پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ آخر کون سی گاڑی ’فیول ایفیشنٹ‘ یعنی کم پیٹرول استعمال کرتی ہے؟
ایسے میں صارفین کی ایک آنکھ الیکٹرک گاڑیوں کی طرف ہے لیکن ان کی قیمتیں بھی ہوش اڑا دینے والی ہیں، تو دوسری آنکھ ان پیٹرول یا ہائبرڈ گاڑیوں پر ہوتی ہے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کی پیٹرول کی کھپت عام گاڑیوں کے مقابلے کافی کم ہے
تو آئیے اس بارے میں جاننے کے لیے مارکیٹ میں موجود مختلف اقسام کی گاڑیوں کی پیٹرول کی کھپت کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔
فوسل فیول کار
عام طور پر پیٹرول ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی رینج آٹھ کلو میٹر فی لیٹر سے اٹھارہ کلو میٹر فی لیٹر یا اس سے کم زیادہ ہوسکتی ہے لیکن اس کا انحصار کار کے انجن پر ہوتا ہے
بڑے انجن والی گاڑیوں کی رینج عموماً کم ہوتی ہے کیونکہ انہیں چلانے کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے
مثال کے طور پر اسلام آباد جیسے شہر میں 1800 سی سی کار آپ کو ایک لیٹر میں گیارہ یا بارہ کلو میٹر سے زیادہ کا سفر بامشکل کروا سکتی ہے۔ پیٹرول کی موجودہ قیمت کو اگر دیکھا جائے تو آپ ایسی کسی کار میں ایک کلو میٹر کا سفر قریب بیس روپے میں طے کر پاتے ہیں (ابھی اس میں مینٹیننس کا خرچہ شامل نہیں)
دوسری طرف 660 سی سی سے لے کر 1000 سی سی کی پیٹرول کار آپ کو ایک لیٹر میں پندرہ سے بیس کلو میٹر فی لیٹر سفر کروا سکتی ہے۔ یعنی فی کلو میٹر گیارہ سے چودہ روپے کا خرچ
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ انجن کے علاوہ گاڑیوں کی رینج کے تعین میں دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں جیسے:
کیا آپ یہ گاڑی شہر کی ٹریفک میں چلا رہے ہیں یا ہائی وے پر۔ سڑک کی حالت کیسی ہے اور کیا یہ ایک ڈھلوان ہے۔ ڈرائیو جتنی رواں دواں ہوگی، کار کی فیول ایوریج یا رینج اتنی زیادہ ہوگی
اچانک ریس اور بریک لگانے سے کار کی رینج گِرتی ہے، اس لیے زیادہ رش والے علاقوں میں گاڑی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے
موسم اور درجہ حرارت، مثلاً گرمی یا سردی کے موسم میں اے سی یا ہیٹر چلانے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے، جس سے فیول ایوریج کم ہوجاتی ہے
اس کے علاوہ عام طور پر پرانے انجن اور پرانی گاڑیوں میں بھی فیول سیونگ کی قدرے کم خصوصیات ہوتی ہیں
ہائبرڈ گاڑیاں
کہا جاتا ہے کہ اگر الیکٹرک گاڑیاں روڈ ٹرانسپورٹ کو بجلی پر منتقل کرنے کی ایک کوشش ہے تو ہائبرڈ کار اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلا قدم۔۔ ہائبرڈ گاڑیوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: عام ہائبرڈ کار اور پلگ اِن الیکٹرک کار
کسی عام ہائبرڈ گاڑی میں ایک چھوٹی بیٹری لگی ہوتی ہے، جس کی پاور ایک سے تین کلو واٹ آر تک ہوتی ہے۔ اس میں پیٹرول سے چلنے والا انجن اور بریکنگ سسٹم مرحلہ وار بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور گاڑی چلنے کے دوران کمپیوٹر سسٹم توانائی انجن کے ساتھ ساتھ بیٹری کی چارجنگ کو توانائی کے متبادل ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ڈرائیو کے ابتدائی دورانیے اور زیادہ رفتار میں کار اس کے انجن سے توانائی حاصل کرتی ہے اور بیچ میں وقفے وقفے سے بیٹری کی مدد سے بھی چلتی ہے
اگر عام ہائبرڈ کار کی فیول ایوریج یا رینج پچیس سے تیس کلو میٹر فی لیٹر ہے تو اس پر آپ کا آٹھ سے دس روپے فی کلو میٹر کا خرچ آتا ہے
اس کی بیٹری چھوٹی ہونے کی وجہ سے اس کی رینج میں کوئی بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کسی فوسل فیول کار کے مقابلے اس میں فی لیٹر پیٹرول کے بدلے اضافی تین سے نو کلو میٹر مل جاتے ہیں
موٹروے کے سفر میں اس کی رینج میں کمی آسکتی ہے کیونکہ زیادہ ریس دینے پر یہ کار خود بخود زیادہ توانائی کے لیے بیٹری سے انجن پر منتقل ہوجاتی ہے
اس مشکل کو کچھ حد تک پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیوں میں دور کیا گیا ہے، جس میں دس سے پندرہ کلو واٹ آر کی بڑی بیٹری کے ساتھ ساتھ چارجنگ کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ ان گاڑیوں میں فیول ٹینک کے ساتھ چارجنگ پورٹ بھی ہوتا ہے اور اسے چلانے سے پہلے بھی چارج کیا جا سکتا ہے اور چلنے کے دوران بھی یہ خود بخود چارج ہوتی ہے
اگر ایک پلگ ان ہائبرڈ کار کو فُل چارج کیا جائے تو اس کی فی لیٹر پیٹرول کی رینج تیس سے پچاس کلو میٹر کے درمیان ہوسکتی ہے، یعنی فی کلو میٹر آپ کا خرچ چار سے سات روپے تک آ سکتا ہے، البتہ اس میں بجلی کے خرچ کو شامل نہیں کیا جاتا
تاہم جب پلگ اِن ہائبرڈ کار کی بیٹری کی چارجنگ پوری طرح ختم ہوجائے تو یہ کسی عام ہائبرڈ کار کی طرح چلتی ہے، یعنی ڈرائیو کے دوران انجن اور بریکنگ سسٹم کی مدد سے
کیا قدرے مہنگی ہائبرڈ گاڑیوں سے پیٹرول کی بچت ممکن ہے؟
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہائبرڈ کار کا صحیح فائدہ صرف اسی صورت مل سکتا ہے جب اس کی بیٹری کی ہیلتھ اچھی اور پیٹرول کی قیمت مسلسل زیادہ رہنے پر آپ کئی سال تک اسے چلانے سے اپنے پیسے وصول کر سکیں
پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت پر تحقیق کرنے والے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے پروفیسر نوید ارشد کا کہنا ہے کہ اگر الیکٹرک گاڑیاں عام گاڑیوں کے مقابلے 50 فیصد زیادہ مہنگی ہوتی ہیں تو اسی طرح ہائبرڈ گاڑیاں قریب 20 سے 25 فیصد زیادہ مہنگی ہوتی ہے
پروفیسر نوید ارشد کہتے ہیں ”ہائبرڈ گاڑیوں میں ٹرانزیشنل ٹیکنالوجی استعمال ہوئی جو آج سے تقریباً پندرہ سال قبل ٹویوٹا پریئس میں ایک انقلابی اقدام تھا۔ لیکن آپ نے کبھی ہائبرڈ رکشے یا ہائبرڈ موٹر سائیکل کا نام نہیں سنا ہوگا کیونکہ انھیں انجن اور بیٹری کے ساتھ بنانا ایک انتہائی مشکل کام ہے“
ان کا کہنا ہے ”چھوٹی ہائبرڈ گاڑیوں کی تعداد کم ہے اور اکثر ہائبرڈ کاریں 1200 یا 1500 سی سی سے زیادہ کے انجن کی ہوتی ہیں کیونکہ اس میں بیٹری کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے کار مہنگی ہوجاتی ہے۔ ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال بڑی یا کمرشل گاڑیوں میں ہوتا ہے، جیسے پریئس یا ویزل جیسی گاڑیوں سے اس کا فائدہ لیا جاسکتا ہے“
نوید ارشد کہتے ہیں ”جن ہائبرڈ گاڑیوں میں بڑی بیٹری ہو ان کی فیول ایوریج بہتر ہوتی ہے۔ ویزل یا پریئس پچیس کلو میٹر فی لیٹر ایوریج دیتی ہے۔ شہر میں اس کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے مگر موٹروے پر زیادہ رفتار پر ایوریج کم ہوجاتی ہے“
