منور سہروردی: بینظیر بھٹو کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے محافظ کو کس نے قتل کروایا؟

جعفر رضوی

”خون بَھل بَھل بہہ رہا تھا۔۔۔ گولی سینے میں بھی لگی تھی۔۔۔ بڑی مشکل سے انہوں نے مجھ سے کہا بھائی! میرے بچّے چھوٹے ہیں۔ جلدی سے ہسپتال لے چلو۔۔۔“

حواس باختہ رکشہ ڈرائیور محمد اعظم نے لڑکھڑاتی زبان سے انتہائی گھبرائے ہوئے لہجے میں صحافیوں کو بتایا۔

یہ کراچی کے مشرقی حصّے میں نیشنل اسٹیڈیم روڈ (شہید صبغت اللّہ شاہ پیر پگارا روڈ) پر واقع آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے شعبۂ ہنگامی امداد کی راہداری تھی، جہاں بس ابھی ابھی قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے والے منور سہروردی کو لایا گیا تھا۔۔ اور اب صحافیوں کی بڑی تعداد اس حملے کی مزید تفصیلات جاننے کے لیے ہسپتال پہنچ رہی تھی۔

”وہ (منور سہروردی)۔۔۔۔ نیو ٹاؤن کے موڑ تک مجھ سے باتیں کر رہے تھے۔۔۔“ رکشہ ڈرائیور محمد اعظم نے صحافیوں کو بتایا۔

حملے میں گولی لگنے سے شدید زخمی منور سہروردی کو محمد اعظم ہی اپنے رکشہ میں ہسپتال لائے تھے۔

”رکشہ چلاتے چلاتے میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو۔۔۔“ ابھی محمد اعظم اگلا جملہ بولنے ہی والے تھے کہ ایمرجنسی وارڈ سے تیزی سے نکل کر آنے والے ایک رپورٹر نے محمد اعظم سے بھی زیادہ گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ”ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں ڈیتھ ہو گئی۔“

اور اُس رپورٹر کا یہ جملہ میں نے اُس ایمرجنسی وارڈ سے پانچ ہزار میل دور لندن میں واقع بی بی سی کے اسٹوڈیوز میں براہِ راست سنا۔

یہ جمعرات 17 جون 2004 کی صبح تھی اور اس روز میں بی بی سی کی (ریڈیو) نشریات ’سیربین‘ کا ڈیوٹی ایڈیٹر تھا۔

منور سہروردی پر حملے کی ابتدائی خبر تو ایک سرکاری ذریعے سے آ ہی چکی تھی مگر تفصیلات جاننے کی کوشش میں، مَیں بھی (لندن سے بذریعہ ٹیلی فون) کراچی کے آغا خان ہسپتال میں موجود ساتھی رپورٹرز سے مسلسل رابطے میں تھا۔ اور بیک وقت دو مخلتف فونز کانوں سے لگائے ہوئے ساری پیش رفت براہِ راست سُن رہا تھا کہ میں نے یہ جملہ سنا۔

”ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں۔۔۔ڈیتھ ہو گئی۔“ پھر میں نے سنا۔

”یار۔۔۔ ایک عہد تمام ہوگیا۔“ یہ دوسرا جملہ تھا جو وہیں آغا خان ہسپتال کی اُسی ایمرجنسی کے باہر موجود میرے ایک اور ساتھی رپورٹر کا تھا۔

اور میرے ساتھی نے غلط بھی نہیں کہا تھا۔

منور سہروردی کی جان چلے جانے سے واقعی کراچی کی سیاست کا ایک باب بند ہو گیا تھا۔

جان تو ہر انسان کی بالکل مساوی طور پر قیمتی ہوتی ہے۔ اُس روز بھی ایک قیمتی انسان جان گئی تھی۔ منور سہروردی کا قتل ہوا تھا مگر یہ کوئی عام سی واردات نہیں تھی۔ نہ ہی کسی عام سے شہری کا قتل ہوا تھا۔

یہ گلی محلّے کی سیاست سے وزیراعظم بینظیر بھٹو کا سب سے قابلِ اعتماد ساتھی بلکہ ’سایہ‘ بن جانے والے سیاسی رہنما اور کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پہچان سمجھے والے منور سہروردی کا قتل تھا۔

وہ منور سہروردی، جن کے بارے میں اب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ’اگر منور سہروردی زندہ رہتے تو شاید بینظیر بھٹو کا قتل ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔‘

لیکن کیا یہ ایک ’سیاسی قتل‘ تھا؟ کیا یہ بھی قریباً چار دہائیوں سے کراچی میں جاری سیاسی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کا حصہ تھا؟ بالکل ویسا ہی، جیسے کراچی میں برسوں تک قتل و غارت کے ہزاروں واقعات ہوتے رہے (اور آج بھی جاری ہیں) جن میں تقریباً ہر سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ، قوم پرست یا علیحدگی پسند جماعتوں اور تنظیموں کے ہزاروں حامییوں، کارکنوں یا رہنماؤں کو قتل کر دیا گیا۔

منور سہروردی کا قتل ’سیاسی قتل‘ ہرگز نہیں تھا مگر ہوا بڑے ہی سیاسی انداز سے۔۔ اس بارے میں مزید جاننے سے پہلے مقتول کو جان لیجیے۔

شناختی کارڈ پر درج تاریخ کے مطابق منور حسین سہروردی پانچ جون 1963 کو کراچی کے شرقی علاقے ’حیدرآباد کالونی‘ میں احمد حسین سہروردی کے گھر پیدا ہوئے۔

