ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ایسا ہوگیا ہے کہ کسی کے بارے میں بہت جلد کوئی بھی رائے (مثبت یا منفی) بنا تحقیق کے قائم کرلی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں دوسرے لوگوں سے سن کر بھی فوراً رائے قائم کرلی جاتی ہے۔ علم و تحقیق کی دنیا میں بھی اب یہی رویہ چل نکلا ہے کہ کسی نے کچھ لکھ دیا، تو حمایت میں چاند تک پہنچا دیتے ہیں یا پھر مخالفت میں آسمان تک۔ اب مزید ظلم یہ ہورہا ہے کہ اگر کسی شخص نے کچھ لکھا (معیشت، سیاست، تجارت، تاریخ اور مذہب وغیرہ) تو پڑھے بغیر لوگوں سے سن کر رائے (مثبت یا منفی) قائم کرلی جاتی ہے
یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر ہم رائے قائم کیوں نہ کریں، کیا ہمارا حق نہیں ہے، کیا ہم اس معاشرے میں نہیں رہتے، کیا ہم اس (شخص/ لوگ ) کی اصلاح نہیں چاہتے، وغیرہ۔ آئیے! بات کرتے ہیں علمی طریقہ پر، یعنی کسی بھی معاملے میں چاہے وہ معاشرتی ہو یا معاشی، سیاسی ہو یا ثقافتی، تاریخی ہو یا مذہبی، ہمارa طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے (یعنی ہماری رائے کن بنیادی اصولوں پر قائم ہونی چاہیے)۔ یہاں چند علمی گزارشات سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں
شخصیت سے زیادہ اُس کی دی ہوئی دلیل پر غور کیا جائے
جب کسی صاحبِ علم کی کوئی ایسی بات ہمارے سامنے آئے جو ہماری فکر، ہماری سوچ اور ہماری روایات کے خلاف ہو، تو سب سے پہلے بجائے اُس شخصیت کا تجزیہ کرنے کے، ہمیں اُس کے استدلال (اس کی دی ہوئی دلیل) پر غور کرنا چاہیے، تاکہ اُن دلائل پر تبصرہ یا تجزیہ کیا جاسکے
لوگوں نے یہ رویہ اپنا لیا ہے کہ کسی شخص کی دی ہوئی دلیل ایک طرف رکھ کر اُس کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے شخصیت کو ایک طرف رکھیے، پہلے دلائل پر غور کیجیے۔ ایک پڑھے لکھے معاشرے کی یہی نشانی ہے۔
دلیل کا ماخذ
دلائل سننے یا پڑھنے کے بعد اگلا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس شخص کی دی ہوئی دلیل کا ماخذ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس نے جس ماخذ کا سہارا لیا وہ کس حد تک مصدقہ ہے۔ یعنی ایسا تو نہیں کہ وہ ماخذ اُس لائق ہی نہ ہو کہ اس کو قبول کیا جائے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اصل ماخذ (primary source) کے بجائے ان ماخذات کا سہارا لیتا ہے جو سیکنڈری سورسز secondary sources)) کہلاتے ہیں۔ اس طرح کے حوالہ جات کسی طور پر قابل قبول نہیں ہوتے۔ جیسے کسی شخص نے ایک موضوع (مثلاً مذہب سے متعلق) پر کچھ نیا لکھا اور اس میں بطورِ سند، چند احادیث بھی لکھیں۔ لیکن ان احادیث کا حوالہ اصل کے بجائے اُس کتاب سے دیا جو اصل حدیث کی کتاب سے تھا ہی نہیں۔ اور جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اصل کتاب میں اس طرح وہ روایت بیان ہوئی ہی نہیں جس طرح دوسری کتاب میں موجود ہے (مثلاً، الفاظ کا فرق، سیاق و سباق کا مسئلہ، وغیرہ)، تو اُس کے موضوع کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی اصلاح (علمی انداز میں) کی جائے گی۔ تاہم! اگر کوئی ایسا موضوع لکھتا ہے جو معاشرے کےلیے ابھی نیا ہے، لیکن اس کے دلائل قوی ہیں، تو اس کی بات کو تحمل سے سنا جائے۔ اگرچہ قبولِ عام فوراً نہیں ہوگا، لیکن اُس پر غور و فکر کرنا شروع کردیا جائے تاکہ مزید کچھ کام آگے بڑھایا جاسکے
