سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں ایک خاتون کو مردہ بچے کا سر پیٹ میں لے کر 319 کلومیٹر کا طویل سفر کرنا پڑا، اور لگ بھگ اٹھارہ گھنٹے کے بعد آپریشن کے ذریعے خاتون کے پیٹ سے بچے کا سر نکالا گیا
بتیس سالہ ملوکاں بھیل کا یہ پانچواں بچہ تھا جو ڈلیوری کے دوران فوت ہو گیا
ملوکاں بھیل کا تعلق تھر کے اکلیوں نامی گاؤں سے ہے، 16 جون کی شب انہیں زچگی کی تکلیف ہوئی اور اہل خانہ صبح آٹھ بجے انہیں ایک ٹیکسی میں لے کر سندھ کے شہر چھاچھرو میں ایک مشنری ہسپتال پہنچے
ملوکاں کے شوہر دھرموں نے بتایا ”مشنری ہسپتال پہنچنے پر ہسپتال کا عملہ ان کی بیوی کو آپریشن تھیٹر میں لے گیا اور پھر تقریباً ایک گھنٹے کے بعد عملے کی جانب سے کہا گیا کہ بڑی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں، اس کیے وہ اپنی بیوی کو مٹھی ہسپتال لے جائیں کیونکہ انہیں ایک نہیں دو بچے ہیں“
دھرموں کا کہنا ہے ”میں دوبارہ اپنی بیوی کو ٹیکسی میں لے کر مٹھی ہسپتال کے لیے روانہ ہوا تو ہسپتال کے عملے نے انہیں کپڑے میں لپیٹا ہوا کچھ تھما دیا۔ میں نے جب دیکھا تو مردہ بچے کا صرف دھڑ تھا۔ میں نے ہسپتال عملے سے اس بارے میں معلوم کیا کہ یہ کیا ہے تو عملے نے مجھے جلدی مٹھی ہسپتال جانے کا کہا“
مشنری ہسپتال لو اینڈ ٹرسٹ کے انچارج انور سدھو کا کہنا ہے کہ اس مریضہ کو جمعرات کی صبح آٹھ بجے ہسپتال لایا گیا تھا اور وہ تقریباً ایک گھنٹے کے قریب یہاں زیر علاج رہیں۔ اس عرصے کے دوران ہسپتال کی نرسوں نے ان کا طبی معائنہ کیا
انور سدھو کے بقول ”خاتون کو ہسپتال لانے سے قبل وہ بچے کی پیدائش کے لیے مقامی دائی سے ٹرائل لے کر آئے تھے۔ اسی خاتون کے پانچ بچے پہلے بھی نارمل ڈلیوری کی کوشش کے دوران فوت ہو چکے ہیں۔ ایسے مریضوں کی نارمل ڈلیوری نہیں ہوتی ہے ان کو آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے“
ان کا کہنا ہے ”بچے کا دھڑ باہر تھا جبکہ گردن اندر پھنسی ہوئی تھی۔ نارمل ڈیلیوری کرنا ممکن نہیں تھا اس وقت ہمارے پاس گائناکالوجسٹ سرجن موجود نہیں تھی لہٰذا ہم آپریشن نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہم نے مریضہ کے لواحقین کو کہا کہ مٹھی چلے جائیں مگر وہ بضد تھے کہ آپ کچھ کریں۔“
مشنری ہسپتال لو اینڈ ٹرسٹ کے انچارج کے مطابق ”جب نرسیں مریضہ کو صاف کر رہی تھیں تو مردہ بچے کا دھڑ گردن سے الگ ہوگیا کیونکہ گردن پہلے ٹوٹ چکی تھی یہ زور لگانے یا دائی کی جانب سے کھینچنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ جلد کی ایک چھوٹی جھلی موجود تھی جو صفائی کے دوران الگ ہو گئی اور جب ڈاکٹر پہنچی تو ان کے پیٹ میں موجود مردہ بچے کا سر الگ ہو چکا تھا“
انور سدھو کا دعویٰ ہے کہ مریضہ کو ہسپتال لانے والی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی تھی جس کے باعث انہیں ڈیڑھ گھنٹہ راستے میں رکنا پڑا اور جب مریضہ ہسپتال پہنچیں تو وہ مٹی میں لت پت تھی
تاہم ملوکاں بھیل کی دیورانی نے اس بات کی تردید کی ہے
دھرمو بھیل کی پہلی بیوی فوت ہو چکی ہے جبکہ دوسری بیوی کا یہ پانچواں بچہ تھا جو دوران زچگی فوت ہوا۔ دھرمو کسی مستقل روزگار سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ وہ لکڑیاں کاٹ کر یا کسی گھر کا پانی بھر کے کچھ پیسے کماتے ہیں
دھرموں کا کہنا ہے کہ ان کے پہلے بچے چوتھے پانچویں مہینے فوت ہو گئے تھے۔ اس بار انھوں نے چیلھار ہسپتال سے ایکسرے کرایا تھا جس پر ڈاکٹر نے انھیں بتایا تھا کہ ان کی بیوی کا آپریشن ہو گا کیونکہ ماں کے پیٹ میں بچہ الٹا ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر نے ڈیلیوری کی تاریخ بھی بتائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہوئی وہ اسے لے کر پہلے علاقے کی ایک دائی کے پاس لے گئے جس نے کہا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں، جس کے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر ہسپتال آ گئے تھے
دھرموں کے بھتیجے ہوتھی بھیل کا کہنا ہے کہ قریبی ہسپتال تک جانے کے لیے بھی ٹیکسی دو ہزار سے پچیس سو کا کرایہ لیتی ہے غربت کی وجہ سے وہ مقامی دائی سے ہی زچگیاں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں
ملوکاں کو ایک بار پھر گاڑی میں سوار کر کے مشنری ہسپتال لو اینڈ ٹرسٹ چھاچھرو سے 74 کلومیٹر دور واقع ضلعی ہسپتال مٹھی منتقل کیا گیا، جہاں وہ تقریباً ساڑھے دس بجے پہنچیں
مریضہ کے ایک رشتہ دار ہوتھی بھیل کے مطابق وہاں ان کے ٹیسٹ وغیرہ کیے گئے اور پھر وہاں کے عملے نے ان سے کہا گیا کہ اس کیس کو سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں، مریضہ کو حیدرآباد لے جائیں جس کے بعد وہ وہاں سے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئے اور ایمبولینس کو چوبیس ہزار روپے دینا پڑے
ملوکاں بھیل کے ساتھ موجود دیورانی ڈھیلی کا کہنا ہے ”مٹھی ہسپتال والوں نے کہا کہ یہ بڑا مسئلہ ہے اس کو حیدرآباد لے جاؤ بڑا آپریشن ہو سکتا ہے اور خون کی بھی ضرورت ہوگی“
محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جمن کا دعویٰ ہے ”مٹھی کا ضلعی ہسپتال پاکستان کے بہترین ہسپتالوں میں سے ایک ہے، اس معاملے پر انکوائری کا کہا گیا ہے اور اب یہ انکوائری میں پتا چلے گا کہ مریضہ کو حیدرآباد کیوں ریفر کیا گیا“
ملوکاں کی اگلی منزل حیدرآباد تھی، مٹھی سے 220 کلومیٹر دور واقع لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد کے لیے انھیں ایمبولینس میں روانہ کیا گیا جہاں وہ رات کو پہنچے، شعبہ گائنی کی انچارج ڈاکٹر راحیل سکندر کے مطابق ملوکاں دھرموں سوا نو بجے رات کو لائی گئیں اور ہوش و حواس میں تھی
’مریضہ کا بلڈ گروپ اے نگیٹو ہے اس کا انتظام کرنے میں وقت لگا پھر ایک دوسری ایمرجنسی آگئی اس طرح خون کا انتظام ہوتے ہوتے رات کے دو بج گئے۔‘
ہوتھی بھیل کراچی میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے چچا دھرموں نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ خون کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ کراچی سے پانچ افراد سمیت حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئے
ملوکاں بھیل کا تقریباً اٹھارہ سے بیس گھنٹے کے بعد آپریشن کیا گیا، جس دوران تین ہسپتال تبدیل ہوچکے تھے اور کلینڈر میں تاریخ بھی بدل چکی تھی، ڈاکٹر سکندر راحیل کے مطابق مزید کچھ کرنے کے بجائے انہوں نے آپریشن کا فیصلہ کیا، بچہ دانی (یوٹرس) متاثرہ تھی اگر اس کو چھوڑ دیا جاتا تو زیادہ متاثر ہو سکتی تھی
ان کا کہنا تھا ”اگر مردہ بچے کو الگ نہیں کیا جاتا تو ان کی بچہ دانی پر دباؤ پڑ رہا ہوتا اور یہ جان لیوا بھی ہوسکتا تھا۔ جب سر اندر چلا گیا تو درد کم ہو گیا، ایسے کیسز کبھی کبھار سامنے آتے ہیں ہیں لیکن یہ ہماری میڈیکل کی کتابوں میں موجود ہیں جس کو ڈسٹریکٹو آپریشن کہا جاتا ہے جب یہ امید ختم ہو جاتی ہے کہ بچہ چلا گیا ہے تو اب ماں کو بچانا ہے“
دوسری جانب سندھ کے محکمہ صحت نے دوران علاج بچے کی گردن اور دھڑ الگ ہونے کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے یہ کمیٹی اس بات کا بھی تعین کرے گی کہ مٹھی یا چھاچھرو کے ہسپتالوں میں گائناکالوجسٹ کیوں دستیاب نہیں تھیں
سندھ کے صحرائی ضلعے تھر میں گذشتہ ایک دہائی سے نومولود بچوں کی ہلاکتوں، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کی خبریں میڈیا میں زیر گردش ہیں جبکہ متعدد بار معاملہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے لے کر اسمبلی کے ایوانوں میں بھی زیر بحث آچکا ہے
حالیہ واقعے میں سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان اور ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے سوالات نے دوبارہ جنم لیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر جمن نے بتایا کہ تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے جس میں مشنری ہسپتال کے عملے کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں
خیال رہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نومولود بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے، بچوں کے بارے میں عالمی ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 65 بچے مردہ ہوتے ہیں۔ تھر کا علاقہ ان خطوں میں شامل ہیں، جہاں دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہ شرح زیادہ ہے۔