جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں ملیر ایکسپریس وے (MEX) کا سنگ بنیاد رکھا تو ملیر ندی کے کنارے رہنے والے مقامی لوگوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے محروم ہو جائیں گے
صدیوں سے آباد مقامی افراد کو ڈر تھا کہ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کو کراچی-حیدرآباد موٹروے سے جوڑنے والی 39 کلومیٹر طویل راہداری کی تعمیر کے لیے ان کی زمین حاصل کرنے کے لیے ایک دن ان کے دروازوں پر دستک دے گی
لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے تقریباً چار سو سے زائد مکانات کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے ان کے خدشات کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے
یہ گھر ملیر کے سموں اور لاسی گوٹھ میں واقع ہیں۔ اگر حکومت اپنے پہلے منصوبے پر قائم رہتی تو یہ گھر تباہ ہو چکے ہوتے۔ لیکن معجزات رونما ہوتے ہیں یا شاید عوامی دباؤ نے کام کیا، اور سندھ حکومت نے اس کے بجائے ان دونوں بستیوں پر دو کلومیٹر طویل ایلیویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کا فیصلہ کیا ہے
گزشتہ ماہ، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ پالیسی بورڈ کا اجلاس بلایا، جس میں ملیر ایکسپریس وے (MEX) کے ڈیزائن اور الائنمنٹ میں معمولی ایڈجسٹمنٹ کا جائزہ لیا گیا
ایکسپریس وے کی تعمیر سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے سندھ حکومت نے ڈیزائن اور الائنمنٹ میں تبدیلی کی منظوری دے دی
اپنے ماضی کے ڈیزائن کو چھوڑتے ہوئے، سندھ حکومت نے سمو گوٹھ اور لاسی گوٹھ پر دو کلومیٹر طویل ایلیویٹڈ ایکسپریس وے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مقامی لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی جا سکے، جو ملیر ایکسپریس وے روٹ سے متاثر ہوئے تھے
اس پیشرفت کی تصدیق ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے کی
اس "معمولی” تبدیلی کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کے تقریباً چار سو سے زائد گھروں کو بچانا ہے جو وہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں
حکام کا دعویٰ ہے کہ تازہ ترین تبدیلیوں کے بعد ان دونوں بستیوں میں سے کوئی بھی مکان متاثر نہیں ہوگا
مزید برآں، اس معمولی تبدیلی کے بعد حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صرف دس ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوگی جو کہ 148 ایکڑ کے پہلے تخمینوں کے برخلاف ہے
لیکن تاحال علاقے کی زرعی اراضی کے مکمل تحفظ کے حوالے سے یہ محص طفل تسلی لگتی ہے، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس سے نہ صرف آس پاس کی مقامی آبادی کا واحد ذریعہ معاش تباہ ہوگا بلکہ اس سے ماحولیات پر بھی دور رس منفی اثرات مرتب ہونگے
نیاز سومرو کے بقول "حکام نے نقصان کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاوضے کی مد میں خزانے کو بچانے کے لیے بار بار ڈیزائن کا جائزہ لیا ہے”
حکام نے دلیل دی کہ فلائی اوور کی تعمیر زمین کے ساتھ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کے مقابلے میں سستی تھی
انہوں نے مزید کہا، "بورڈ آف ریونیو کے حکام کے سروے کے مطابق، مطلوبہ زمین کے حصول کے لیے ادا کیے جانے والے معاوضے کی تخمینہ رقم 10 بلین روپے ہوگی”
زمین کے حصول کی قیمت زیادہ ہے کیونکہ حکومت کو متاثرین کو ان کی زمین کے لیے مارکیٹ ریٹ ادا کرنا پڑے گا
واضح رہے کہ پی پی پی کے یوسف بلوچ حال ہی میں اس علاقے، PS-88 ملیر-II سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس نے 16 فروری 2021 کے ضمنی انتخابات میں 16 دیگر امیدواروں کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے انتخابات میں کلین سویپ کیا
حلقے میں 145,627 رجسٹرڈ ووٹرز میں سے، دو گاؤں جو متاثر ہوں گے مجموعی طور پر 2,500 سے کم ووٹرز بنتے ہیں
