جرمنی کی ایک عدالت نے ایک سو ایک برس کے ایک بوڑھے شخص کو پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے
انہیں یہ سزا اس لیے دی گئی ہے، کیونکہ وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران سابق نازی حراستی کیمپ کے محافظوں میں شامل تھے
وہ اب تک کے ایسے معمر ترین شخص ہیں جن پر مبینہ طور پر یہودیوں کے قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا گیا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جوزف شوٹز کو 1942ع سے 1945ع کے درمیان برلن کے شمال میں واقع اورین برگ میں واقع ساچسین ہاؤزن کیمپ میں جیل کے محافظ کے طور پر کام کرتے ہوئے، منگل کو کم از کم ساڑھے تین ہزار مقدمات میں قتل کا مجرم قرار دیا گیا
تاہم سزا سنائے جانے کے باوجود ان کی پیراں سالی کے پیش نظر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالے جانے کا امکان بہت کم ہے
شوٹز جو اب پنشن پر گزر بسر کرتے ہیں اور برینڈنبرگ ریاست میں مقیم ہیں، نے بے قصور ہونے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا اور کیمپ میں کام بھی نہیں کیا
پیر کو اپنے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر ایک سو ایک سالہ شوٹز کا کہنا تھا ”مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں کیوں ہوں؟“
لیکن مقدمے کے پریزائیڈنگ جج اودولیچترمن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ شوٹز نے ساچسین ہاؤزن میں کام کیا اور وہاں ہونے والے مظالم کی حمایت کی تھی
جج کا کہنا تھا کہ ’شوٹز! تین سال تک آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے قیدیوں پر تشدد اور انہیں قتل ہوتے دیکھا۔ جس کسی نے کیمپ سے فرار ہونے کی کوشش اسے گولی مار دی گئی۔ اس لیے ہر محافظ ان جرائم میں فعال طور پر ملوث تھا‘
کہا جاتا ہے کہ 1936ع اور 1945ع کے درمیان دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جن میں یہودی، روما، حکومت کے مخالفین اور ہم جنس پرست افراد شامل تھے، کو نازی کیمپ میں حراست میں لیا گیا
ساچسین ہاؤسن میموریل اینڈ میوزیم کے مطابق سوویت فوجیوں کے ذریعے کیمپ کو آزاد کرانے سے پہلے ہزاروں قیدی جبری مشقت، قتل، طبی تجربات، بھوک یا بیماری سے ہلاک ہو گئے
شوٹز اکیس سال کے تھے، جب انہوں نے کیمپ میں کام کرنا شروع کیا
جب عدالت نے ان کی سزا کا اعلان کیا تو ان کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے
اس سے پہلے جب وہ وہیل چیئر پر کمرہ عدالت میں داخل ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں تیار ہوں۔‘ انہوں نے گرے رنگ کی شرٹ دھار پتلون پہن رکھی تھی
شوٹز کو 2021 میں شروع ہونے والے مقدمے کی سماعت کے دوران حراست میں نہیں لیا گیا تھا لیکن ان کی صحت کی وجہ سے سماعت کئی بار ملتوی کی گئی
شوٹز کے خلاف مقدمے میں 16 میں سے 11 سول فریقین کی نمائندگی کرنے والے وکیل تھامس والتھر نے کہا کہ سزا ان کی توقعات پر پوری اتری ہے اور انصاف ہو گیا
لیکن 80 سالہ انٹوئن گرمباچ، جن کے والد کی موت ساچسین ہاؤزن میں ہوئی، نے کہا کہ وہ شوٹز کو ’کبھی معاف نہیں کر سکتے‘ کیوں کہ ’ظلم ہوتا دیکھنے والے کسی بھی انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرے‘
مقدمے کی سماعت کے دوران شوٹز نے اپنے ماضی کے بارے میں متعدد متضاد بیانات دیے
ایک موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بیشتر عرصے میں جرمنی میں ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کیا۔ یہ دعویٰ ان کے نام، تاریخ اور جائے پیدائش سے متعلق کئی تاریخی دستاویزات سے متصادم ہے
جنگ کے بعد شوٹز کو جرمنی واپس آنے سے پہلے روس کے ایک جیل کیمپ میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ ایک کسان اور تالے بنانے والے کے طور پر کام کرتے رہے
دوسری عالمی جنگ کے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد جرمن پراسیکیوٹرز زندہ بچ جانے والے آخری نازی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں
2011 میں سابق محافظ جان ڈیم جنجوک کو اس بنیاد پر سزا کہ انہوں نے ہٹلر کی قاتل مشین کے حصے کے طور پر کام کیا، ایک قانونی مثال قائم کی اور کئی مقدمات میں انصاف کی راہ ہموار کی۔