وہ اپنے ذاتی تجربے سے بتاتے ہیں کہ اگر صارفین مقامی سطح پر تیار کی گئی ہائبرڈ کار خریدتے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں آفٹر سیلز اور بیٹری کی سروسز ملتی ہیں تو یہ بہتر ہوگا کیونکہ یہاں ان کے ماہر مکینک کم ہیں اور ہوا میں آلودگی کی وجہ سے اس کی بیٹری خراب ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان میں اس وقت ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع نہیں ہوئی البتہ انڈس موٹر کارپوریشن نے 2023 میں پہلی ہائبرڈ کار ’ٹویوٹا کراس‘ متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے
نوید ارشد کہتے ہیں ”اگر ہائبرڈ گاڑیوں کی بیٹری خراب ہوجائے تو اسے صحیح کرنے کے لیے کوئی مکینک نہیں ملتا اور نہ ہی پارٹس ملتے ہیں۔ یعنی اگر آپ استعمال شدہ بیٹری ڈلواتے ہیں تو اس کے دوبارہ خراب ہونے کے امکانات ہوتے ہیں“
ان کے مطابق درآمد کی گئی استعمال شدہ ہائبرڈ کار میں مسائل آسکتے ہیں کیونکہ آپ کو پوری طرح معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ کتنا چلی ہے اور اس میں بیٹری کی حالت کیسی ہے
پشاور بی آر ٹی کی ڈیزل ہائبرڈ بسوں کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ایک خاص قسم کے ٹرانسپورٹ جیسے بس اور ٹرک میں ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ الیکٹرک بس کافی مہنگی بنتی ہے مگر ہائبرڈ بس کم پیسوں میں بن سکتی ہے اور اس کی فیول ایوریج بھی بہتر ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ زیادہ رننگ ہے
ان کا خیال ہے کہ پیٹرول بچانے کے لیے کوئی عام شخص چھوٹی 660 سی سی انجن کار لے سکتا ہے جو شہر میں چلائی جاسکتی ہے مگر کمرشل ٹرانسپورٹ میں ہائبرڈ ٹیکنالوجی لائی جاسکتی ہے جو پوری دنیا میں ہو رہا ہے
سی این جی کے دودھ کا جلا اور الیکٹرک گاڑیوں کی چھاچھ
پاکستان میں سال 2010ع کی دہائی کے اوائل میں گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرنے کا رواج کافی عام ہوگیا تھا اور حکومتی سطح پر حمایت نے کئی لوگوں کو رضامند کیا کہ وہ اپنی گاڑی میں سی این جی کٹ لگوائیں
لیکن وقت کے ساتھ یہ مہنگا سودا ثابت ہوا جب قدرتی گیس کی سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا اور عدم فراہمی کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنز کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہوگئیں۔ یہ منظر آج بھی دیکھا جاسکتا ہے
اس صورتحال میں کئی لوگوں کا سوال ہوتا ہے کہ کیا متبادل ذرائع توانائی سے کار چلانے سے تاریخ خود کو دہرائے گی؟
تاہم نوید کہتے ہیں کہ پائیدار ذرائع توانائی سے کار چلانے کا تجربہ سی این جی جیسا نہیں ہوگا
ان کا کہنا ہے کہ سی این جی ایک ماحول دوست اور پائیدار توانائی کا ذریعہ نہیں تھا جسے ختم ہونے کے بعد دوبارہ پیدا کیا جاسکے۔ ’ہمارے پاس گیس کا کوئی لامحدود ذریعہ نہیں اور اسے درآمد کرنے سے امپورٹ بل مزید بڑھتا ہے
پروفیسر نوید ارشد کہتے ہیں ”اگر آج گیس، تیل اور کوئلے کے ذخائر ختم ہوجاتے ہیں تو تب بھی سورج، ہوا اور پانی کے ذخائر موجود ہوں گے جنھیں سولر، ونڈ اور ہائیڈرو انرجی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور کہیں نہ کہیں سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے“