کاغذ کی قیمت میں 200 فیصد کے ریکارڈ اضافے اور مقامی ملز کی جانب سے منافع خوری کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دے رہی ہے
آل پاکستان مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سابق نائب چیئرمین عابد ناصر کا کہنا ہے کہ ”درآمدی کاغذ پر بلند شرح ٹیکس، روپے کی قدر میں نمایاں کمی، ڈالر کے مہنگا ہونے اور کاغذ کی مقامی ملز کی منافع خوری کے سبب ملک بھر میں کاغذ کا سنگین بحران ہوگیا ہے“
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں
ان حالات کے پیش نظر عابد ناصر کا کہنا ہے ”بچوں کے لیے درسی کتب دستیاب نہیں ہوں گی اور اگر ہوئیں تو وہ قیمت کے اعتبار سے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی“
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اشاعتی صنعت میں پیداواری طلب پوری کرنے میں درآمد کنندگان ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک سے درآمد کی جانے والی کتب ڈیوٹی فری ہیں جو ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا وغیرہ میں چھپوا کر درآمد کی جارہی ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ہر قسم کا شائع شدہ مواد بھی ڈیوٹی فری ہے جس کی وجہ سے اشاعتی صنعت تباہی کے دہانے پر ہے
انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک المیہ ہے کہ شائع شدہ کتب اور مواد کو بیرونِ ملک سے درآمد کرنے پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہے، کیونکہ ان کے مطابق ”اشاعتی صنعت سے بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، جو اس سے متاثر ہو رہی ہے“
خیال رہے کہ حکومت نے کاغذ کی درآمد پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد کردی تھی جو کتابوں اور دیگر مواد کی اشاعت کے لیے استعمال ہوتا ہے
وفاقی بجٹ برائے سال 23-2022 کی دستاویز کے مطابق درآمدی کاغذ پر 20 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جس کے بعد 17.5 فیصد سیلز ٹیکس، 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 29 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی اور 6 فیصد اضافی ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