بینک اشورنس میں ’فراڈ‘ کیسے ہوتا ہے اور اپنی ڈوبی رقوم کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟

ویب ڈیسک

صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کے مکین طاہر محمود کے مطابق ان کے بھائی کے ساتھ ایک نجی بینک نے فراڈ کیا ہے

طاہر محمود کہتے ہیں ”میرے بھائی نے وہ پیسے والدہ کے ساتھ عمرے پر جانے کے لیے جمع کیے تھے۔ انہیں محفوظ رکھنے کے لیے بھائی نے بینک اکاؤنٹ کھلوایا تو ان سے آٹھ دس فارم پر دستخط لے لیے گئے۔ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس میں ایک بینک اشورنس کا فارم بھی ہے“

طاہر محمود نے بتایا کہ
پالیسی ہونے کے کچھ روز بعد انہیں پتا چلا کہ بینک نے انشورنس پالیسی کے نام پر اس جمع شدہ رقم میں سے کچھ رقم کاٹ لی ہے

ان کا کہنا ہے ”جب ہم لوگوں نے پتا کیا تو کہا گیا کہ آپ کے بھائی نے بینک اشورنس کی پالیسی لی ہے۔ ہم نے کہا ہمیں یہ پالیسی نہیں چاہیے تو بینک کے عملے نے جواب دیا کہ اگر آپ کو پیسے واپس چاہییں تو آپ کو تین قسطیں بھرنا پڑیں گی“

انھیں مجبوراً یہ شرائط ماننا پڑیں لیکن سنہ 2017ع میں تیسری قسط کی باری آئی تو بینک کے عملے نے بتایا کہ انشورنس کمپنی قسط نہیں لے رہی۔ ’(تاہم) انشورنس کمپنی نے کہا ان کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا۔ واپس بینک والوں سے رابطہ کیا تو وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگے اور یہ معاملہ لٹکتا ہی چلا گیا۔‘

طاہر محمود نے گذشتہ حکومت کے دور میں وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرائی تو انہیں محتسب ادارے سے رابطہ قائم کرنے کا کہا گیا۔ ’وہاں سے بھی کوئی داد رسی نہیں ہوئی اور آج تک خاندان کے پیسے ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھائی اور والدہ نے دوبارہ پیسے جمع کر کے عمرہ کر لیا تاہم بینک میں ڈوبی ہوئی رقم ابھی تک نہیں ملی۔‘

طاہر کا خاندان ’بینک اشورنس فراڈ‘ کی زد میں آنے والا واحد خاندان نہیں۔ آپ کو سوشل میڈیا اور اصل زندگی میں ایسے کوئی لوگ مل سکتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بینک نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا یعنی بتا کر یا بتائے بغیر ’بینک اشورنس‘ کے دلدل میں پھنسایا گیا، جس سے انہیں مالی نقصان ہوا

بینک اشورنس کیا ہے؟

پاکستان میں بہت ساری انشورنس کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ان کے پراڈکٹس کی تشہیر بھی اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ہوتی رہتی ہے تاہم بینک اشورنس پاکستان میں انشورنس کے مقابلے میں ایک نئی چیز ہے

اس کے بارے میں مالیاتی امور کے ماہر ارسلان بیگ کہتے ہیں ”بینک اشورنس دراصل انشورنس ہی ہوتی ہے تاہم اس میں بینک شامل ہوتا ہے۔ اس میں انشورنس کمپنیوں اور بینکوں کے درمیان سروس لیول کا معاہدہ ہوتا ہے یعنی انشورنس پراڈکٹس بیچنے پر بینک اپنا کمیشن اور نفع لیتا ہے“

انشورنس کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل این اے عثمانی نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ بینک اشورنس اسٹیٹ بینک اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی منظور شدہ پراڈکٹ ہے

بینک اشورنس میں انشورنس کمپنی بینک کا کاؤنٹر استعمال کرتی ہے اور اس میں بینک ایک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک انشورنس کمپنی کی پراڈکٹ کے لیے ایجنٹ ہوتے ہیں جو پالیسی کروانے پر اپنی کمیشن لیتے ہیں، اسی طرح بینک اشورنس میں متعلقہ بینک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر یہ کمیشن حاصل کرتا ہے

بینک اشورنس میں ’دھوکہ‘ کیسے ہوتا ہے؟

بینک اشورنس کے نام پر ’دھوکہ‘ کھانے والے صارفین کی فہرست لمبی ہے اور لوگوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کی رقم جو انہوں نے سرمایہ کاری کے طور پر لگائی تھی، اسے بینک اشورنس کے ذریعے پالیسی میں لگا دیا گیا اور اس پر کٹوتی کر لی گئی یا پھر دیگر بعض صارفین کہتے ہیں کہ انہیں اس سے منافع نہیں ہوا، الٹا سخت شرائط و ضوابط سے وہ اپنا نقصان کر بیٹھے