منور سہروردی کے اکلوتے صاحبزادے فیضان سہروردی نے مجھے بتایا کہ اُن کے دادا، احمد حسین سہروردی کے چار فرزند تھے۔ سب سے بڑے محمود سہروردی، پھر خورشید سہروردی، منور سہروردی اور فاروق سہروردی۔ چھ بہنوں اور چار بھائیوں میں منور سہروردی تیسرے بھائی تھے۔ یہ سارا خاندان، یعنی چاروں بھائی اور اُن کے اہلِ و عیال، سب ہی حیدرآباد کالونی کے اُسی آبائی گھر میں رہائش پذیر رہے۔

فیضان سہروردی کے مطابق منور سہروردی کے چھوٹے بھائی فاروق بھی (غالباً) 1995 میں ہونے والے ایک واقعے میں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے اور پھر گلے میں لگنے والی گولی کی وجہ سے ’کومہ‘ میں چلے گئے تھے۔ وہ 15 برس تک بستر علالت پر رہے اور اس دوران منور سہروردی ہی مسلسل اُن کی دیکھ بھال کرتے رہے اور پھر 2010 میں مسلسل بے ہوشی (یا کومہ ہی) کی حالت میں فاروق زندگی کی بازی ہار گئے۔

بعض خاندانی ذرائع کے مطابق فاروق سہروردی کو سیاسی مخالفت کی بنا پر نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ محمود سہروردی کے مطابق یہ حیدرآباد کالونی ہی میں ہونے والی چھینا جھپٹی (ڈکیتی) کی واردات تھی۔

فیضان کے مطابق منور سہروردی نے انتہائی کمسنی میں سیاسی نظریات اپنا لیے تھے اور پانچ جولائی 1977 کو جب جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے (اُس وقت کی) منتخب حکومت کا تختہ الٹ کو پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو (معزول کرتے ہوئے) گرفتار کرلیا تو نوجوان منور سہروردی بھٹو کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے لگے۔

فیضان سہروردی کے اس دعوے کی تصدیق دو اور مختلف ذرائع سے ہوئی۔

بھٹو خاندان کے قریب رہنے والے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے لیے پاکستان اور افغانستان کے (سابق) چیف فوٹو گرافر زاہد حسین یاد کرتے ہیں کہ ’جنرل ضیا نے بھٹّو حکومت کا تختہ الٹا تو نصرت بھٹّو بچّوں کے ساتھ 70 کلفٹن (کراچی میں بھٹّو خاندان کی رہائشگاہ) آگئیں جہاں ہمدردی اور حمایت کے اظہار کے لیے ہر وقت وفود آتے رہتے اور تصاویر بنانے کے لیے ہمارا بھی زیادہ تر وقت وہیں گزرتا تھا۔

”اتنے زیادہ لوگ آتے کہ اکیلے نصرت بھٹّو کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ سب سے مل سکیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ بعض لوگ اُن کی بجائے مرتضیٰ اور بینظیر سے ہی مل لیں۔ ایک روز وفد آیا تو نصرت بھٹّو نے مجھے کہا کہ لائبریری سے ’بےبی‘ کو بلاؤ۔ صرف بھٹّو صاحب بینظیر کو ’پنکی‘ کہتے تھے ورنہ بیگم صاحبہ، گھر کے تمام افراد، ملازمین (اور ہم بھی) بینظیر بھٹّو کو بیبی ہی کہتے تھے۔“

زاہد حسین نے بتایا کہ اُسی زمانے میں ایک نوجوان ہر روز 70 کلفٹن آتا تھا اور مجھ (زاہد حسین) سے یہی کہا کرتا تھا کہ ’بس کسی طرح بینظیر بھٹو سے ملوا دیں۔ وہ نوجوان منور سہروردی تھے۔‘

منور سہروردی کی پیپلز پارٹی سے اس کم عمری میں وابستگی کا جو دعویٰ اُن کے خاندان نے کیا، اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی خود پیپلز پارٹی کی (اُس وقت کی) سربراہ بینظیر بھٹو نے۔

18 جون 2004 کو (یعنی منور سہروردی کے قتل کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر) پیپلز پارٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک مضمون میں خود بینظیر بھٹو نے بتایا کہ ’منور سہروردی کی پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی کا آغاز اس وقت ہوا، جب نوجوان منور سہروردی 16 ستمبر 1977 کو ذوالفقار بھٹّو کو گرفتار کیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونا شروع ہوئے۔ یہ وابستگی ایسی ہوئی کہ پھر منور سہروردی سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر پہنچے۔‘

بینظیر بھٹونے لکھا کہ ’منور سہروردی کراچی کے ایک ایسے بےخوف اور نڈر فرزند تھے جنھوں نے ہر اچھے برے وقت میں بےخوفی سے آزادی، انصاف اور عوامی حقوق کی جدوجہد کی۔‘

نوجوان منور سہروردی پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے شہر کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ہمیشہ شریک ہوتے رہے اور جلد ہی سیاسی، صحافتی اور سماجی حلقوں کے لیے ایک بہت معروف اور جانی پہچانی شخصیت بن کر ابھرے۔

