بلوچستان ہائی کورٹ میں پانچ ایسے افراد کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف ایک درخواست زیرِ سماعت ہے، جس میں ایک چھ دن کا بچہ بھی شامل ہے
ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے افراد میں شیر خوار بچے کے علاوہ دو خواتین اور دو مرد بھی شامل ہیں، تاہم ہائی کورٹ میں اس حوالے سے درخواست کی سماعت کے دوران مرد حضرات میں سے ایک بازیاب ہو چکا ہے
مذکورہ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے مطابق ”جب انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو بچہ صرف چھ دن کا تھا اور والدہ کے ہمراہ جبری گمشدگی کے باعث اب تک اس کا نام بھی نہیں رکھا جا سکا“
ان افراد کے رشتہ داروں اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم نے ان کی جبری گمشدگی کا الزام فرنٹیئر کور ساﺅتھ کے اہلکاروں پر عائد کیا گیا ہے، لیکن سماعت کے دوران فرنٹیئر کور ساﺅتھ اور کاﺅنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ یہ افراد ان کی تحویل میں نہیں ہیں
دوسری جانب سرکاری حکام نے سیکورٹی فورسز پر جبری گمشدگیوں کے الزام کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس گمراہ کن الزام کا مقصد بلوچستان کے معصوم لوگوں کو اپنی سیکیورٹی پر مامور فورسز کے اہلکاروں کے خلاف گمراہ کرنا ہے
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ان پانچوں افراد کا تعلق ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے ہے۔ ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں عبدالرحمان اور ان کے بیٹے عبدالحق کے علاوہ عبدالرحمان کے بھائی کی اہلیہ شاہ بی بی اور بی بی شہزادی اور ان کا شیرخوار بیٹا شامل ہیں
ان کا کہنا تھا کہ شہزادی، شاہ بی بی کی بہو اور ان کے بیٹے مدد بلوچ کی بیوی ہے
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان میں سے عبدالرحمان اوران کے بیٹے عبد الحق کو 26 اپریل 2022 کو اٹھایا گیا جبکہ اگلے روز شاہ بی بی، شہزادی اور ان کے شیرخوار بچے کو لاپتہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شیرخوار بچے کی پیدائش چھ روز قبل ہوئی تھی اور چھٹے روز اس کا نام رکھا جانا تھا، لیکن والدہ کے ہمراہ جبری گمشدگی کے باعث اس کا ابھی تک نام بھی نہیں رکھا جا سکا ہے
ان کے مطابق عبدالحق گاڑی چلاکر اپنے خاندان کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرتا تھا
لاپتہ افراد کے رشتے دار کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام پانچوں افراد بے قصور ہیں اور ان کو شیرخوار بچے کے والد مدد بلوچ کی وجہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ مدد بلوچ کے پیش نہ ہونے پر مبینہ طور پر ایف سی کے اہلکاروں نے ان پانچوں کو حراست میں لیا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے اگست 2021 کو مدد بلوچ اور ان کے والد ہارون بلوچ کو گرفتار کر کے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ لے جایا گیا تھا جہاں ان کو تین ماہ تک پابند سلال رکھا گیا
ان کا کہنا تھا کہ دونوں کو تین ماہ بعد اس شرط پر رہا کیا گیا تھا کہ ان کی حرکات و سکنات ان کے گھر تک محدود رہیں ’شادی بیاہ یا غمی کے موقع پر بھی اگر ان کو جانا ہوتا تو بھی ان کو سیکورٹی فورسز کے کیمپ سے جاکر اجازت لینا پڑتا‘
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کے رشتے دار نے دعویٰ کیا اس دوران مدد بلوچ کو مبینہ طور پر بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد دوبارہ ماروائے آئین اور قانون طریقے سے اٹھائے جانے کے خوف کے پیش نظر محنت مزدوری کے لیے بیرون ملک چلا گیا تھا
ان کا کہنا تھا ’مدد بلوچ کہتے ہیں کہ ان میں مزید تشدد اور ذہنی اذیت سہنے کی سکت نہیں اور اسی کی وجہ سے طلبی کے باوجود وہ واپس نہیں آ رہے ہیں‘
ان کے بقول، انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ خواتین اور بچے کو رات گزارنے کے لیے کیمپ کے عقب میں مقامی شخص کے گھر لایا جاتا ہے اور علی الصبع واپس کیمپ منتقل کیا جاتا ہے
بی بی سی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملے کے بعد بلوچستان کے ضلع کیچ سے ایک خاتون نور جہاں بلوچ کی دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتاری اور دیگر خواتین کی جبری گمشدگی کے خلاف 22 مئی کو بلوچستان کے بعض دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ میں بھی وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے یونیورسٹی آف بلوچستان سے ایک مشترکہ ریلی نکالی گئی جس کے شرکاء نے انسکمب روڈ پہنچنے کے بعد ریڈ زون میں گورنر ہاﺅس کے قریب دھرنا دیا، جن میں خواتین بھی شریک تھیں
