ مارچ میں فائرنگ کے ملزم سے تفتیش

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں فائرنگ کرنے والے ملزم نوید سے تفتیش کے بعد اہم حقائق سامنے آگئے، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نشے کا عادی ہے جس کے بیان پر یقین نہیں کیا جا سکتا

ملزم نوید کا ابتدائی بیان ریکارڈ کرلیا گیا جس میں ملزم نے بتایا کہ اس نے پستول کے ساتھ 26 گولیاں بیس ہزار روپے میں وزیر آباد سے خریدیں، خریداری وقاص نامی شخص کے ریفرنس سے کی

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم نشے کا عادی ہے جس کے ابتدائی بیان پر یقین نہیں کیا جاسکتا، ابتدائی تفتیش کے بعد ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروایا جا سکتا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کے بعد مزید حقائق سامنے آئیں گے

تفتیشی ذرائع کے مطابق ملزم نوید کے اہل خانہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا، جائے وقوع سے ملنے والے خول بھی تفتیشی ٹیموں کے پاس ہیں ان کا بھی فرانزک کرایا جائے گا، پستول کس کے نام پر ہے اور کس نے خریدا اس امر کی بھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں

ذرائع نے بتایا کہ ملزم سے سی ٹی ڈی سمیت اہم اداروں نے پوچھ گچھ کی، حملہ آور نے پہلے مسجد کی چھت استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم نماز عصر کی وجہ سے پولیس نے اسے چھت پر نہ جانے دیا، ملزم بائی پاس روڈ کے ذریعے جائے وقوع تک پہنچا، ملزم نوید مارچ میں شریک لوگوں کو نماز اور کنٹینر پر لگے پارٹی ترانے بند کرانے کا کہتا رہا

پولیس تفتیش کے مطابق کنٹینر سے پندرہ سے بیس قدم کے فاصلے پر ملزم نے پورا برسٹ فائر کیا، پستول میں گولیاں دیسی ساختہ تھیں، آٹھ گولیاں چلنے کے بعد ایک گولی پھنس گئی

کارکن کس کی گولی سے جاں بحق ہوا؟ فرانزک کا فیصلہ

پی ٹی آئی مارچ میں کارکن معظم گوندل کس کی گولی لگنے سے جاں بحق ہوا؟ پولیس نے ملزم نوید اور سیکیورٹی گارڈز کے اسلحے کے فرانزک ٹیسٹ کا فیصلہ کیا ہے

ذرائع کے مطابق مقتول معظم گوندل کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور گولیوں کا تجزیہ حقائق سامنے لائے گا۔ ملزم نوید کے بیان کے بعد تفتیش کے پہلو وسیع کردیے گئے ہیں

کنٹینر سے مجھ پر اور ایک شخص پر فائرنگ کی گئی، ملزم نوید

دریں اثنا ملزم نوید کے بیان کے بعد تفتیش دوسرے رخ پر بھی جاری ہے۔ ملزم نوید نے کہا کہ مجھے پکڑنے والے شخص کو کنٹینر سے فائر کی گئی گولی لگی، میں نے اسے گرتے ہوئے دیکھا، کنٹینر سے مجھ پر بھی فائرنگ کی گئی جو ایک شخص اور درخت میں لگی، گھر والوں کو بتا کر آیا تھا کہ ایک اہم کام کے لیے جارہا ہوں

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے بیانات پر لانگ مارچ کی سیکیورٹی پر تعینات گارڈز کا اسلحہ منگوایا گیا ہے، اسلحے، گولیوں کے خول اور مقتول معظم کے جسم سے نکلنے والی گولی کا تجزیہ کرایا جائے گا جس کے بعد حقائق سامنے آئیں گے

کیا حملہ آور دو تھے؟

تحریک انصاف کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے دوران صوبہ پنجاب کے شہر وزیر آباد میں فائرنگ کے واقعے میں سابق وزیر اعظم عمران خان زخمی ہوئے ہیں تاہم ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت خطرے سے باہر ہے

یہ لانگ مارچ کا ساتواں روز تھا، جس کے آغاز پر عمران خان صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ سے ساڑھے بارہ بجے روانہ ہوئے۔ لیکن قریب پانچ گھنٹے بعد ہی ان کے کنٹینر پر فائرنگ کر دی گئی

قاتلانہ حملے میں عمران خان اور سینیٹر فیصل جاوید سمیت کم از کم پانچ افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے جبکہ ایک شخص ہلاک ہوا

وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے کہا ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے مگر ’بظاہر حملہ کرنے والے ایک نہیں، دو بندے ہیں۔‘

’عمران خان کو گولیاں سامنے سے ٹانگ پر لگیں جبکہ مبینہ حملہ آور تو دائیں طرف تھا‘
جس وقت یہ واقعہ ہوا عمران خان اور تحریک انصاف کے کئی رہنما کنٹینر پر سوار تھے