آرٹس کاؤنسل ہو یا کراچی پریس کلب، جم خانہ ہو یا قصرِ ناز۔۔ شہر کی قریباً ہر تقریب اور سرگرمی میں منور سہروردی ایک ایسے مہمان ہوتے جن کا تعلق و رابطہ سیاسی و سماجی طور پر ہر اہم فرد اور ہر حلقے سے ذاتی بنیادوں پر قائم دکھائی دیتا۔

یہ کانوں سنی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ منور سہروردی بلاشبہ تمام سیاسی و سماجی حلقوں میں یکساں مقبول رہے۔

پیپلز پارٹی سے اپنے دیرینہ تعلق کی بنا پر منور سہروردی جلد ہی پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتہائی قریب جا پہنچے۔ بینظیر بھٹو کے مطابق ’سہروردی نے پارٹی کی جانب سے سینیٹر بنائے جانے کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے صوبائی سیکرٹری اطلاعات بنائے جانے کو ترجیح دی۔‘

لیکن پھر بھی جماعت نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ہی انہیں سرکاری عہدے پر بھی فائز کیا اور وہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر مقرر کیے گئے۔

کڑے وقتوں اور مشکل ادوار میں ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اور اُس سے بھی کہیں زیادہ بینظیر بھٹو کے ساتھ ڈٹ کے کھڑے ہونے والے منور سہروردی آہستہ آہستہ ان کے اتنے بااعتماد ساتھی بن گئے کہ بینظیر بھٹو نے انھیں اپنا ’چیف سکیورٹی افسر‘ مقرر کر لیا۔

”وہ سائے کی طرح بی بی (بینظیر بھٹو) کے ساتھ رہتے تھے۔“ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور منور سہروردی کے ساتھی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مجھے بتایا۔

”قریب آنا تو دور کی بات کسی کی مجال نہیں تھی، کہ منور سہروردی کی موجودگی میں کوئی براہِ راست بی بی سے مخاطب بھی ہو سکتا ہو۔ بی بی تو ہر ایک سے بہت دوستانہ گفتگو کرتی تھیں۔ مگر میں نے خود دیکھا کہ اُن سے مخاطب ہونے والے پہلے سوالیہ نظروں سے منور بھائی کی جانب دیکھتے تھے کہ جیسے اجازت لے رہے ہوں کہ کیا وہ بی بی سے بات کر سکتے ہیں۔“

منور سہروردی پر بینظیر بھٹو کے اعتماد کا اندازہ پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے خود بینظیر بھٹو کے اس مضمون سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں سابق وزیر اعظم نے لکھا کہ ’اپنی زندگی کے لیے بھی میں نے منور پر بھروسہ کیا اور وہ (جنرل) ضیا کی فوجی آمریت کے خاتمے کے لیے جمہوری قوتوں کی جدوجہد کے زمانے سے میرے محافظ رہے۔‘

منور سہروردی کا قتل کیسے ہوا؟

منور سہروردی جمعرات 17 جون 2004 کی دوپہر اپنے گھر سے سبز رنگ کی ہنڈا سوک گاڑی میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔

فیضان سہروردی کا کہنا ہے ”بابا کسی صحافی سے ملاقات کے لیے آج ٹی وی کے دفتر جانے کا کہہ کر گھر سے گئے تھے۔ محترمہ (بینظیر بھٹو) اور آصف (زرداری) صاحب دونوں نے شہر کے حالات کے پیشِ نظر اور بابا کی شخصیت کی وجہ سے زبردستی کئی محافظ بھی بابا کی حفاظت کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔

”مگر بابا محافظین کے ساتھ شہر میں نکلنا یا نقل و حرکت کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پتہ نہیں لاپرواہی تھی، انکسار، شہر میں اپنے لیے احترام اور محبت کے جذبات پر بھروسہ یا کچھ اور۔۔۔ مگر بابا کو گارڈز پسند نہیں تھے۔ اکثر و بیشتر اکیلے ہی، خود گاڑی چلا کر جاتے تھے۔ اور اُس روز (قتل کے دن) بھی وہ محافظوں کے بغیر ہی خود گاڑی چلاتے ہوئے گھر سے نکلے“ فیضان نے بتایا۔

سرکاری ریکارڈ، عدالتی ذرائع اور پولیس تفتیش کاروں اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر مشتمل میری تحقیق کے مطابق گھر سے نکل کر منور سہروردی جمشید روڈ سے ہوتے ہوئے بزنس ریکارڈر روڈ پہنچے، جہاں (صاحبزادے) فیضان کے مطابق انھیں آج ٹی وی اور انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر کے دفتر میں کسی صحافی سے ملنا تھا۔

”منور سہروردی نے اپنی گاڑی بزنس ریکارڈر کے دفتر کے سامنے کھڑی کی۔ ابھی وہ گاڑی سے اتر ہی رہے تھے کہ ایک اور گاڑی میں سوار دو افراد نے اُن پر گولیاں چلا دیں۔“

فیضان سہروردی کا کہنا ہے ”بابا پر مختلف سمتوں سے حملہ ہوا۔ قاتلوں کی تعداد دو سے زیادہ تھی۔“

منور سہروردی کے بڑے بھائی محمود سہروردی نے مجھے بتایا ”منور کو چار گولیاں لگیں۔ دو سینے میں اور دو بازو کے نیچے بغل میں۔“

18 جون 2004 کی اپنی اشاعت میں پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ نے بتایا کہ حملہ آور ایک سفید رنگ کی گاڑی میں سوار تھے اور عینی شاہدین کے مطابق گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ابھی منور سہروردی اس سے اترے بھی نہیں تھے کہ اُن پر حملہ ہوا۔