تنقید برداشت کیجیے
اب دلیل دینے والے شخص کا بھی فرض ہے کہ وہ تنقید کو تحمل سے سنے اور پھر اس کا جواب دے یا پھر اُس تنقید کو اصلاح کے طور پر لے، تاکہ آنے والے وقتوں میں وہ مزید کچھ سیکھ سکے اور اپنی دلیل پر رجوع کرے یا مزید مضبوط کرے۔
تنقید کو ہمیشہ مثبت لیجیے
تنقید کے معنی ہیں ، کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا۔ ہمارے یہاں تنقید کا یہ مطلب سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہمیں بُرا بھلا کہا جارہا ہے، حالانکہ تنقید (صحت مند تنقید، جس میں ذاتیات شامل نہ ہوں) اصلاح کا ایک ایسا عمل ہے کہ اگر روک دیا جائے تو پوری دنیا جامد ہوجائے گی۔ اگر آپ ماضی کی طرف جائیں تو لفظ ’تنقید‘ ہمیشہ لوگوں کےلیے مثبت رہا۔ بد قسمتی سے جس معاشرے میں آج ہم جی رہے ہیں وہاں ایسا عجیب مضحکہ خیز رویہ لوگوں کا ہوگیا ہے کہ لفظ ’تنقید‘ سنتے ہی لوگوں کا مائنڈسیٹ یہ ہوجاتا ہے کہ اب برائی ہوگی۔
رجوع کرنا سیکھیے
اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کیجیے کہ اگر آپ کی رائے غلط ثابت ہوگئی ہے تو اب رجوع کرنا بھی سیکھیے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک عرصے تک کلیسا یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘۔ پادریوں نے بہت کوشش کہ لوگ اس نظریے پر قائم رہیں کہ ’سورج زمین کے گرد گھومتا ہے‘ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا کے تمام انسانوں کو رجوع کرنا پڑا اور آج سب اس بات پر (دلیل کے ساتھ) قائل ہوگئے ہیں کہ ’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘۔ اگر رجوع کرنا سیکھ لیا، تو سمجھ لیجیے کہ اب علم کے دریچے مزید کھلتےجائیں گے اور ترقی کی منازل طے ہوتی چلی جائیں گی۔
مغرب، علم کے معاملے میں رجوع کرچکا ہے
بحیثیتِ مجموعی ہم ایک مشکل قوم ہیں۔ ہم ہر بات پر فوراً اپنا تبصرہ دینے کےلیے تو تیار رہتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت تک پہنچنا گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت تک پہنچنا تو کجا، ہم تو وہ قوم ہیں کہ جب دیکھا کہ سب ایک ڈگر (مثلاً غلط راہ پر چل رہے ہیں) پر چل رہے ہیں تو ہم بھی اسی ڈگر پر چل پڑیں گے۔ ہمیں اس ڈگر سے واپس لانا بہت مشکل کام ہے۔ لو گ دلائل دے دے کر تھک جاتے ہیں، لیکن ہماری قوم جب کوئی فیصلہ کرلے تو پھر سوائے خدا سے دعا کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر اپنی حالتِ زار پر غور کیا جائے اور تھوڑا سا توقف کیا جائے، تو ہم آج علم کے ہر میدان میں مغرب سے پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے (شاید سو سال یا اس سے بھی زیادہ) ہیں۔ مغرب نے علم کے میدان میں ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ تنقید کو اب مثبت انداز میں لے لیا ہے۔ لوگوں کے دلائل کو قبول کرنا سیکھ لیا ہے۔ دلائل کو ڈھونڈنا شروع کردیا ہے۔ شخصیت کے بجائے لوگوں کے کاموں پر تنقید کرنا سیکھ لی۔ اسی لیے روزانہ مغرب سے علم کی دنیا میں کچھ نہ کچھ نیا (دلیل کے ساتھ) آتا رہتا ہے (اور ہم پہلے برائی کرتے ہیں اور انھیں برا بھلا کہتے ہوئے اُنھی کی تحقیقات پر عمل پیرا بھی ہورہے ہوتے ہیں)۔ لوگ تنقید کرتے ہیں تو وہ تنقید برداشت بھی کرتے ہیں، اصلاح بھی کرتے ہیں اور دوبارہ کام پر جُت جاتے ہیں، جب کہ ہم پر تنقید ہوجائے تو بس!
بشکریہ: ایکسپریس نیوز