دھرنے کے شرکاء نے رات وہیں گزاری اور انہوں نے جبری گمشدگی کی شکار خواتین کی بازیابی تک ریڈ زون میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم 23 مئی کی صبح چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان ہائی کورٹ جاتے ہوئے دھرنے کے شرکاءکے پاس رکے اور ان کی بات سننے کے بعد ہائی کورٹ گئے تھے
چیف جسٹس کی آمد کے بعد سپریم کورٹ کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کی جانب سے 23 مئی کو خواتین کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل بنچ نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کے علاوہ سی ٹی ڈی اور ایف سی ساﺅتھ کو نوٹس جاری کیا تھا
درخواست دائر ہونے کے بعد ریڈ زون میں دھرنے کو ختم کیا گیا تھا
اس درخواست کے حوالے سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کی پیروی عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے کی۔ عمران بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کیچ کے علاقے ہوشاپ سے گرفتار کی جانے والی نورجہاں بلوچ کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور متعلقہ عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کی ہے جبکہ کراچی سے لاپتہ ہونے والی شاعرہ حبیبہ بلوچ کو چھوڑ دیا گیا ہے
عمران بلوچ کا کہنا ہے کہ پنجگور سے شیر خوار بچے اورخواتین سمیت پانچ افراد کے بارے میں 23 اور 24 مئی کو درخواست کی دو روزہ سماعت کے دوران متعلقہ حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ یہ افراد سی ٹی ڈی اور ایف سی ساﺅتھ کی تحویل میں نہیں ہیں
عمران بلوچ نے بتایا کہ درخواست کی آئندہ سماعت 3 جولائی کو ہو گی، تاہم درخواست کی سماعت کے دوران یہ اطلاع ملی کہ ان میں سے عبدالرحمان بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں
لاپتہ افراد کے رشتے دار نے بھی عبدالرحمان کی بازیابی کی تصدیق کی ہے
عمران بلوچ ایڈووکیٹ کے مطابق ان افراد کی مبینہ جبری گمشدگی کے حوالے سے فرنٹیئر کور ساﺅتھ کی جانب سے ہائی کورٹ میں متعلقہ حکام کی جانب سے یہ موقف پیش کیا گیا کہ وہ ایف سی کی تحویل میں نہیں ہیں
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سلسلے میں ایف سی ساﺅتھ کا موقف جاننے کے لیے ان کے ترجمان سے رابطے کی کوشش کے علاوہ ان کو واٹس ایپ پر میسیج بھی بھیجا گیا لیکن ان کا موقف نہیں آیا
تاہم جب خواتین سمیت ان جبری گمشدگیوں کے حوالے سے حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی اور اس کے لوگوں کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا جائے گا
فرح عظیم شاہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کے بارے میں مکمل تحقیقات کی جاتی ہیں ’جو بھی دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہورہی ہے۔ ان کے خلاف ایف آئی آرز ہو رہی ہیں۔ انھیں کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور عدالت کے احکامات کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے‘
فرح عظیم شاہ نے کہا کہ یہاں جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں اور وہ پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں ’ہمارے ہی لوگوں کو اپنی ہی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یہ بیرونی سازش نہیں ہے تو اورکیا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ چند لوگ ہیں جو گمراہ ہو کر سیکیورٹی فورسز کے خلاف جبری گمشدگیوں اور اس طرح کا دیگر جھوٹا پروپیگینڈہ کر رہے ہیں، جس کے بارے میں عوام بھی اچھی طرح جانتے ہیں ’معصوم لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان حکومت کی اولین ترجیح یہ ہے کہ معصوم عوام کو ان سازشیوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیا جائے‘
فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ ’عوام کو ان کے اداروں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو بیرونی سازشیں ہیں ان کو ہم کسی بھی صورت میں کامیاب نہٰیں ہونے دیں گے‘
انیوں نے کہا کہ عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور جو بھی سازشیں ہیں وہ جلد دم توڑ دیں گی.