اخبار کا کہنا تھا کہ حملے کے نتیجے میں منور سہروردی کی گاڑی کی ونڈ سکرین اور ڈرائیور والی سائیڈ کا شیشہ دونوں ٹوٹ گئے اور واردات کے بعد حملہ آور اپنی گاڑی میں فرار ہو گئے۔

انتہائی مضبوط جسامت اور لحیم شحیم قد و قامت رکھنے والے منور سہروردی شدید زخمی حالت میں بھی اعصاب کے بہت مضبوط ثابت ہوئے۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ واردات بعد وہاں جمع ہو جانے والے ہجوم میں سے کسی نے پہچانتے ہوئے کہ یہ منور سہروردی ہیں، پاس سے گزرنے والے رکشہ کو روکا تاکہ منور سہروردی کو فوری طور پر طبّی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا جا سکے۔

اور یہ رکشہ محمد اعظم چلا رہے تھے۔ رکشے میں ہسپتال جاتے ہوئے بھی شدید زخمی منور سہروردی پورے حواس میں تھے۔

واردات کے بعد حملے میں منور سہروردی کے زخمی ہونے کی اطلاع ملتے ہی آغا خان ہسپتال میں جمع ہوجانے والے اخبار نویسوں، ٹی وی چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے رکشہ ڈرائیور محمد اعظم کا کہنا تھا کہ ”کئی گولیاں لگی تھیں اور بَھل بَھل خون بہہ رہا تھا۔ گولی سینے میں بھی لگی تھی۔ بڑی مشکل سے انھوں نے مجھ سے کہا بھائی، میرے بچّے چھوٹے ہیں، جلدی سے ہسپتال لے چلو اور میری جان بچا لو۔ انہوں نے ہی مجھ سے کہا تھا کہ انہیں آغا خان ہسپتال لے جاؤں۔ وہ (منور سہروردی) نیو ٹاؤن کے موڑ تک مجھ سے باتیں کر رہے تھے۔“ رکشہ ڈرائیور محمد اعظم نے صحافیوں کو بتایا۔

”جب ہم ہسپتال کے دروازے پر پہنچے تب تک بھی منور سہروردی ہوش میں تھے اور یہ بتانے کے لیے کہ ہم ہسپتال پہنچ گئے ہیں میں نے رکشہ چلاتے چلاتے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو منور سہروردی کوئی جواب نہ دے سکے۔“

رکشہ ڈرائیور محمد اعظم کے مطابق وہ منور سہروردی کو سیدھا ایمرجنسی تک لے گئے، جہاں فوراً ہی انھیں ہنگامی طبی امداد کے لیے ’آپریشن تھیٹر‘ منتقل کیا گیا مگر ہسپتال کے ذرائع کے مطابق شدید زخمی حالت میں لائے جانے والے منور سہروردی زخموں کی تاب نہ لاسکے اور اُن کی جان نہ بچائی جا سکی۔

فیضان سہروردی تب آٹھ برس کے تھے۔ وہ کہتے ہیں ”مجھے یاد ہے کہ ہم اُس رات (کراچی کے تفریحی مقام) سندباد جانے والے تھے۔ مگر پھر دوپہر کو اچانک ہی لوگوں کا ایک ہجوم ہمارے گھر آ گیا۔ اتنے میں (پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے سابق رہنما اور بلاول ہاؤس کے انچارج) اعجاز دُرّانی کا فون آیا کہ بابا ایک حملے میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں اور انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔“

فیضان کا کہنا ہے ”واقعے کی اطلاع ملتے ہی سب گھر والے، والدہ اور دونوں تایا بزنس ریکارڈر کے دفتر کی طرف روانہ ہوئے مگر وہاں پتا چلا کہ بابا کو (آغا خان) ہسپتال لے جایا گیا ہے تو سب وہاں پہنچے۔“

منور سہروردی کے سب سے بڑے بھائی محمود سہروردی نے مجھے بتایا ”میں گھر پر تھا کہ منور کی بیٹی گھبرائی ہوئی اوپر سے آئی اور اُس نے مجھے بتایا کہ منور کو گولی لگی ہے۔ میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ منور کو رکشہ میں ڈال کر لے جایا گیا ہے۔ تو میں بھی ہسپتال پہنچا۔“

”رکشہ والے (محمد اعظم) نے بتایا کہ منور (سہروردی) راستے بھر دعائیں بڑھتا ہوا ہسپتال تک گیا تھا۔ وہ (منور) مجھ سے گیارہ برس چھوٹا تھا“ محمود سہروردی نے غمزدہ لہجے میں کہا۔

بی بی سی اردو سروس نے جمعرات 17 جون 2004 کو اپنی اشاعت میں (اُس وقت کی) کراچی کی نامہ نگار عروج جعفری کی رپورٹ میں بتایا کہ شہر کی پولیس کے (اُس وقت کے) سربراہ ڈی آئی جی طارق جمیل کا کہنا تھا کہ منور سہروردی کا قتل ٹارگٹ کلنگ تھی۔

شہر کی اکثریت کا خیال بھی یہی تھا کہ منور سہروردی سیاسی بنیادوں پر شہر میں برسوں سے جاری تشدد کا نشانہ بنے اور یہ ایک سیاسی قتل تھا۔

’ڈان‘ اور بی بی سی اردو سروس دونوں کے مطابق منور سہروردی کے قتل کے بعد شہر میں زبردست کشیدگی پھیلی۔

’شہر کے مختلف مقامات خاص طور پر پٹیل پاڑہ، جمشید روڈ، حیدرآباد کالونی، سولجر بازار، گرو مندر، بنوری ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں منور سہروردی کے قتل پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے۔ جگہ جگہ گاڑیاں جلائی جانے لگیں اور پتھراؤ کے واقعات رونما ہوئے۔‘

قتل کے فوراً ہی بعد بینظیر بھٹو نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قتل کی تحقیقات سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ناصر اسلم شاہد اور جسٹس مامون قاضی سے کروائی جائیں۔

بی بی سی اردو کے مطابق بینظیر بھٹو نے تمام تنظیمی عہدیداروں کو ہدایت کی کہ منور سہروردی کے قتل پر تین روز تک احتجاج کیا جائے جبکہ حکومت کی حامی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ منور سہروردی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ’پُل‘ کا کردار ادا کرتے رہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی (اُس وقت کی) سربراہ بے نظیر بھٹو نے منور سہروردی کے قتل پر شدید دکھ، صدمے اور رنج کا اظہار کیا اور اس واردات کی شدید مذمت کی۔

بینظیر بھٹو نے اپنے اس شدید مگر ابتدائی ردعمل کا اظہار ایک مضمون میں کیا جو انھوں نے اُسی وقت قلمبند کیا اور فوراً ہی پارٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ اس مضمون میں بینظیر نے لکھا کہ ’منور نے مجھ پر ہونے والے (ممکنہ) قاتلانہ روکنے کے لیے تربیت حاصل کی مگر سانحہ یہ ہوا کہ خود منور سہروردی کو قتل کر دیا گیا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’منور سہروردی اپنی آخری سانس تک میرے لیے بالکل بھائیوں کی طرح تھے، انھیں کھو دینے پر دکھ کا جو احساس مجھے ہو رہا ہے اُس کا اظہار لفظوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ میں منور کا سوگ بالکل ویسے ہی مناؤں گی جیسے میں نے اپنے بھائیوں مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو کا سوگ منایا۔‘

اپنے مضمون میں بینظیر بھٹو نے منور سہروردی کی ہلاکت کو ’سیاسی بنیادوں پر ہونے والا قتل‘ قرار دیا اور لکھا کہ ’اگر حقائق جاننے ہیں تو منور سہروردی کے قتل کی تین ممکنہ پہلوؤں سے تفتیش کرنی پڑے گی۔‘

بینظیر کے خیال میں پہلا پہلو یہ تھا کہ منور کو ’ممکنہ طور پر ایم کیو ایم (کے عسکریت پسندوں) نے قتل کیا ہو جو منور سہروردی کو ایک ’پُرامن‘ کراچی کی علامت سمجھتے ہیں‘۔ پاکستان کی سابق وزیراعظم کی جانب سے اس خدشے کے اظہار پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا ردعمل جاننے کے لیے جب میں نے ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر اور الطاف حسین کے دستِ راست مصطفیٰ عزیز آبادی سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ بینظیر بھٹو نے ایسا خدشہ کیوں ظاہر کیا۔

”ایم کیو ایم کا منور سہروردی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ 2006 میں کراچی پولیس نے سب بتا ہی دیا تھا۔ کراچی پولیس کے تب کے سربراہ نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس میں سب تفصیلات بتا ہی دی تھیں۔ وہ (بینظیر بھٹو) یہ نہیں کہہ رہی تھیں کہ ایم کیو ایم اس (قتل) میں ملوث تھی۔ وہ تو خود تین ممکنہ اطراف اور زاویوں سے اس قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ انھوں نے تو اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے دیگر قوتوں پر بھی یہ الزام لگایا تھا مگر بعد کی سرکاری تحقیقات اور خود پولیس کی تفتیش نے ثابت کر دیا کہ بینظیر بھٹو کا یہ خدشہ غلط تھا۔“

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”اس سب کے باوجود بھی میں یہ کہوں گا کہ محض الزام ہی حد تک بھی ایم کیو ایم کو اس میں ملوث کرنا درست نہیں بلکہ قطعاً اور سراسر غلط تھا۔ ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی سے ہمارا سیاسی اختلاف رہا مگر ایم کیو ایم نہ ایسی کسی سرگرمی میں کبھی ملوث رہی اور نہ اس واقعے سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق رہا۔ یہ بے نظیر بھٹو کا خدشہ ہوسکتا ہے مگر بعد میں پولیس نے جن لوگوں کا گرفتار کیا اُن سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔“

پاکستان پیپلز پارٹی یا بینظیر بھٹو کے خدشات اور موقف کچھ بھی رہے ہوں مگر خود منور سہروردی کا خاندان بھی ایم کیو ایم کو اس قتل میں ملوث نہیں سمجھتا۔

خاندانی ذرائع کے مطابق تو خود (پیپلز) پارٹی کو شک رہا کہ جنرل مشرف اور جنرل ضیا کے ادوار سے ہی پیپلز پارٹی سے مخاصمت رکھنے والے ریاستی اداروں کے اندرودنی عناصر اس میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

منور سہروردی کے قتل کو سیاسی قتل قرار دیتے (یا سمجھتے) ہوئے بینظیر بھٹو نے دوسری ممکنہ وجہ اپنی وطن واپسی کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش سمجھی اور لکھا ’ہو سکتا ہے منور سہروردی کے قتل کا تعلق میری وطن واپسی سے بھی ہو۔‘ انھوں نے اس ضمن میں اس وقت کے سربراہ حکومت جنرل پرویز مشرف سے مطالبہ کیا وہ اس قتل کی پوچھ گچھ کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر (حکام کے سامنے) پیش کر دیں۔