اس وقت کسی کی جانب سے تقریر بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ ڈی جے صرف تحریک انصاف کے نغمے بجا رہا تھا۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ عمران خان ہاتھ ہلا کر مارچ کے شرکا کا شکریہ ادا کر رہے تھے

اسی کنٹینر پر موجود تحریک انصاف کے کارکن معیزالدین نے بتایا کہ کنٹینر پر سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ’ہم لوگ وزیر آباد کے پاس تھے اور کچھ ہی دیر میں وہ سٹاپ آنے والا تھا جہاں خان صاحب نے تقریر کرنی تھی۔ میں کنٹینر کے دائیں جانب حماد اظہر اور فواد چوہدری کے ساتھ کھڑا تھا۔‘

’وہ دونوں بھی عوام کو ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے تھے کہ ایک دم سے گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ خان صاحب کے گارڈ نے انھیں نیچے کر دیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہم نے دیکھا حملہ آور پورا ایک میگزین خالی کر چکا تھا، وہ بھی کنٹینر کے دائیں جانب تھا۔ ہم اسے دیکھ سکتے تھے۔ ہماری نظر اس وقت اس پر پڑی جب اس نے فواد چوہدری کی طرف پستول کی۔ ہم نیچے ہو گئے۔‘

معیزالدین نے بتایا کہ مبینہ حملہ آور نے ’اس وقت دوسرا میگزین لوڈ کیا جب اسے پیچھے سے آکر لڑکے نے پکڑا۔ ہم یہ سمجھ نہیں پائے کہ عمران خان کو گولیاں سامنے سے ٹانگ پر لگی ہیں جبکہ حملہ آور تو ہمارے دائیں طرف تھا۔‘

پی ٹی آئی کے اس کارکن کے مطابق واقعے کے بعد عمران خان چند منٹ اوپر کنٹینر پر ہی رہے اور پھر انھیں نیچے لے جا کر طبی امداد دی گئی۔ ’پھر انھیں گاڑی میں بٹھا کر روانہ کیا گیا۔ لیکن اس تمام واقعے کے دوران عمران خان انتہائی پُرسکون اور تسلی رکھے ہوئے تھے۔‘

اس وقت درجنوں افراد عمران خان کے کنٹینر پر سوار تھے۔ انھیں میں سے ایک نجی چینل کے کیمرا مین توصیف اکرم کے مطابق وہ عمران خان کا انٹرویو کرنے کے لیے کنٹینر پر موجود تھے تاہم وہ میاں اسلم اقبال کا انٹرویو کرنے لگے

’اسی وقت گولی چلنے کی آواز آئی اور اس کے فوری بعد بھگدڑ مچ گئی اور وہاں موجود لوگوں نے رونا شروع کر دیا کہ خان صاحب کو گولی لگ گئی ہے۔ میرا کیمرا آن تھا۔ میں نے آگے جا کر دیکھا تو خان صاحب کی ٹانگ پر گولی لگی ہوئی تھی اور انھیں لوگ اُٹھا رہے تھے۔ اردگرد کھڑے لوگوں کے کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا۔ اور کنٹینر پر بھی خون لگا ہوا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ سب لوگوں کو پیچھے ہٹایا گیا اور عمران خان کے گارڈ انھیں اُٹھا کر نیچے لے گئے۔ ریسکیو کے اہلکار فوری کنٹینر میں پہنچے اور انھوں نے خون روکنے کے لیے فوری عمراں خان کی ٹانگ پر پٹی کی۔‘

فوری طبی امداد کے بعد عمران خان کنٹینر سے باہر آئے، اپنے سپورٹرز کو ہاتھ ہلایا اور انہیں گاڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ انہیں علاقے میں کسی دوسرے ہسپتال کے بجائے لاہور لے جایا گیا جہاں شوکت خانم ہسپتال میں ان کا علاج جاری ہے

بظاہر حملہ کرنے والے ایک نہیں، دو

تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ، جو کنٹینر کے اوپر نہیں بلکہ نیچے بیٹھی تھیں، نے بتایا ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا، اس سے چند لمحے پہلے ہی ’میں کنٹینر کے نچلے حصے میں آئی تھی۔ میں عمران خان کا انٹرویو پلان کر رہی تھی۔۔۔ ایک دم سے فائرنگ کی آواز آئی۔ ابھی اٹھی ہی تو ایک دم سے بھگدڑ مچ گئی اور چیخوں کی آوازیں آئیں کہ خان صاحب کو گولی لگ گئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ ’عمران خان صاحب کو نیچے لایا گیا۔ میں نے انھیں دیکھا تو ان کی ٹانگوں پر خون تھا۔۔۔ مجھے خان صاحب کہنے لگے کہ ’کیا ہوگیا ہے؟‘ ان کا حوصلہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔‘

وہ بتاتی ہیں ’جب ریسکیو اہلکاروں نے ان کو طبی امداد دی تو وہ سہارے سے دروازے تک پہنچے اور دونوں ٹانگوں پر کھڑے ہو گئے۔ ہم سب نے اور سکیورٹی نے انھیں روکا۔ ہم چیخے بھی کہ یہ مت کریں کیونکہ آپ کو خطرہ ہے۔ لیکن وہ دروازے ہر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے تمام کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر مسکراتے ہوئے جواب دیا اور پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔‘

خیال رہے کہ واقعے سے جڑی بعض وڈیوز بھی مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پستول تھامے ایک شخص فائرنگ کرتا ہے جسے ایک دوسرا شخص روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مبینہ حملہ آور کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس کا ایک اعترافی بیان میں بھی زیرِ گردش ہے جس کی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے تصدیق کی ہے

مبینہ حملہ آور کو روکنے والے شخص پی ٹی آئی کارکن ابتسام ہیں، جنہیں ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کافی دیر سے حملہ آور کو دیکھ رہے تھے اور ’جب اس نے پستول نکالی تو میں اس کی طرف بڑھا، اس وقت اس نے ایک فائر کر دیا لیکن اس کے بعد میں نے اسے پکڑ کر گرا دیا۔ پولیس نے اسے پکڑ لیا اور گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔‘

ادھر رہنما تحریک انصاف افتخار درانی کا دعویٰ ہے کہ پہلے ایک کریکر فائر کیا گیا، پھر پستول سے دھیان بٹایا گیا اور اس کے بعد ’آٹومیٹک ہتھیار سے عمران خان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔‘

وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اس واقعے پر آئی جی پنجاب پولیس کو اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے جس میں کاؤنٹر ٹیرریزم ڈپارٹمنٹ کو بھی رکھا جائے گا ’تاکہ واقعے کے محرکات کا جائزہ لیا جاسکے-‘ پرویز الہی کے مطابق ’بظاہر حملہ کرنے والے ایک نہیں، دو بندے ہیں۔‘

’ہم جاننا چاہتے ہیں واقعے کے پیچھے کون ہیں، کن لوگوں نے ملزم کو تربیت دی، وہ کیا سوچ ہے جس کے تحت اس لڑکے کو تیار کیا گیا، اس کو پیسے کتنے ملے، کہاں سے لے کر آئے۔‘

وہ کہتے ہیں ’میڈیا کو بیان لیک کرنے والے پولیس عملے کو معطل کر کے موبائل ضبط کر لیے ہیں۔ فرانزک رپورٹ سے جاننا چاہتے ہیں کہ کس سے پولیس والوں کارابطہ تھا- جہاں ملزم نے موٹر سائیکل کھڑی کی اس کے رشتے داروں کا کس سے رابطہ تھا۔ تفتیش آگے بڑھے گی تو میڈیا کے سامنے لائیں گے۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘

صحافی محمد زبیر خان سے بات کرتے ہوئے لانگ مارچ کی کوریج کے لیے موقع پر موجود فلک شیر نے بتایا ہے کہ گرفتار کیے گئے مبینہ حملہ آور نے بظاہر نائن ایم ایم پستول استعمال کی اور انھوں نے دیکھا کہ اس کا رُخ کنٹینر کی طرف تھا۔ ’اس کو اتنا وقت مل رہا تھا کہ وہ دوسرا میگزین بھی اپنے پستول میں لوڈ کرلے۔۔۔ اس وقت وزیر آباد کے رہائشی لڑکے ابتسام نے اس کو پکڑ لیا۔‘

ان کا کہنا تھا ’میں نے دو بار کنٹینر سے فائرنگ کی آواز سنی ہے۔ سکیورٹی گارڈز نے جو فائرنگ کی وہ تو میں نے دیکھی ہے مگر اس کے بعد جو فائرنگ ہوئی، اس کا پتا نہیں کہ کس نے کی ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد عمران خان اور سینیٹر فیصل جاوید کو زخمی دیکھ کر لوگوں میں افراتفری پھیل گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا ’جب میں فائرنگ والی جگہ پر پہنچا تو وہاں وزیر آباد کے نوجوان معظم گوندل کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا۔ اس کو گولی لگی ہوئی تھی، خون بہہ رہا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔

’یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ جس مقام سے فائرنگ ہوئی اس ہی مقام پر اس نوجوان کو گولی کیسے لگی۔ کوئی دس منٹ بعد موقع پر ایمبولینس پہنچی تھی۔‘

واقعے کی ایک وڈیو اور ایک سے زیادہ عینی شاہدین کے مطابق گرفتار کیے گئے مبینہ حملہ آور کے علاوہ کنٹینر سے ایک سکیورٹی گارڈ کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close