امریکی اتنے وطن پرست کیوں ہیں؟

ڈاکٹر مبارک علی

وطن پرستی ایک ایسا جذبہ ہے جو اپنے ملک کی حمایت میں جائز اور ناجائز کو نہیں دیکھتا۔

حکمران طبقے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے ليے سیاسی اور معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے عوام میں وطن پرستی کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ وطن پرستی کے جذبات جب لوگوں کو ذہنی طور پر اسیر کر لیتے ہیں تو ان میں وطن کی محبت اور وفاداری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ وطن کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

یہ جذبہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ اس پر کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اگر کوئی ذرا بھی مخالفت کرے تو وہ وطن دشمن اور غدار ہو جاتا ہے۔

امریکہ کا ابتدا ہی سے یہ مسئلہ تھا کہ اس میں اینگلوسیکسن کے علاوہ جرمن، اطالوی، مشرقی یورپ کے باشندے، چینی اور جاپانی بھی آباد تھے، لہٰذا ان سب کو امریکی بتانے کے لیے ضروری تھا کہ ان کو وطن پرستی کے نظریے کے تحت متحد کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے خصوصاً تعلیمی نصاب اور میڈیا کو پوری طرح استعمال کیا گیا۔

امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کو انقلاب کا نام دیا گیا۔ اس انقلابی جنگ میں امریکہ کی 13 کالونیوں نے حصہ لیا، اور آزادی حاصل کی۔ اب چار جولائی کو یوم آزادی کا قوی دن منایا جاتا ہے، تا کہ جن لوگوں نے اس جنگ میں قربانیاں دیں، ان کو یاد کیا جائے۔

اس کی مثال قدیم یونان میں پیلی پونیشین جنگ میں مارے جانے والے ایتھینز کے فوجیوں کی تھی، جن کی تعریف پیریکلس (وفات: 429 ق م) ںے اپنی ایک تقریر میں کی تھی۔

وطن پرستی کے جذبات کو امریکی تاریخ کے ذریعے بھی ابھارا گیا۔ ان کتابوں کے عنوانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ بیان کرنے کا مقصد امریکہ کی شان و شوکت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانا ہے۔ جیسے ایک کتاب کا عنوان ہے: History of american grandeur ۔ ایک دوسری کتاب magnificient history of america کے نام سے ہے۔ ان کتابوں میں امریکی فتوحات، اس کی ترقی اور کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کی عظمت اور بڑائی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔

وطن پرستی کے لیے یہ کوشش بھی کی گئی کہ ملک کی ایک ہی زبان ہو۔ پہلی جنگ عظیم کی ابتدا سے پہلے جہاں جرمنوں کی اکثریت تھی، انہیں اجازت تھی کہ اسکولوں میں جرمن زبان کو ذریعہ تعلیم بنائیں۔

یہی آزادی ہسپانوی بولی جانے والی زبان کے لوگوں کو بھی تھی، لیکن بعد میں یہ آزادی ختم کر دی گئی، اور سب کو انگریزی زبان میں تعلیم دینا پڑی۔ آج بھی جب کسی کو امریکی شہریت کے لیے انٹرویو دینا ہوتا ہے تو اسے انگریزی زبان کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص اس وقت تک امریکی شہری نہیں بن سکتا، جب تک اسے انگریزی زبان نہ آتی ہو۔

امریکہ میں وطن پرستی کے جذبات کو تقویت کے لیے مختلف علامات کا سہارا لیا گیا۔ مثلاً کولمبس کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کے نام پر کئی شہر اور یونیورسٹیاں ہیں۔ اس کے کارناموں کو فخر سے بیان کیا جاتا ہے، لیکن امریکہ کے آبائی باشندوں کا کہنا ہے کہ کولمبس کی آمد نے ان کے کلچر اور آبادیوں کو تباہ و برباد کر دیا، اس لیے وہ اسے ہیرو کے بجائے مجرم قرار دیتے ہیں۔

وطن پرستی کے لیے ’ہیرو ورشپ‘ بھی ضروری ہے، لہٰذا جارج واشنگٹن، ٹامس جیفرسن اور ابراہم لِنکن کے علاوہ بہت سے دوسرے ہیروز تخلیق کے گئے اور ان کی شخصیتوں کو پرعزم بنا کر ان پر کتابیں لکھیں گئیں، فلمیں بنائی گئیں اور ترانوں کے ذریعے ان کی تعریف و توصیف کی گئی۔

وطن پرستی کے ذریعے قومی دنوں کو بھی پرجوش طریقے سے منایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ’تھینکس گیونگ ڈے‘ تاریخ میں پلمتھ کے مقام پر ’پلگرم فادرز‘ کی ایک جماعت آئی تھی، جن کی خاطر تواضع مقامی باشندوں نے کی تھی۔

جب یہ یہاں آباد ہو گئے اور زراعت میں ترقی کی تو تھینکس گیونگ ڈے منانا شروع کر دیا۔ اس پر ایک آبائی امریکی باشندے نے کہا تھا کہ یہ یورپیوں کے لیے تو خاص دن ہو سکتا ہے لیکن ہمارے لیے نہیں کیونکہ ان یورپی باشندوں نے ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کیا تھا اور اس پر قابض ہو گئے تھے، اس لیے یہ دن ہمارے لیے تباہی کا دن ہے، لیکن اس کے باوجود اس کو قومی دن بنا کر پورے ملک میں چھٹی کا اعلان کر دیا گیا۔

وطن پرستی کے لیے تعلیمی نصاب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں تاریخ، افسانے اور کہانیوں کے ذریعے نوجوان طالب علموں کے ذہن کو متاثر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور سے امریکی جھنڈے کو استعمال کیا گیا۔ یہ لازمی ہوا کہ ہر اسکول میں جھنڈا لہرایا جائے گا، اور اسکول شروع ہونے سے پہلے طالب علم جھنڈے کو سلامی دیں گے، اور اس سے وفاداری کا عہد کریں گے۔

وطن پرستی کے اس جذبے میں افریقی باشندے بھی شامل تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے بار بار امریکی وطن پرستی کے حق میں اپنے جذبات کا اظہار کیا، اس کے علاوہ دوسرے افریقی رہنماؤں نے بھی وطن پرستی کے نام پر اپنی خدمات پیش کیں۔

امریکی افریقی باشندوں نے بھی ویت نام اور دوسری جنگوں میں حصّہ لیا، ان کی ایک بڑی تعداد ماری بھی گئی مگر ان قربانیوں کے باوجود ان کو مساوی مقام نہیں دیا گیا اور ان سے نسلی تعصّب برتا گیا۔

پہلی جنگِ عظیم کے دوران جاپانی باشندے جو امریکہ میں آباد تھے، ان کی وطن پرستی پر شک کرتے ہوئے جنگ کے دوران انہیں کیمپوں میں رکھا گیا۔ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اینگلو سیکسن اور دوسرے یورپیوں کے علاوہ باقی ملکوں کے مہاجرین کو وطن پرست نہیں سمجھتے تھے۔

وطن پرستی کے جذبات کو ہوا دے کر امریکی حکمراں طبقوں نے اپنی سامراجی جنگوں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں مداخلت کر کے عوامی حمایت حاصل کر لی۔ اس لیے وطن پرستی ایک ایسا جذبہ ہے جو اپنے ملک کی حمایت میں جائز اور ناجائز کو نہیں دیکھتا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close