فوجی آمر اور سابق آرمی چیف جنرل مشرف 79 سال کی عمر میں 5 فروری 2023 کو طویل علالت کے بعد دبئی میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں لہٰذا بینظیر بھٹو کے موقف کے جواب میں جنرل مشرف کا ردعمل حاصل کرنا یا شامل کرنا ممکن نہیں۔

بینظیر بھٹو نے منور سہروردی کے قتل کو سیاسی قتل قرار دینے کی تیسری وجہ کو (جوہری سائنسدان) ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے موقف سے جوڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ریاستی نظام کے اندر موجود عناصر بھی منور سہروردی کے قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں جو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اس ’ڈھونگ‘ (کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اکیلے ہی سب کچھ کر رہے تھے) کے دفاع کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ آصف (زرداری) کے ذاتی محافظ اور پھر منور سہروردی کا قتل اس لیے ہوا کہ میں نے یہ مفروضہ رد کر دیا تھا کہ ڈاکٹر خان اکیلے سرگرم تھے اور منور سہروردی کے قاتل مجھے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔‘

خاندان ہو یا شہری، سیاسی و سماجی حلقے سب بہت طویل عرصے تک منور سہروردی کے اس قتل کے سیاسی یا ریاستی جواز تلاش کرتے رہے اور تو اور خود صحافیوں کی بھی بڑی تعداد منور سہروردی کے قتل کی ’سیاسی وجوہات‘ ہی جاننے کی کوشش کرتی رہی۔

مگر منور سہروردی کا قتل سیاسی قتل ہرگز نہیں تھا مگر ہوا بڑے ہی سیاسی انداز سے تو آخر یہ قتل کیوں، کیسے اور کس نے کیا؟

منور سہروردی کا قتل بھی دراصل کراچی انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان کی ایما پر ہوا اور یہ کام کِیا پیپلز پارٹی (شہید بھٹو گروپ) یا مرتضیٰ بھٹو سے منسوب خفیہ تنظیم ’الذوالفقار‘ سے جڑے کارندوں نے۔

کیوں اور کیسے؟ اس کہانی کا اپنا ایک پس منظر ہے۔

میری تحقیق پر مبنی گذشتہ تین اقساط میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ کراچی میں جوئے، سٹّے اور کرکٹ سے منسلک جوئے کے کاروبار پر چھا جانے والے انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان جب داؤد ابراہیم تک پہنچ چکے تو شعیب خان کی ایما پر پہلے بھولو نے جمعرات 14 ستمبر 2000 کو بینکاک میں داؤد ابراہیم کے لیے ’روگ‘ بن جانے والے ان کے سابق ساتھی چھوٹا راجن کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

جب راجن اس حملے میں بچ گئے تو اس معاملے پر شعیب خان اور بھولو کے درمیان (قتل کی سپاری یعنی پیسوں کی لین دین) پر ٹھن گئی۔

پھر آٹھ جنوری 2001 کو بھولو ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے خیابان سحر سے لاپتہ ہو گئے تو اس گمشدگی پر جنوبی افریقہ میں قائم بھولو کے ساتھی منظر اور دیگر (منظر-بھولو گینگ) نے شعیب سے بھولو کی گمشدگی یا قتل کا بدلہ لینے کے لیے دو مختلف حملے کیے۔

ان حملوں میں سے دوسرے حملے میں شعیب زخمی ہوئے جبکہ چار پولیس اہلکاروں کی جان چلی گئی۔ شعیب خان کو زخمی ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں طبّی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت مل گئی۔

شعیب خان ضمانت حاصل کرتے ہی پھر انڈر ورلڈ کی مدد سے اپنے جُرم کی سلطنت چلاتے رہے اور میری تحقیق کے مطابق دراصل اس دوران شعیب نے بھولو کے اثاثہ جات و اراضی (پلاٹ اور دیگر جائیداد) وغیرہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

منظر بھولو گینگ میں اکثریت پی ایس ایف یا اُس کے عسکری بازو ’الذولفقار‘ کے سابق اراکین کی تھی لہٰذا شعیب خان کے لیے یہ سب کچھ اُن کی توقعات کے برخلاف ’تر نوالہ‘ ثابت نہیں ہوا۔

شعیب خان کو اور پھر بھولو اور منظر گینگ کو بہت قریب سے دیکھنے اور بعد ازاں ترکِ وطن کر جانے والے ایک مشترکہ دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ’بھولو کی کچھ زمین (ایک قیمتی پلاٹ) ڈالمیا میں تھا اور ایک عمارت شرف آباد میں بھی واقع تھی۔

’شعیب نے یہ سوچ کر کہ اب نہ تو بھولو ہے نہ ہی کوئی اِن قیمتی زمینوں، جائیدادوں کی ملکیت پر پوچھ گچھ کرنے آئے گا، (بھولو کے) ان اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہا مگر چونکہ پیپلز پارٹی اور پی ایس ایف میں بھولو کے سابق دوستوں کی اکثریت تھی لہٰذا انہیں شعیب کے ارادوں کی اطلاع ملتے ہی ہلچل شروع ہو گئی۔

