سندھ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار، حاملہ خواتین کو مشکلات

ویب ڈیسک

صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال کو ‘انتہائی نازک’ قرار دیتے ہوئے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے سینئر ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پینے کے پانی اور خوراک تک محدود رسائی والے زیادہ تر علاقے پانی سے ہونے والے انفیکشن کی لپیٹ میں ہیں، جن میں شدید اسہال، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریاں شامل ہے

جبکہ ملک کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کم از کم ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین کو، جن میں سے 73 ہزار کے ہاں آئندہ ماہ ولادت متوقع ہے، زچگی کی صحت کی خدمات کی اشد ضرورت ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں رواں سال مارچ سے ڈائریا کے انفیکشن میں اضافہ ہو رہا ہے اور تباہ کن بارشوں نے صحت کے چیلنجز کو مزید سنگین بنا دیا ہے

صوبائی محکمہ صحت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ میں صرف اگست میں بچوں میں اسہال اور پیچش کے ایک لاکھ 93 ہزار 48 کیسز رپورٹ ہوئے، جو اس سال اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے جبکہ جولائی میں کل ایک لاکھ 17 ہزار 9 سو 99 کیسز سامنے آئے

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے سربراہ ڈاکٹر عثمان مکو نے کہا کہ ‘حکومت کی امدادی کوششیں چشم پوشی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور زیادہ تر لوگوں کی اب بھی پینے کے صاف پانی اور خوراک تک رسائی نہیں ہے اگر انہیں فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو وہ بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے

ڈاکٹر عثمان مکو اپنے آبائی شہر میں سیلاب آنے سے پہلے سکھر سے اپنے خاندان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان سمیت کئی لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں جبکہ دیگر مقامات پر دو سے تین فٹ پانی کھڑا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ پناہ لینے کے لیے شاید ہی کوئی خشک جگہ ہو، لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ پانی کیسے نکالا جائے، گیسٹرو اینٹرائٹس جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، جو آبادی خصوصاً بچوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں

انہوں نے کہا کہ تباہی بڑے پیمانے پر تھی اور چند این جی اوز کام کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتیں، صرف حکومت اور فوج ہی سیلاب کے پانی سے منقطع ہوجانے والے علاقوں تک پہنچ سکتی ہے

پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے صورتحال کو ‘انتہائی خطرناک’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی امداد دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ٹیمیں کئی اضلاع میں کام کر رہی ہیں اور وہ ہمیں بتا رہی ہیں کہ سیلاب زدہ سڑکوں سے دور علاقوں میں بہت سے لوگ امداد کے منتظر ہیں، یہ علاقے گیسٹرو اینٹرائٹس سمیت متعدد بیماریوں کے پھیلاؤ کی لپیٹ میں ہے

پینے کے پانی، خوراک اور ادویات کی ضرورت
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے ڈاکٹر عبداللہ متقی نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں حالات ‘انتہائی خراب’ ہیں اور مزید خراب ہو سکتے ہیں

انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں فوری طبی علاج اور بیماریوں سے بچاؤ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بخار عام ہے اور ہم ڈینگی یا ملیریا کا امکان مسترد نہیں کرسکتے، ہماری ٹیموں کے سامنے سانپ کے کاٹنے کے بھی کئی کیسز سامنے آئے ہیں

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر وسیم جمالوی، جنہوں نے حال ہی میں دادو میں ایک سرکاری امدادی کیمپ کا دورہ کیا ہے، نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ہیلتھ کیمپس میں زیادہ بھیڑ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے

انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو پینے کا صاف پانی، مچھر مار دوا، عام ادویات، خیمے، کپڑے اور کھانے پینے کی اشیا جیسی بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے

محکمہ صحت کے ترجمان نے سیلاب اور آلودہ پانی کو انفیکشن بالخصوص ڈائریا میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا

ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا

جنسی اور تولیدی صحت کے ادارے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے سیلاب سے متاثر ہونے والی خواتین کی تاریک تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان علاقوں میں کم از کم ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین کو، جن میں سے 73 ہزار کے ہاں آئندہ ماہ ولادت متوقع ہے، زچگی کی صحت کی خدمات کی اشد ضرورت ہے

اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ بھی متنبہ کیا کہ بہت سی خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرے میں ہیں کیونکہ سیلاب میں تقریباً 10 لاکھ مکانات کو نقصان پہنچا ہے

ادارے نے کہا کہ ‘اگلے مہینے تک 73 ہزار خواتین کے ہاں پیدائش متوقع ہے اور ان کو ماہر دائی، نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت ہوگی

ادارے نے مزید کہا کہ حمل اور بچے کی پیدائش ہنگامی حالات یا قدرتی آفات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کر سکتی کیونکہ ایسے میں ایک عورت اور بچے کو سب سے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے

یو این ایف پی اے پاکستان کے قائم مقام نمائندے ڈاکٹر بختیار قادروف نے کہا کہ یو این ایف پی اے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو انتہائی مشکل حالات میں بھی زندگی بچانے والی خدمات ملیں، شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے’

اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق سندھ میں ایک ہزار سے زائد صحت کی سہولیات کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا، جب کہ بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں صحت کی 198 سہولیات کو نقصان پہنچا

ادارے نے مزید کہا کہ سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان نے لڑکیوں اور خواتین کی صحت کی سہولیات تک رسائی کو اور متاثر کردیا ہے

ڈاکٹر بختیار قادروف نے کہا کہ ‘ہم انسانی ہمدردی کے چیلنج والے حالات کے باوجود مکمل طور پر کام کرنے کے لیے آلات اور انسانی وسائل کے ساتھ صحت کی سہولیات کی حمایت جاری رکھیں گے۔’

اپنے ہنگامی ردعمل کو تیز کرنے کے لیے یو این ایف پی اے پاکستان نے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں فوری ترسیل کے لیے8 ہزار 311 ڈگنٹی کٹس، 7 ہزار 411 نوزائیدہ بچوں کی کٹس، اور 6 ہزار 412 کلین ڈیلیوری کٹس خریدیں

اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ وہ صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام اور ردعمل کی خدمات کو بھی ترجیح دے رہی ہے، جس میں طبی اور نقسیاتی مدد بھی شامل ہے

یو این ایچ سی آر کی مزید مدد کی اپیل
اقوامِ متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا ہے

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس تباہی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ردعمل میں اپنا تعاون بڑھائے

اب تک یو این ایچ آر سی نے پناہ گزین دیہاتوں کے ساتھ ساتھ میزبان کمیونٹیز کو 71 ہزار سے زیادہ ہنگامی امدادی اشیا فراہم کی ہیں، جن میں خیمے، پلاسٹک کی ترپالیں، سینیٹری مصنوعات، کھانا پکانے کے چولہے، کمبل، شمسی لیمپ اور سونے کی چٹائیاں شامل ہیں

ایک بیان میں کہا گیا کہ مزید برآں ادارے نے 10 ہزار بوریاں بھی فراہم کیں تاکہ گھرانوں کو ان کے گھروں کے ارد گرد دفاعی تحفظ فراہم کیا جا سکے، اب تک 15 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی جاچکی ہے لیکن مزید امداد کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close