اس کے جواب میں ارسلان بیگ تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں سب سے زیادہ خرابی بینکوں میں ہے۔ ’ایک انشورنس کمپنی جب کسی بینک کو انشورنس کا ہدف دیتی ہے تو بینک انتظامیہ کی جانب سے عملے کو کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہ ہدف ہر صورت پورا کرنا ہے‘

انہوں نے کہا کہ بینکوں کے عملے پر اعلیٰ انتظامیہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو ہر صورت میں بینک اشورنس میں لانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اس عملے کو انشورنس پراڈکٹ بیچنا ہوتی ہے اور اپنے کلائنٹس کو وہ ’مس گائیڈ‘ کرتے ہیں اور ان کی سرمایہ کاری کو مختلف حیلے بہانوں سے بینک اشورنس میں لاتے ہیں

مثال کے طور پر اگر عملہ دس لاکھ کی بینک اشورنس کی پالیسی کرتا ہے تو پانچ سے چھ لاکھ اسے کمیشن میں مل جاتے ہیں۔ ارسلان نے بتایا کہ جس طرح عام انشورنس ایجنٹ کمیشن پالیسی کرنے پر کمیشن حاصل کرتے ہیں، اسی طرح بینک کارپوریٹ ایجنٹ کے طور پر یہ کمیشن حاصل کرتے ہیں۔ ’بینک انتظامیہ ہر صورت میں ٹارگٹ پورا کر کے زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کرنا چاہتی ہے، اس لیے عملہ مس سیلنگ یعنی غلط انداز میں بینک اشورنس کے ذریعے پراڈکٹ فروخت کرتا ہے اور اس کے لیے لوگوں کو غلط معلومات فراہم کرتا ہے‘

این اے عثمانی نے اس سلسلے میں کہا کہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے جب بینکوں کو ایک ہدف دیا جاتا ہے تو یہ ایک روٹین کی بات ہے اور اگر بینک کے عملے کی جانب سے لوگوں کو غلط طریقے سے انشورنس پالیسی دیتے ہیں تو ’اس میں انشورنس کمپنی کا کوئی قصور نہیں۔‘

تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بینک اشورنس کے غلط طریقے سے روایتی انشورنس کے لیے اگر بدنامی ہوتی ہے تو یہ پریشانی کی بات ہے۔ ’انشورنس شعبے کے افراد اس بارے میں فکرمند ہیں کیونکہ بینک اشورنس کی وجہ سے ان پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں‘

سوشل میڈیا پر صارفین نے مقامی بینکوں کے مالی گوشوارے بھی شیئر کیے ہیں، جن میں بینک اشورنس کی مد میں کمائی میں کافی اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انشورنس کمپنیوں کی کمائی میں بھی اس مد میں کافی اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مقامی بینک کی سنہ 2022ع کی پہلی سہ ماہی میں بینک اشورنس کی مد میں کمائی تقریباً اڑتالیس کروڑ روپے رہی

ایک صارف نے لکھا کہ ایک مقامی بینک میں کام کرنے والے ایک بینکر کو کہا گیا کہ وہ ’بیس کروڑ کا بزنس لائیں تو انھیں ترقی دی جائے گی اور اب وہ بینکر مسلسل بینک اشورنس کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنے میں لگا ہوا ہے۔‘

اسی طرح بینکوں کے گذشتہ مالی سالوں کے گوشواروں میں بھی بینک اشورنس کے نام پر مسلسل اضافہ دیکھا جا سکتا ہے

مقامی بینکوں میں سے ایک بینک یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کا نام بھی ٹوئٹر پر آیا ہے، جو بینک اشورنس کے نام پر کمانے والے چند بینکوں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں یو بی ایل کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور ان سے سے مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی

یو بی ایل نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ بینک کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کے کسٹمرز بینک اشورنس کو صحیح طرح سے سمجھیں، جس میں اس کے فوائد اور اس سے جڑے خطرات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ’یہ پراڈکٹ ریگولیٹری نظام کے تحت آفر کی جاتی ہے جس کے لیے نامور انشورنس کمپنیوں کے ساتھ بینک پارٹنر ہے۔‘

بینک نے کہا ’صرف ان کیسوں پر آگے بڑھا جاتا ہے جن میں کسٹمرز اپنی رضامندی ظاہر کرے۔‘ بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کا پورا نظام اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کے قواعد و ضوابط کے تحت چلتا ہے اور بینک اشورنس کے ذریعے گذشتہ پانچ برسوں میں مختلف خاندانوں کو ایک ارب 375 کروڑ روپے کی رقم ادا کی گئی ہے۔

بینک اشورنس کے متاثرین کی داد رسی کون سا ادارہ کر سکتا ہے؟

پاکستان میں اسٹیٹ بینک بینکاری شعبے کا ریگولیٹر اور انشورنس کا شعبہ ایس ای سی پی کے تحت ہے۔ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے دونوں ریگولیٹرز کی کارکردگی پر سوال اٹھایا گیا ہے

اس معاملے میں ایس ای سی پی نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ اس کی جانب سے بینک انشورنس کے قواعد و ضوابط میں سنہ 2020 میں ترامیم کی گئی ہیں جن کے تحت انشوررز، پالیسی ہولڈرز اور بینکوں کے مفادات کو یکجا رکھا جائے گا

ایس ای سی پی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بینک اشورنس کے سلسلے میں ایک پورا مکینزم وضع کیا گیا ہے جس میں پالیسی کی فروخت سے پہلے اور اس کی فروخت کے بعد ایک خاص وقت تک پورے پراسس کو پرکھا جاتا ہے۔ ایس ای سی پی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کے قانون میں ایسی شق بھی ہے کہ اگر پالیسی کے پچیس مہینوں کے اندر پالیسی ہولڈرز کو پتا چلتا ہے کہ اسے یہ غلط طریقے سے فروخت کی گئی تو اسے سو فیصد پریمیئم مل جاتا ہے

ایس ای سی نے کہا ہے کہ کارپوریٹ ایجنٹ کے کمیشن کو مرحلہ وار کم کر کے انشورر، بینک اور پالیسی ہولڈر کے مفاد کو یکجا کیا جائے گا

دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی جانب سے مؤقف لینے پر ترجمان مرکزی بینک کی جانب سے ایک سرکلر بھیجا گیا ہے، جس میں بینکوں میں تھرڈ پارٹی کی مصنوعات کی فروخت کے رہنما اصول درج ہیں جس میں صرف پالیسی گائیڈ لائنز درج ہیں

پاکستان میں انشورنس شعبے میں کسی شکایت کی صورت میں ایک ادارہ انشورنس محتسب کے نام سے قائم ہے، جو انشورنس بشمول بینک اشورنس کے کیسز کو دیکھتا ہے۔ اس کا مرکزی دفتر کراچی میں ہے اور اس کے ساتھ علاقائی دفاتر دوسرے علاقوں میں بھی قائم ہیں

بینک اشورنس کے نام پر دھوکے کی صورت میں لوگ انشورنس محتسب کے دفتر میں شکایت درج کرا سکتے ہیں، جو متعلقہ بینک یا انشورنس کمپنی کو بلا کر باقاعدہ سماعت کرتا ہے اور فیصلے پر بینک اور انشورنس کمپنیاں پابند ہوتی ہیں

انشورنس محتسب آفس کے ڈائریکٹر جنرل مبشر نعیم صدیقی نے بتایا کہ بینک مینیجر اکثر اس بات کا فائدہ اٹھاتا ہے کہ اسے کلائنٹ کے اکاؤنٹ کا پتا ہوتا ہے کہ کسے یہ پراڈکٹ بیچی جا سکتی ہے

صدیقی نے بتایا کہ بینک کا عملہ جب کسی کو بینک اشورنس پراڈکٹ بیچتا ہے تو وہ اسے انشورنس پالیسی نہیں بلکہ بینک کی پراڈکٹ کے طور پر بیچ رہا ہوتا ہے، اس لیے اکثر اوقات لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور پھنس جاتے ہیں

صدیقی نے بتایا کہ ان کے ہاں جو شکایات آتی ہیں وہ اسی فیصد بینک اشورنس کے حوالے سے ہیں جس میں متاثرین بتاتے ہیں کہ کس طرح بینک کے عملے نے غلط بیانی کر کے انھیں بینک اشورنس کی پراڈکٹ بیچی

انہوں نے بتایا کہ اس میں لالچ کا عنصر شامل ہوتا ہے کیونکہ بینک کو بینک اشورنس پر 25 سے 50 فیصد کمیشن ملتا ہے۔ ’اگر ایک بینک پچاس لاکھ کی بینک انشورنس بیچتا ہے تو 25 لاکھ پریمیئم پر کمیشن ملتی ہے‘

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ’انشورنس محتسب کو اسٹیٹ بینک کو سفارش کی ہے کہ بینک کے عملے کی کارکردگی میں سے بینک اشورنس پر اس کی اچھی کارکردگی کے حصے کو نکالا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے بینکوں میں بینک اشورنس کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ ہو جاتا ہے‘

مبشر نعیم صدیقی نے کہا کہ انشورنس محتسب نے اس سلسلے میں لوگوں کی ڈوبی ہوئی رقوم کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے اور اس سلسلے میں آگاہی مہم بھی چلائی ہے

ان کے مطابق اگر صرف 2021 یعنی گذشتہ سال کے اعداد و شمار حاصل کیے جائیں تو انشورنس محتسب نے پورے پاکستان میں متاثرین کو ان کے ڈوبے ہوئے دو ارب روپے واپس کروائے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close