سپر ٹیکس اور غریبوں کے خون کا آخری قطرہ: ”غریب کو سیٹھ کا سپر ٹیکس بھرنا ہوگا“

ویب ڈیسک

وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش معاشی مشکلات سے نمٹنے اور ”غربت میں کمی“ کے لیے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے

وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں ”بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس، غربت کم کرنے کے لیے، لگایا جا رہا ہے“

’ان میں سیمینٹ، سٹیل، چینی، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایل این جی ٹرمینل، ٹیکسٹائل، بینکنگ، سگریٹ انڈسٹری، کیمیکلز، بیورجز انڈسٹری شامل ہیں۔‘

وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستان کے صاحب ثروت آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان میں ہمیشہ غریب نے قربانی دی ہے۔ اب ایثار کرنے کی امیر افراد کی باری ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے اس کام میں ہاتھ بٹائیں گے۔‘

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے ”ان کے نتیجے میں وزیر اعظم کے بیٹے اور میری ذاتی کمپنی کا ٹیکس بھی بڑھے گا“

لیکن پاکستان میں ٹیکس کے اشرافیہ دوست اور غریب دشمن نظام کے ڈسے ہوئے عوام بہرحال حکومت کی ان چکنی چپڑی باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے دودھ کے جلے یہ غریب لوگ چھاچھ کو بھی پھونکیں مار رہے ہیں

پاکستانی حکومت نے جمعے کو جن بڑی انڈسٹریز پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے، ان میں سیمنٹ، سیوی ایشن انڈسٹری ،اسٹیل، چینی، آئل اینڈ گیس، مشروبات اور کیمیکلز، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹوموبیل، سگریٹ اور فرٹیلائزرز جیسے صنعتیں شامل ہیں

اس فہرست کو دیکھ کر اگر ماضی کے تجربے کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس یا اکنامکس کی ڈگری کی ضرورت نہیں کہ یہ صنعتیں حکومت کا یہ سپر ٹیکس کہاں سے نکالیں گی۔ عوام کے ڈرنے کی وجہ غیر معقول تو ہرگز نہیں، کیونکہ یہ کمپنیاں پہلے سے لگا ٹیکس بھی عوام کی جیبوں سے ہی نکالتی ہیں، اس بار بھی وہ یقیناً ایسا ہی کریں گی

حکومت کے اعلان پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خزانہ حماد اظہر کہتے ہیں ”سپر ٹیکس ہماری معیشت کو مزید نچوڑنے کا سبب ملے گا“
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگایا جارہا ہے“

عبدالوحید پیرزادہ نامی صارف نے لکھا ”میڈیا انڈسٹری پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ان پر بھاری ٹیکس لگنا چاہیے“

اسامہ نامی صارف نے لکھا ”یہ امیروں پر ٹیکس نہیں بلکہ سپر ٹیکس کو صارفین کی طرف منتقل کیا جائے گا، مہنگائی بڑھے گی اور ترقی رکے گی“

عمر فاروق نامی صارف نے کہا ”جو لوگ سیمنٹ اور چینی پر ٹیکس لگنے کا جشن منا رہے ہیں یاد رکھیں سیٹھ ٹیکس نہیں دے گا بلکہ صارفین کے لیے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دے گا اور غریب کو سیٹھوں کا سپر ٹیکس بھرنا پڑے گا“

پاکستان فیڈریشن آف چمبرز آف کامرس اور انڈسٹری کے قائم مقام صدر شبیر منشا نے سپر ٹیکس کے فیصلے کو صنعتی شعبے کے لیے ’تباہ کن‘ قرار دیا ہے

واضح رہے کہ سپر ٹیکس کی زد میں آنے والے شعبوں کی کمپنیوں پر اضافی ٹیکس لگنے کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ جمعے کے روز کریش کر گئی کیونکہ ان کمپنیوں میں سے بڑی تعداد اسٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ ہیں

شبیر منشا کہتے ہیں ”صعنتی شعبے پر گیس، بجلی، اور بلند شرح سود کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے اور سپر ٹیکس اس شعبے کی ترقی کو متاثر کر کے ملک کی اقتصادی ترقی کو متاثر کرے گا“

انہوں نے کہا ”سپر ٹیکس کو کمپنیاں عوام تک منتقل کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا“

ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بھی سپر ٹیکس کی وجہ سے انڈسٹریلائزیشن اور کارپوریٹائزیشن کے عمل پر منفی اثرات کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”امیر طبقے پر ٹیکس خوش آئند لیکن یہ پیسہ بھی صارف سے ہی وصول ہوگا“

سپر ٹیکس کے سرکاری فیصلے کے ایک حامی ثاقب ریاض لکھتے ہیں ’صنعتوں اور ان کے مالکان پر سپر ٹیکس لگنے سے حکومتی خسارہ کم ہو گا اور عام آدمی کو ریلیف ملنے کا امکان بڑھے گا، امیروں پر نئے ٹیکس پوری دنیا میں لگ رہے ہیں کیونکہ ان کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا صرف ان کا منافع کم ہو گا۔ خدارا، اچھے برے فیصلوں میں تمیز کرنا سیکھیں۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’میں نہیں جانتا کہ سپر ٹیکس کے بارے میں کیا محسوس کیا جائے۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا لیکن کچھ حد تک حمایت ضرور کروں گا۔ امیر پر ٹیکس لگانا درست سمت میں قدم ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس کا معیشت پر کیا اثر پڑتا ہے؟‘

تحریک انصاف حکومت کے دوران معاشی ترجمان رہنے والے مزمل اسلم نے لکھا کہ انڈسٹریز پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ’اب ترقی اور معیشت کو خدا حافظ کہہ دیں۔‘

ماہرین اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس خدشے کا اظہار کر رہی ہے کہ اس ٹیکس کے بعد قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا اور یہ پیسہ صارف سے ہی وصول کیا جائے گا

مظہر جاوید نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اب وہ تمام انڈسٹریز اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں گی جن پر ٹیکس لگا ہے اس لیے سپر ٹیکس کا اثر صارف پر ہی پڑے گا، جو افسوس ناک ہے‘

’اس سے بہتر حل یہ تھا کہ ان انڈسٹریز کی کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جاتی‘

مظہر جاوید نے جس مسئلے کی جانب نشاندہی کی، وہ کئی دیگر سوشل میڈیا صارفین کے ذہن میں بھی موجود ہے

علی عباس زیدی، جنہوں نے امیر ترین افراد پر سپر ٹیکس کی حمایت میں ٹویٹ کی، نے ساتھ ہی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ’ریئل اسٹیٹ پر بھی یہ ٹیکس لاگو کیا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اور پالیسی بنائی جائے کہ یہ ٹیکس صارف کی جیب سے ہی ادا نہ ہو رہا ہو۔‘

سابق وفاقی وزیرِ توانائی اور پاکستان تحریک انصاف کے فوکل پرسن برائے معیشت حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’سپر ٹیکس معیشت کے رسمی شعبے کو مزید نچوڑ دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لگایا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’معیشت اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اس وقت ایسے اقدام پی ٹی آئی کی پیدا کردہ صنعت کاری کی رفتار کو بہت سست کر دیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’صنعت کو پہلے ہی اشیا اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سپر ٹیکس کو ان کی بیلنس شیٹ میں شامل کیا جائے گا اور یہ بوجھ فوری طور پر صارفین کو منتقل کر دیا جائے گا۔

’یعنی عوام کے لیے قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔‘

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے سپرٹیکس کے حوالے سے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ پرانے پاکستان میں واپس لے کر جا رہے ہیں۔ ہم نے ٹیکس کی مد میں 1400 ارب کا اضافہ کیا، جس میں ہم نے کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سال ہمارا آٹھ ہزار ارب کا ٹیکس لگانا تھا، ٹیکس دینے والوں پر زیادہ ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھائیں۔‘

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پوائنٹ آف سیل مشین کی بات کی تھی، لیکن انھوں نے ریٹیلرز کو بچا لیا۔

”چار کروڑ افراد ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دے رہے، ان کو کیوں ٹیکس نہیں کر رہے۔ چند صنعتوں کو ٹیکس کریں گے جو آگے غریب آدمی پر بوجھ منتقل کریں گی۔“

بہرحال جہاں کمزور معاشی حالات میں حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے اور آنے والے دنوں میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے، ایسے میں سپر ٹیکس کا فیصلہ کیا اثرات مرتب کرے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے دو ہفتے قبل پیش کیے جانے والے اگلے مالی سال کے بجٹ کے لیے ٹیکس کا ٹارگٹ سات ہزار ارب روپے رکھا تھا جسے اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت 7400 ارب کیا جا رہا ہے

حکومت کی جانب سے ’سپر ٹیکس‘ کی اصطلاح استعمال ہونے کے بعد جہاں سوشل میڈیا صارفین اس ’نئے‘ ٹیکس کی وضاحتیں طلب کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں معاشی ماہرین اس ٹیکس کے نفاد کے پاکستان کی معاشی صورتحال پر پڑنے والے اثرات پر اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے سپر ٹیکس کا نفاذ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا

اس ٹیکس کی نوعیت کے بارے میں ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ کہتے ہیں ”یہ ایک خاص ٹیکس ہوتا ہے اور عمومی ٹیکس کے اوپر لگایا جاتا ہے“

ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے ”سپر ٹیکس لگ سکتا ہے تاہم ٹیکس لگاتے ہوئے اس کا مقصد بیان نہیں کیا جاتا“

انہوں نے کہا ”اس سپر ٹیکس کو لگاتے ہوئے حکومت نے اس کا مقصد بیان کر دیا ہے کہ اس سے اکٹھے ہونے والے پیسے کو غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جو غلط ہے“

دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سپر ٹیکس کے ذریعے گذشتہ چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کیا جائے گا

ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں ”جب کسی ٹیکس کو لگانے کا مقصد بیان کر دیا جائے تو وہ لیوی ہوتی ہے اور اس کی منظوری پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے حاصل کی جاتی ہے“

ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’اس ٹیکس کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ پیسے اکٹھے کیے جائیں گے لیکن اس ٹیکس کے ذریعے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close