بھارت میں برسرِ اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلامﷺ سے متعلق توہین آمیز بیانات دینے پر بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمان برہمی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ انڈیا‘ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے
یہ سب چند روز قبل ایک ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما اور پھر دہلی میڈیا ونگ کے سربراہ نوین کمار جندال کے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بعد شروع ہوا
بیانات پر اتوار کو دنیا بھر کے مسلم ممالک سے مذمتی پیغام جاری ہوتے رہے، جس کے بعد بی جے پی کو دونوں پارٹی اراکین کی معطلی کا اعلان بھی کرنا پڑا
معاملہ کیا ہے؟
بھارتی ٹی وی چینل ’ٹائمز ناؤ‘ نے چند روز قبل بنارس کی گیان واپی مسجد کے وضو خانے سے ملنے والی مبینہ شیو لنگ پر ایک مباحثہ منعقد کیا تھا
اس مباحثے کے دوران جب بی جے پی کی قومی ترجمان نوپور شرما اور مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا نامی تنظیم کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے درمیان سخت لفظوں کا تبادلہ ہوا تو نوپور شرما نے پیغمبر اسلامﷺ اور ان کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے
نوپور شرما کے توہین آمیز الفاظ سن کر ڈاکٹر تسلیم رحمانی بطور احتجاج یہ مباحثہ چھوڑ کر چلے گئے
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے بعد ازاں بی جے پی، نوپور شرما، ٹائمز ناؤ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک قانونی نوٹس بھیجا، جس کا ابھی کسی نے بھی جواب نہیں دیا ہے
نوپور شرما کے بعد پارٹی کے ایک اور رہنما نوین کمار جندال نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے
بھارت میں احتجاج
جمعے کو شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں اس کے خلاف ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے دوران کم از کم چاليس افراد زخمی ہو گئے
پولیس نے مظاہرین کے خلاف تین مقدمات درج کر کے کم از کم چھتيس افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
گو کہ پیغمبر اسلامﷺ سے متعلق توہین آمیز بیان دینے پر نوپور شرما کے خلاف بھارت کے کئی تھانوں میں لوگوں کی شکایت پر مقدمات درج کیے گئے ہیں، لیکن ان کے خلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے
حکمراں جماعت بی جے پی کے دو رہنماؤں کی طرف سے پیغبر اسلامﷺ سے متعلق زہر اگلنے کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں زبردست غم و غصہ ہے جبکہ او آئی سی سمیت دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے، جس کے بعد بھارت اسلامی دنیا میں اپنے دوست ممالک کو وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گیا ہے
بی جے پی نے نوپورشرما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی ہے جبکہ نوین جندل کو پارٹی سے نکال دیا ہے
بی جے پی نے کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کی سختی سے ’مذمت‘ کی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات ملک میں گذشتہ چند برسوں سے موجود گہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا ردعمل شاید اب کافی نہ ہو کیونکہ اب ملک کے اندورنی معاملے نے بین الاقوامی نوعیت اختیار کر لی ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر بیان دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھارت کے ان اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہے
بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ بھارت کی تجارت، جس میں کویت، قطر، سعودی عرب، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، سال 2020-21 میں 87 ارب ڈالر تک رہی۔ اس کے علاوہ انڈیا کے لاکھوں شہری ان ممالک میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کی ترسیلات زر وطن واپس بھیجتے ہیں
یہ خطہ بھارت کی توانائی کی درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ان خلیجی ممالک کا باقاعدہ دورہ کرتے رہے ہیں۔ نیو دہلی نے پہلے ہی متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں اور ایک وسیع معاہدے کے لیے جی سی سی کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