بھولو منظر گینگ نے بھی شعیب کو یہ سب کرنے سے روکنے کی کوششیں شروع کیں اور بات بڑھتے بڑھتے پیپلز پارٹی اور پی ایس ایف کے عسکری بازو کے سابق (مگر بہت مضبوط) اراکین تک جا پہنچی اور منور سہروردی نے پرانی دوستی اور سیاسی رفاقت پر بھولو کے خاندان کا ساتھ دیا۔

’اس سے قبل کہ شعیب بھولو کے ایک انتہائی قیمتی پلاٹ پر قبضہ کر لیتے، بھولو کے دوستوں (اور دیگر ذرائع) سے معاملہ منور سہروردی تک پہنچ گیا اور منور سہروردی نے شعیب خان کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ بھولو کے دوستوں کا ساتھ دینے اور شعیب کے ارادے ناکام بنا دینا ہی منور سہروردی کا ایسا جرم بن گیا کہ شعیب خان نے منور سہروردی کے قتل کا منصوبہ بنایا۔‘ میرے، شعیب اور بھولو کے ایک مشترکہ دوست نے بتایا۔

اپنے دوست سے یہ بات معلوم ہوتے ہی میں نے اس کی تصدیق کے لیے پی ایس ایف کے ایک سابق رہنما اور اپنے ایک اور ذریعے سے رابطہ کیا۔

’ہاں، ہاں یہی وجہ تھی منور بھائی کے قتل کی کہ وہ ہمارے اور شعیب خان کے درمیان تنازعے میں ہمارا ساتھ دیتے رہے۔ اور یہی شعیب خان کو بُرا لگا تھا۔‘ پی ایس ایف کے اس سابق رہنما نے کہا۔

خود منور سہروردی کے ایک قریبی ذریعے نے بھی تصدیق کی۔ ’یہ مجھے بھی معلوم ہوا تھا شعیب خان کے مقابلے میں انھوں (منور سہروردی) نے بھولو (کے خاندان اور دوستوں) کا ساتھ دیا۔‘

بہرحال، ان مختلف ذرائع سے کی گئی گفتگو (اور کئی ذرائع سے اُس کی تصدیق کے بعد) جو کہانی سامنے آئی وہ شعیب خان کی بے رحمی، سفّاکی، خود غرضی اور چالاکی کے ساتھ ساتھ شاطر دماغی اور سازشی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ شعیب کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ منور سہروردی جیسی مضبوط اور نمایاں شخصیت پر خود اور اکیلے ہاتھ نہیں ڈال سکتا لہٰذا اُس نے بڑی چالاکی اور حاضر دماغی سے منور سہروردی کو راستے سے ہٹانے منصوبہ بنایا اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) گروپ کے سابق رکن اور مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنارا سے رابطہ کیا۔

علی سنارا سیاسی مخالفت (اور بینظیر بھٹو سے انتہائی قربت) کی وجہ سے منور سہروردی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ میری تحقیق کے مطابق شعیب خان نے علی سنارا کو پیشکش کی کہ وہ مرتضیٰ بھٹو (کے قتل) کا بدلہ لینے کے لیے منور سہروردی کو قتل کرنے میں علی سنارا کی مدد کر سکتے ہیں۔

مگر علی سنارا نے اس پیشکش پر عمل درآمد کے لیے شعیب خان سے کچھ وقت مانگا۔ مجھے ایک ذریعے نے بتایا۔

’علی سنارا بھی جانتا تھا کہ منور سہروردی پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔ منور سہروردی بلاشبہ بہت مضبوط اور بااثر شخصیت تھے۔ جو رہنما بینظیر بھٹو اور آصف زرداری تک ہمہ وقت رسائی اور پہنچ رکھتا ہو، قومی اداروں، سیاسی جماعتوں، عدلیہ، وکلا، پولیس فوج سب کے اعلیٰ حلقوں سے ذاتی بنیادوں پر تعلقات رکھتا ہو۔ اُس پر حملہ کرنا مذاق نہیں تھا تو علی سنارا جیسے کرداروں کو بھی اُس پر حملہ کرنے سے پہلے ہر پہلو سے سوچنا پڑتا ہے اور علی سنارا نے بھی یہی سب سوچ کر وقت مانگا ہو گا۔‘

’مگر شعیب خان بلا کا ذہین تھا۔‘ ایک تفتیشی افسر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا۔

’شعیب نے علی سنارا سے دوسری ملاقات میں ہی ایسی پیشکش کر ڈالی کہ اس کے پاس انکار کی گنجائش ہی نہیں بچی۔ شعیب نے علی سے کہا کہ وہ ذیشان کاظمی کے قتل میں بھی علی سنارا کی مدد کر سکتا ہے اور یہ علی سنارا کی دکھتی رگ تھی۔‘

20 ستمبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے چند روز قبل یعنی 16 ستمبر 1996 کو ذیشان کاظمی نے ہی علی سنارا کو کراچی کے جنوبی علاقے میں تھانہ عیدگاہ کی حدود سے گرفتار کیا تھا،‘ افسر نے کہا۔

ذیشان کاظمی ریاست کے اہلکار تھے مگر مرتضیٰ بھٹو اور علی سنارا انھیں سیاسی بنیادوں پر انتظامی مخالف سمجھتے تھے۔

’پھر حلوہ تو کھلایا نہیں ہوگا ذیشان نے سنارا کو۔ وہی کیا ہو گا جو ذیشان جیسے افسران سنارا جیسے مطلوب افراد کے ساتھ کر سکتے ہیں تو وہ تو ذاتی دشمنی بھی تھی سنارا کی ذیشان سے اور یہی وہ وجہ تھی جو شعیب کے لیے ’فائدہ‘ اور ذیشان (کاظمی) اور منور (سہروردی) کے لیے موت کا پروانہ بن گئی۔‘

ذیشان کاظمی کے قتل میں مدد کی پیشکش علی سنارا کے لیے ایسا سودا تھی کہ اب انکار ممکن نہیں تھا۔ دشمن (ذیشان کاظمی) سیاسی بھی تھا اور ذاتی بھی۔ تو ’سودا‘ ہو گیا۔

طے یہ ہوا کہ پہلے شعیب خان، علی سنارا کو ذیشان کاظمی کے قتل کا موقع دے گا اور پھر علی سنارا منور سہروردی کا قتل کر کے (ایک طرف مرتضیٰ بھٹو کا انتقام لے گا اور دوسری طرف) شعیب کی مدد کرے گا۔‘ افسر نے بتایا۔

اور یہی ہوا۔

علی سنارا کے کارندوں (نہال تالانی اور عاشق حسین کھوسہ) نے منگل 14 اکتوبر 2003 کو شعیب خان کے گزری میں واقع ٹھکانے پر ذیشان کاظمی کو قتل کردیا۔

مگر پھر کہانی میں ایک اور ’ڈرامائی‘ موڑ آیا۔ خود علی سنارا انتہائی پراَسرار انداز سے قتل ہو گئے۔

پیر 12 جنوری 2004 کو بی بی سی اردو سروس کے (اُس وقت) کراچی میں نامہ نگار ادریس بختیار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ علی سنارا کراچی کے جنوبی علاقے کھارادر میں اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ایک دکان کے باہر کھڑے تھے کہ موٹر سایئکل پر سوار مسلح حملہ آوروں نے اُن پر گولیاں چلا دیں۔

حملے میں علی سنارا اور اُن کا ساتھی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ دو افراد شدید زخمی ہوئے۔

(اُس وقت کے) کراچی پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی طارق جمیل نے ادریس بختیار کو بتایا کہ ’یہ ایک منظم سوچی سمجھی واردات تھی جس کا ہدف علی سنارا ہی تھے۔‘

علی سنارا کے قتل پر ذیشان کاظمی کے قتل میں ملوّث سنارا کے ساتھی (نہال تالانی اور عاشق حسین کھوسہ) مزید مشتعل ہو گئے۔

’شعیب سے ڈیل کے مطابق انھیں منور سہروردی کا قتل تو کرنا ہی تھا۔ علی سنارا کے قتل نے تو جلتی پر تیل کا کام کِیا اور (عاشق) کھوسہ اور (نہال) تالانی نے جمعرات 17 جون 2004 کو وعدہ پورا کرنے (اور علی سنارا کا بدلہ لینے کے لیے بھی) منور سہروردی کو قتل کر دیا۔‘ تفتیشی افسر نے بتایا۔

اور اس ساری کہانی کی ’سرکاری طور پر‘ تصدیق کی کراچی پولیس کے سابق سربراہ نیاز صدیقی نے۔

منگل 22 اگست 2006 کی شب (اُس وقت کے) کراچی پولیس کے سربراہ نیاز صدیقی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پولیس نے ایک خصوصی کارروائی میں لانڈھی سے عاشق حسین کھوسہ کو حراست میں لیا اور فوراً ہی کھوسہ کی نشاندہی پر کھارادر کے علاقے سے نہال تالانی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ان دونوں کی گرفتاری پر پانچ، پانچ لاکھ روپے انعام بھی مقرر تھا۔

پولیس سربراہ نیاز صدیقی نے دعویٰ کیا کہ عاشق حسین کھوسہ اور نہال تالانی دونوں ہی انسپکٹر ذیشان کاظمی اور منور سہروردی کے قتل میں ملوث ہیں اور دوران تفتیش انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انھوں نے ہی شعیب خان کی ملی بھگت اور علی سنارا کی ایما پر ذیشان اور سہروردی کو قتل کیا تھا۔

سی سی پی او نے پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ شعیب خان نے ہی منور سہروردی کا قتل کروایا کیوں کہ ان کا پلاٹ، زمیں اور جائیداد پر منور سہروردی سے اختلاف تھا۔

نیاز صدیقی کے مطابق ملزمان عاشق کھوسہ سیاسی کارکن نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق کراچی انڈر ورلڈ سے تھا اور یہ شعیب خان کے دوست تھے۔

اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خود انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان 29 دسمبر 2004 کو گرفتار ہوئے اور 26 جنوری 2005 کو دوران حراست انتہائی پراسرار حالات میں جیل میں ہلاک ہوگئے۔

کراچی میں ہونے والی یہ قتل و غارت جس کی ہر واردات بظاہر ’سیاسی تشدد‘ دکھائی دیتی رہی دراصل پیسے، طاقت اور ہوَس کی ایسی داستان ہے جس میں ذاتی دشمنیاں بھی نمٹائی گئیں۔۔۔ اور مالی مفادات کو تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔

مگر منور سہروردی کے قتل پر یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔

اگلے ہفتے ایک بار پھر آپ کو یہ ضرور بتاؤں گا کہ کراچی کی طاقت، پیسے اور ہوَس کی اس جنگ میں کون کس کو کیوں اور کیسے مارتا رہا؟

بشکریہ بی بی سی اردو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close