غلطی سے سرحد پار کرنے والا بھارت میں قید پاکستانی طالب علم وطن نہ لَوٹ سکا۔۔

ویب ڈیسک

گزشتہ برس نومبر میں کنٹرول لائن حادثاتی طور پر عبور کرنے والے
آزاد کشمیر کے نویں کلاس کے چودہ سالہ طالب علم عبدالصمد ابھی تک وطن نہ لوٹ سکے

عبدالصمد کے خاندان کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز نے عبدالصمد کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت کے بعد سے یہ نوجوان ابھی تک بھارتی قید میں ہے

پولیس نے اس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا مقدمہ درج کیا تھا

خاندان کا کہنا ہے کہ اس کی گرفتاری اور دیگر معلومات کی تفصیلات کے لیے ان کی طرف سے کی جانے والی تمام تر قانونی کوششیں ابھی تک بے سود ثابت ہوئی ہیں

لائن آف کنٹرول پر واقع تیتری نوٹ نامی گاؤں کے رہائشی اس کے خاندان نے بتایا کہ عبدالصمد اپنے کبوتر اڑا رہا تھا اور انہیں پکڑنے کی کوشش کے دوران وہ کنٹرول لائن عبور کر گیا

عبدالصمد کے ماموں ارباب علی نے اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا ”وہ اپنے کبوتر پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا، یہ جانے بغیر کہ وہ اسی دوران بھارتی حصے میں داخل ہو گیا ہے۔ اسے بھارتی سرحدی فورسز نے فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ ہمیں اس دن شام میں معلوم ہوا کہ عبدالصمد کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘

ارباب علی کہتے ہیں ”ہم ابھی تک اس سے رابطے یا اس کی رہائی کے بارے میں سننے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم نے پاکستانی دفتر خارجہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ عبدالصمد کی رہائی کے لیے مدد کرے مگر ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ہم صرف اس کی آواز سننا چاہتے ہیں، ہمیں کوئی امید نظر نہیں آ رہی، کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر رہا‘‘

اس حوالے سے واشنگٹن میں قائم ’ووڈرو ولسن سنٹر فار اسکالرز‘ کے ساتھ جنوبی ایشیا کے ماہر کے طور پر وابستہ مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے ”اس طرح کے حادثات خاندانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں، خاص طور پر جب انہیں یہ معلوم کرنے میں بھی طویل عرصہ لگ جاتا ہو کہ اصل میں ہوا کیا تھا“

کوگلمین کا کہنا تھا، ”ضروری نہیں کہ ان خاندانوں کو اس بات کی بھی خبر مل جائے کہ ان کے پیاروں کے ساتھ دوسری جانب اچھا سلوک کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ حکام جتنی جلدی ممکن ہو سکے وہ ایسے افراد کے خاندانوں کے ساتھ رابطہ کریں۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ”حادثاتی طور پر سرحد پار کرنے کے اس طرح کے کیسز کا عام طور پر مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور ایسے لوگوں کو عموماﹰ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں اکثر کئی برس کا عرصہ لگ جاتا ہے۔‘‘

راہول کپور بھارت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے عبدالصمد کی رہائی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی۔ اس پٹیشن پر ہزارہا افراد نے دستخط کیے جس کے بعد عبدالصمد کو کونسلر تک رسائی مل گئی اور بھارت میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں نے مارچ میں امرتسر شہر کی جیل میں عبدالصمد سے ملاقات بھی کی

پاکستان اور بھارت نے اپریل 1974ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایسے قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا جنہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور غلطی سے سرحد عبور کی ہو

اس معاہدے اور کونسلر سے ملاقات کے باوجود عبدالصمد کی رہائی کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ تاہم وہ واحد ایسا شخص نہیں ہے جو ان حالات کا شکار ہے۔ دونوں حکومتوں کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2022ء تک پاکستانی جیلوں میں قید بھارتی شہریوں کی تعداد 628 تھی جبکہ بھارتی جیلوں میں ایسے پاکستانی قیدیوں کی تعداد 282 ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد پر ایسے الزامات ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی بحری سرحد میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے

قمر چیمہ پاکستان دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور بے یقینی کے تناظر میں ہر اس شخص کو سلامتی کے حوالے سے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو غلطی سے بھی سرحد کے پار کر لے اور اسی سبب ایسے لوگوں کی رہائی کا معاملہ مشکلات میں پڑ جاتا ہے اور لوگ کئی کئی برس جیلوں میں ہی گزار دیتے ہیں

پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی اس فضا میں سرحدوں پر پکڑے جانے والے افراد کی شناخت بعض اوقات ایک چیلنج ثابت ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ خوف کے سبب اپنا نام اور پتہ غلط بتا دیتے ہیں۔ اس سے حکام کے لیے ان افراد کی شہریت کی تصدیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات سے بچنا ایک مشکل امر ہے: ”اہم بات یہ ہے کہ سرحدی حکام کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے ایسے افراد کے خاندان کا کھوج لگانا چاہیے، یہاں تک کہ جب وہ سکیورٹی کے حوالے سے ضروری اقدامات کر رہے ہوتے ہیں اس دوران بھی اسے یقینی بنایا جائے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ”اچھی خبر یہ ہے کہ ایسے بہت سے معاملات میں لوگوں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے ان کے گھروں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، بھلے اس میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اسے ایک طرح سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی بحالی کی ایک معمولی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close