نریندر مودی نے سنہ 2018 میں ابوظہبی میں پہلے ہندو مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب میں پرتپاک انداز میں شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس اقدام کو بھارت اور خطے کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی ایک مثال قرار دیا گیا تھا
جبکہ تہران کے ساتھ دلی کے تعلقات گذشتہ چند برسوں سے بہت اچھے رہے ہیں، ماہرین نے کہا کہ یہ تنازعہ بھارت ایران کی تعلقات کو بھی متاثر کر سکتا ہے
بھارت کے سابق سفیر جتیندر ناتھ مشرا کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو سفارت کار چاہتے ہیں کہ نا ہی ہو تو بہتر ہے۔ ہم اپنے دوستوں کے حلقے کو بڑھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی اچھی پیشرفت نہیں ہوتی
عرب دنیا میں خدمات انجام دینے والے ایک اور سابق سفارت کار انیل تریگونیت نے کہا کہ بھارت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور صرف قیادت کی سطح پر مخلصانہ کوششیں ہی منفی اثرات کو روک سکتی ہیں
ان کے مطابق قانون کے تحت ذمہ داران کے خلاف مثالی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے تاکہ ایسے سرکسی مسخرے اسے دہرانے اور سماجی افراتفری پیدا کرنے اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب نہ بنیں
دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے اثرات کی سفارتی قیمت خطے میں بھارت کے مفادات کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے
امریکہ کے ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام اکثر دفاعی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جب نئی دہلی کے قریبی دوستوں سمیت دیگر ممالک بھارت کے اندرونی معاملات پر تنقید کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں بھارت کے سفارت کاروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معافی اور نقصان پر قابو پانے کی دیگر اقسام کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں گے
دوسری جانب عرب ممالک میں بھارت پر تنقید کرنے والے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں اور یہ واقعہ ان کے میڈیا میں ٹاپ اسٹوری بن گیا ہے
ان ہیش ٹیگز میں سے کچھ نے بھارت کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے
قطر اور کویت میں کچھ دکانوں کی جانب سے بھارتی مصنوعات کو ہٹانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں
بھارتی صحافی اور این ڈی ٹی وی کی نیوز اینکر گارگی راوت نے نوپور شرما کے توہین آمیز بیان پر اسلامی ممالک میں سامنے آنے والے ردعمل سے متعلق الجزیرہ کی ایک ٹویٹ ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹی وی پر بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے ریمارکس اور نوین کمار جندال کی ٹویٹ کے بعد کچھ ممالک میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ (معاملہ) جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔‘
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’بی جے پی کو بھارت کے لاکھوں مسلمانوں کے جذبات سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ بیان بین الاقوامی سامعین کے لیے ہے۔‘
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’عرب دنیا میں ہونے والے ردعمل نے یقیناً ڈنگ مارا۔‘
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے سوانح نگار اور معروف سیاسی تجزیہ نگار نیلانجن مکھوپادھیائے نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے میں کہا کہ انہیں کوئی امید نہیں کہ کوئی اسلامی ملک بھارت کا حکومتی سطح پر بائیکاٹ کرے گا۔
انہوں نے کہا ’اسلامی یا عرب ممالک سے جو بھی دباؤ بن رہا ہے وہ سول سوسائٹی اور مقامی لوگوں کی طرف سے ہے، جبکہ وہاں کی حکومتیں بھارت کے ساتھ اپنے رشتے کو مذہب کی نہیں بلکہ اپنے مفادات کی دوربین سے دیکھتی ہیں۔‘
بائیکاٹ کے خوف سے ترجمانوں کی معطلی
بی جے پی نے اتوار کو پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیانات دینے پر پارٹی رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار جندال کو جماعت کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا ہے
پارٹی رہنماؤں کی معطلی اور بیان جاری کرنے کی اچانک کارروائیوں کو بعض اسلامی ممالک میں سوشل میڈیا پر چلنے والی ’بائیکاٹ انڈین پروڈکٹس‘ مہم کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے
نوپور شرما بی جے پی کی قومی ترجمان تھیں جبکہ نوین کمار جندال پارٹی کی دہلی ونگ کے ترجمان تھے
بی جے پی کی مرکزی تادیبی کمیٹی کی طرف سے نوپور شرما کو بھیجے گئے ایک خط میں کمیٹی کے سکریٹری اوم پاٹھک نے لکھا ’مجھے آپ کو یہ بتانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ مزید انکوائری تک، آپ کو پارٹی سے اور ذمہ داریوں (اگر آپ کے پاس ہیں) سے فوری اثر کے ساتھ معطل کیا گیا ہے‘
اوم پاٹھک نے ایک ایسا ہی خط نوین کمار جندال کے نام بھی لکھا ہے
مذہبی تقسیم میں اضافہ
ناقدین کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مذہبی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ چند ہفتوں میں خاص طور پر اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب کچھ ہندو گروپ وارانسی (پرانا نام بنارس) کی ایک مقامی عدالت میں صدیوں پرانی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کرنے گئے
ان ہندؤوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک منہدم مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی مسجد ہے
ٹی وی چینلز نے اشتعال انگیز بحث دیکھنے میں آئی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بے تحاشا نفرت دیکھی ہے
ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ بہت سے لوگ اکثر ٹی وی شوز میں متنازع بیانات دیتے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ نور پور شرما کوئی ایسی ذاتی حیثیت میں بیان نہیں دیا ہے
ان کے مطابق وہ پارٹی کی ایک سرکاری ترجمان تھیں، جنھیں بی جے پی کے خیالات کی نمائندگی کرنے کا کام سونپا گیا تھا
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اس تنازعہ پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والے ردعمل بھارت کے لیے جاگ جانے کا موقع ہونا چاہیے
مائیکل کوگلمین کے مطابق بھارت یہ سیکھ رہا ہے کہ جب ملک کی بڑھتی ہوئی زہریلی سیاست کی بات آتی ہے تو جو کچھ بھارت میں ہوتا ہے وہ اکثر ان کا ہی معاملہ بن کر نہیں رہتا بلکہ ایسا بیرون ملک خفگی کا بھی سبب بن جاتا ہے
ان کے مطابق جیسے جیسے بھارت کا عالمی اثر بڑھتا جاتا ہے اور بیرون ملک اس کی سفارتی اور اقتصادی شراکت داری مضبوط ہوتی جاتی ہے، اس وقت اس کی ملکی سیاست اور بھی داؤ پر لگ جاتی ہے
نیلانجن مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ مذہبی شخصیات پر توہین آمیز تبصروں کی پبلک ڈسکورس میں کوئی جگہ نہیں ہے ’ایسے بیانات کی پُر زور مذمت کی جانی چاہیے۔ ایسے بیانات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کبھی کبھی پیار محبت کی باتیں کرتی ہے لیکن اپنے کارکنوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔‘
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے کشمیری رہنما محمد یوسف تاریگامی نے بتایا کہ بی جے پی رہنماؤں کے اس طرح کے بیانات آئین، روایات اور انسانیت کے خلاف ہیں
’اس طرح کے بیانات کا مقصد ملکی عوام کو تقسیم کرنا ہے۔ ہمارے ملک کے آئین میں ایک دوسرے کی تعظیم کرنے اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دراصل بی جے پی حکومت کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ صرف یہی چاہتی ہے کہ لوگوں میں غصہ پیدا ہو اور وہ آپس میں لڑ پڑیں۔‘
بھارتی مسلمانوں کی ایک معروف تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری مولانا عبد الحمید نعمانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بی جے پی کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ نفرت پھیلا کر دوری پیدا کرنا ہے۔
’ان لوگوں کا تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہیں ہے، ملک کی ترقی، اس کا آئین بنانے میں بھی کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ لوگ آئین کو اپنے حساب سے توڑ مروڑ کر پیش کر کے فرقہ وارانہ دوری پیدا کر رہے ہیں۔‘
مولانا عبدالحمید نعمانی کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی بیشتر وہی لوگ ٹی وی مباحثوں میں جاتے ہیں جن کو شریعت، تاریخ و تہذیب کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پیغمبر اسلام کی ’توہین‘ ہندومت اور اس کے اصول و ضوابط کے بھی خلاف ہے۔‘
’ان کے ہاں جو اوتار واد کا سلسلہ چلا ہے اس میں دسویں نمبر پر تو پیغمبر اسلام کا ہی مقام ہے۔ ان میں جتنے بھی لوگ اسلام مخالف بیان دے رہے ہیں وہ ہندو نہیں بلکہ ہندوتوا وادی ہیں۔‘