سمو گوٹھ میں مردم شماری کے چار بلاک کوڈ رجسٹرڈ ہیں اور یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 1,959 ووٹرز ہیں، جبکہ لاسی گوٹھ میں 392 ووٹرز ہیں
اس معاملے سے باخبر حکام نے بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے کے روٹ پر کچھ فوجی اراضی حکومت نے دوبارہ حاصل کر لی ہے
حکام نے بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے روٹ پر تقریباً 81.77 ایکڑ فوجی اراضی ہے جس میں سے 39.14 ایکڑ پاک فوج کے پاس اور 42.63 ایکڑ پاک فضائیہ کی ہے
یہ کورنگی سے شروع ہوتا ہے اور ‘چکرا پوائنٹ’ پر ختم ہوتا ہے۔ پورا علاقہ جنگلات اور ‘ہاتھی گھانس’ سے ڈھکا ہوا ہے
یہ خبر بھی پڑھیں : ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل میں چیلنج
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایکسپریس وے کے مجوزہ روٹ کے ایک زمیندار عبدالقیوم اور این جی او پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ کے نمائندے احمد شبر نے انڈیجینس لیگل کمیٹی سندھ ہائی کورٹ کے وکیل کاظم حسین مہیسر کی وساطت سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے خلاف سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل میں درخواست بھی دائر کی تھی
درخواست میں سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکس ایجنسی (سیپا) اور ملیر ایکسپریس وے لمیٹڈ کو فریق بنایا گیا ہے، جس میں ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی منظوری کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ عوامی سماعت میں اپیل کنندگان کی طرف سے دائر کئے گئے تبصروں پر مشاورت اور فیصلے کے بغیر غیرقانونی منظوری دی گئی
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر قانونی منظوری میں ایڈوائزری کمیٹی سے بھی مشاورت نہیں کی گئی جو کہ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کے سیکشن 5(6) کی کھلی خلاف ورزی ہے
کاظم حسین مہیسر کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی کے تحفظات کو دور کئے بغیر منصوبے کی ای آئی اے اپروول 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے
اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصوبے کی ای آئی اے منظوری ٹریبونل کی جانب سے 2020ء میں طے کئے گئے اصولوں کے بھی خلاف ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی منظوری صرف ڈائریکٹر جنرل سیپا دستخط سے ہی دے سکتے ہیں
ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی غیر قانونی منظوری ’’ڈپٹی ڈائریکٹر‘‘ نے دی اور دستخط کئے، جو قانون کے مطابق ای آئی اے (انوائرنمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ) منظوری دینے اور نہ ہی دستخط کرنے کے مجاز ہیں
کاظم حسین مہیسر نے واضح کیا کہ ’’ملیر ایکسپریس وے پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کی جانب سے ای آئی اے پبلک نوٹسز جمع کرائے گئے لیکن ’’ملیر ایکسپریس لمیٹڈ‘‘ کو منظوری دیدی گئی
اپیل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمپنی ایکٹ 2017ء کے مطابق ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی اور حصص یا گارنٹی کے ذریعے محدود کمپنی الگ الگ قانونی افراد ہیں جن کے مختلف حقوق اور ذمہ داریاں ہیں
درخواست کے مطابق غیرقانونی منظوری سیپا ایکٹ 2014ء کی لازمی شق بالخصوص سیکشن 31 (3) کی مکمل خلاف ورزی ہے
اس سے قبل اینٹی ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی، انڈیجینئس رائٹس الائنس، کراچی بچاؤ تحریک، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ نے کراچی پریس کلب میں 6 مئی کو ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں انہوں نے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر رکوانے کےلئے قانونی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا، قبل ازیں اس منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے شدید تحفظات کی بنا مقامی افراد مسلسل احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: