شکرینہ کی عمر آٹھ برس ہے، اس کا معصوم چہرہ درد سے نڈھال ہو جاتا ہے اور جب وہ مڑنے کی کوشش کرتی ہیں تو درد سے کراہنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے جسم میں متعدد فریکچر ہیں اور بائیں ٹانگ کا گھٹنے سے نچلا حصہ پٹیوں میں لپٹا ہوا ہے
ہسپتال میں شکرینہ کے ساتھ والے بستر پر سے اس کی ماں مِیرا اپنا بازو بڑھا کر انہیں تسلی دینے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں
خود مِیرا کی دائیں آنکھ چوٹ لگنے سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور انہیں کئی دوسرے زخم بھی لگے ہیں
ان ماں بیٹی دونوں کو زلزلے سے ان کے گھر کے تباہ ہونے کے چھ گھنٹے بعد افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان میں ان کے گھر کے ملبے کے نیچے سے نکالا گیا تھا
میرا نے اپنی چادر سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا ”میں اپنی دوسری بیٹی کو کہیں بھی دیکھ نہیں پا رہی تھی، اس لیے میں نے ریسکیو کرنے والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی موت واقع ہو گئی ہے“
اس کے بعد میرا نے اپنی نوعمر بیٹی گل نورا کو گیان میں ایک جگہ پڑی لاشوں میں دیکھا۔ یہ لاشیں ریسکیو ورکرز نے ملبے سے نکال کر ایک جگہ جمع کی تھیں
میرا نے بتایا ”عام طور پر ہم اپنے گھروں کے باہر سوتے تھے، لیکن اس رات بارش اور بجلی تھی، اس لیے ہم اندر ہی سو گئے“
اب پکتیکا کے مرکزی صوبائی ہسپتال میں صحتیاب ہونے والی مِیرا ایک ایسے وارڈ میں ہے، جہاں تقریباً ہر ایک کی کہانی ایک جیسی ہے
بی بی حوا اپنی گیغ ماہ کی بیٹی صفیہ کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ دونوں کے جسموں پر متعدد زخم آئے ہیں۔ انہوں نے بدھ کے زلزلے میں اپنے خاندان کے اٹھارہ افراد کو کھو دیا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے
بی بی حوا کے دیگر بچے، ان کے تین بیٹے فاروق، حمزہ اور مقصود مرنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا ”میرا دل کرب میں ہے۔ اب جب میں گھر جاؤں گی تو وہاں کوئی نہیں ہوگا“
زلزلے کے اگلے دن وہ ان 75 زخمیوں میں شامل تھیں، جنہیں صوبہ پکتیکا کے صدر مقام شارانہ کے صوبائی ہسپتال میں لایا گیا تھا۔ اس ہسپتال میں 72 بستر ہیں اور اس میں پہلے سے ہی دیگر بیماریوں کے شکار مریض داخل تھے
یہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں والے لوگوں یا ان لوگوں کے علاج کے لیے موزوں نہیں ہے، جنہیں نیورو سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے زیادہ سنگین نوعیت کے زخمیوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھیجنا پڑا ہے
اس طرح وہ مریض جو پہلے ہی دور دراز علاقوں سے ہسپتال پہنچنے کے لیے گھنٹوں کا سفر طے کر چکے تھے، انہیں علاج کے لیے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ایک اور طویل سفر طے کرنا پڑا
واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کی حکومت سے قبل صحت عامہ کی دیکھ بھال تقریباً مکمل طور پر غیر ملکی پیسوں سے ہوتی تھی۔ گزشتہ سال 15 اگست کو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے یہ امداد منجمد کر دی تھی، جس کے بعد ہسپتال اور طبی سہولیات تباہی کے دھانے پر پہنچ گئیں
زلزلے کے بعد طالبان نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے
جب وزیر صحت عامہ ڈاکٹر قلندر عباد سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ابھی تک کوئی عالمی امداد مل سکی ہے؟ تو انہوں نے بتایا ”ہاں، ہمیں خطے کے ممالک جیسے ایران، پاکستان، بھارت، قطر، متحدہ عرب امارات اور کچھ عرب ممالک سے امداد ملی ہے۔ یورپ نے تعاون کا وعدہ کیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر نے بھی ایک بیان دیا ہے“
ڈاکٹر قلندر عباد کے مطابق ”ہم دنیا بھر کے ممالک کا انتظار کر رہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں“
واضح رہے کہ طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور طالبان کو اس وقت متعدد پابندیوں کا سامنا ہے
اس سوال پر کہ کیا طالبان نے دنیا کو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے پر قائل کرنے کے لیے تسلی بخش کام کیا ہے، تو ڈاکٹر عباد کا کہنا تھا ”ہاں، ہم نے بین الاقوامی شناخت کے لیے تمام اصولوں کی پاسداری کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کے تمام لوگ ہماری حمایت کرتے ہیں“
ایک جانب جہاں افغانستان میں تباہ کن زلزلے کے بعد ملبے کے ساتھ ساتھ ہر طرف دردناک کہانیاں بکھری ہوئی ہیں، دنیا کی بے حسی عروج پر ہے
غیر ملکی فنڈز افغانستان میں ریاستی اخراجات کا تین چوتھائی حصہ تھے۔ جبکہ اب اس امداد کے بغیر ملک معاشی بحران کی طرف بڑھ گیا ہے
لاکھوں عام افغان امداد کی سیاست کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ میرا اور بی بی حوا ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں غربت میں دھکیل دیا گیا ہے
اسی طرح کی کہانی مزدور شندی گل زدران کی بھی ہے
زلزلے سے پہلے زیادہ تر دنوں میں انہیں کام نہیں ملتا تھا۔ اس زلزلے میں زخمی ہونے کے بعد اب ان کی دائیں ٹانگ میں اسٹیل کی راڈ ڈالی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس روزی کمانے کا کوئی رستہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اور وہ اپنے گھر سے بھی محروم ہو چکے ہیں
شندی گل زدران کہتے ہیں ”میرے پورے خاندان نے ساری زندگی اپنا گھر بنانے کے لیے بہت محنت کی۔ اب یہ گھر تباہ ہو چکا ہے۔ ہم اب مدد کے بغیر اسے دوبارہ تعمیر نہیں کر سکیں گے“