پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے مکمل ہڑتال اور پروونشل منیجمنٹ سروس (پی ایم ایس) کے سرکاری افسران کی علامتی ہڑتال گذشتہ دو روز سے جاری ہے اور اس کی وجہ پشاور کے ایک ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر (اے اے سی) اور پشاور ہائی کورٹ بار کے رکن غفران اللہ کے مابین تنازع بنا ہے
اس تنازع میں اے اے سی کے سکیورٹی گارڈز نے وکیل پر مبینہ طور پر تشدد کیا ہے
یہ معاملہ پشاور جی ٹی روڈ پر واقع ایک پیٹرول پمپ میں پیش آیا ہے، جہاں پر پشاور ہائی کورٹ کے وکیل غفران اللہ پیٹرول بھروانے کے لیے لائن میں کھڑے تھے اور اسی دوران اے اے سی اسکواڈ سمیت وہاں آگئے
پشاور ہائی کورٹ بار کا موقف ہے کہ وکیل غفران اللہ پٹرول ڈلوانے کے لیے لائن میں کھڑے تھے اور اسی دوران اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی باری کا انتظار کیے بغیر لائن میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اسسٹنٹ کمشنر کا موقف ہے کہ ”غفران اللہ کار سرکار میں مداخلت کر رہے تھے کیوں کہ اسسٹنٹ کمشنر پیٹرول پمپ پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے گئے تھے کہ عوام کو بلا تعطل پیٹرول کی ترسیل ممکن بنائی جا سکے“
دو نوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن ابھی تک کسی غیر جانب دار کمیٹی یا کسی دفتر کی جانب سے اس واقعے کی تفتیش نہیں کی گئی ہے اور نہ کسی کو ابھی تک قصور وار ٹھہرایا گیا ہے
اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے، جس میں صرف یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے اسکواڈ کی گاڑی پیٹرول پمپ پر جاتی ہے اور لائن کے ایک جانب کھڑی ہوجاتی ہے
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پیٹرول پمپ پر بہت رش ہے اور گاڑیاں قطاروں میں کھڑی ہیں، لیکن فوٹیج میں یہ واضح نہیں ہے کہ وکیل اور اسسٹنٹ کمشنر کے درمیان کیا باتیں ہوئی ہیں
فوٹیج کے آخر میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کا سکیورٹی عملہ وکیل کو پکڑ کر پولیس کی گاڑی میں بٹھا رہا ہے
اسی واقعے کی ایک وڈیو وکلا کی جانب سے میڈیا کو بھی بھیجی گئی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کے سکیورٹی گارڈز وکیل پر مبینہ طور پر تشدد کر رہے ہیں اور ان کو گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں
اے اے سی کی جانب سے وکیل کے خلاف تھانہ چمکنی میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے
مقدمے میں اے اے سی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ عوامی شکایت پر پی ایس او پیٹرول پمپ جی ٹی روڈ گیا تھا تاکہ عوام کو پیٹرول کی ترسیل بلا تعطل ہوں اور اسی دوران وکیل غفران اللہ نے اے اے سی اور ان کی اسکواڈ کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی
مقدمے کے مطابق: ’وکیل نے اے اے سی کی سکواڈ سے اسلحہ چھیننے کی بھی کوشش اور وہ بھی اس وقت جب سکواڈ کے ارکان سرکاری وردی میں ملبوس تھے اور کار سرکار میں مداخلت کی۔‘
اے اے سی کے خلاف وکلا کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ اے اے سی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے کیوں کہ انہوں نے وکیل کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے۔
عدالت کی جانب سے 22A (جب پولیس مقدمہ درج نہیں کرتی تو عدالت کے ذریعے درج کیا جاتا ہے ) کے تحت اے اے سی کے خلاف مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔
وکلا کا موقف
گذشتہ دو دنوں سے پشاور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال جاری ہے اور اس ہڑتال کو سپریم کورٹ بار ایسی سی ایشن کی حمایت بھی حاصل ہے
ہفتے کو وکلا کی جانب سے ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا گیا تھا اور احتجاج کے دوران وکلا کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے جس کی ویڈیو بھی آچکی ہے
پشاور بار کے صدر رحمان الله نے بتایا کہ ’اے اے سی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ایک وکیل پر تشدد کیا ہے اور یہ صرف وکیل نہیں بلکہ اس سے پہلے شاید کتنے عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوگا۔‘
رحمان الله نے بتایا کہ ’ہم نے باقاعدہ ایک مہم شروع کی ہے اور اب ہم اس بیوروکریسی کے ریفارمز کے لیے اقدمات کریں گے تاکہ آئندہ کوئی بھی سرکاری افسر اس طرح کی حرکت نہ کر سکے۔‘
پی ایم ایس افسران کا موقف
اسی واقعے پر پروونشل مینیجمنٹ سروس کے سرکاری افسران بھی احتجاج پر ہیں اور اے اے سی کی حمایت میں ان کی علامتی ہڑتال آج بھی جاری ہے
سرکاری افسران کے اس ہڑتال میں آل پختونخوا کلرک ایسو سی ایشن، پٹواریان ایسو سی اسی ایشن سمیت ضلعی انتظامیہ کے ذیلی دفاتر کے سرکاری ملازمین بھی شامل تھے
پراونشل منیجمنٹ سروس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عابد وزیر نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کا کسی بھی پرووفیشنل گروپ کے ساتھ کوئی ذاتی تنازع نہیں ہوتا ہے بلکہ سرکاری افسران ریاست کے ایجنٹ ہوتے ہے اور عوامی مفاد کے لیے قانون پر عمل درآمد یقنی بناتے ہے
انہوں نے بتایا کہ ’موجودہ واقعہ جو ہوا ہے اس کو قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنا چاہیے اور وکلا کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کے پشاور کے دفتر پر حملہ ایسا ہے جیسے ریاست پر حملہ کیا گیا ہو۔ ہم کسی صورت متعلقہ اے اے سی کے خلاف کارروائی کو قبول نہیں کریں گے۔‘