اقوام متحدہ نے آٹھ مختلف ذرائع پر مبنی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں جاری تنازعے میں یکم مارچ 2011 سے 31 مارچ 2021 کے درمیان تین لاکھ چھے ہزار آٹھ سو ستاسی شہری مارے گئے۔ جبکہ ایک کیمپ میں ایک سو سے زائد قیدی ہلاک ہو گئے
منگل کے روز اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے جنیوا دفتر سے جاری کردہ رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد سابقہ اعداد و شمار کے مقابلے کہیں زیادہ ہے
نئی رپورٹ کے مطابق تشدد زدہ ملک شام میں پچھلے دس برسوں کے دوران ہر روز کم از کم 83 شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ہلاکتوں کی یہ مجموعی تعداد تصادم شروع ہونے سے قبل کی شامی آبادی کے 1.5 فیصد کے برابر ہے
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر میشیل بیچلیٹ کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کے حوالے سے یہ رپورٹ شہریوں کی ہلاکتوں کے دستیاب اعدادو شمارکے تجزیہ اور ٹھوس جائزے پر مبنی ہے
انہوں نے کہا ”اس رپورٹ میں تصادم سے متعلق ہلاکتوں کے اعدادو شمار محض ایک تعداد نہیں ہے بلکہ ایک ایک فرد کی نمائندگی کرتا ہے۔306887 شہریوں میں سے ہر ایک کی ہلاکت کا ان کے خاندان اور جس برادری سے وہ تعلق رکھتے تھے، اس پر انتہائی گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں‘‘
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں یا عسکریت پسندوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے
جبکہ اس رپورٹ میں ایسے افراد کی ہلاکتوں کی تعداد بھی شامل نہیں ہے، جو مارے گئے اور ان کے گھر والوں نے حکام کو مطلع کیے بغیر ہی ان کی تدفین کر دی
یہ رپورٹ آٹھ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ ان میں دمشق مرکز برائے مطالعات حقوق انسانی، سینٹر فار اسٹیٹسٹکس اینڈ ریسرچ، شام، شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور وائلیشن ڈاکیومینٹیشن سینٹر شامل ہیں
رپورٹ میں 143350 شہریوں کی ہلاکتوں کی انفرادی طور پر تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس میں ان کے مکمل نام، ہلاکت کی تاریخ اور مقام بھی درج ہیں
یاد رہے کہ شام میں تصادم کا سلسلہ مارچ 2011 میں صدر بشارالاسد حکومت کے خلاف پرامن احتجاج سے شروع ہوا۔ جلد ہی یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے مختلف حصوں تک پھیل گئے اور کثیر رخی نوعیت اختیار کر گئے۔ بعد میں عالمی طاقتیں بھی اس میں ملوث ہوگئیں
تصادم نے جلد ہی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جس میں لاکھوں افراد مارے گئے اور بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی
اقوام متحدہ نے منگل کے روز ہی ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا کہ شام میں ایک کیمپ میں پچھلے اٹھارہ ماہ کے دوران ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے، ان میں خواتین بھی شامل تھیں
کردوں کے کنٹرول والے شمالی مشرقی علاقے الہول میں ایک عارضی حراستی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ جہاں اب بھی چھپن ہزار افراد قید ہیں۔ ان میں سے بیشتر شامی اورعراقی شہری ہیں اور ان میں سے بعض کا تعلق داعش سے ہے
شام میں اقوام متحدہ کے رابطہ کارعمران رضا کا کہنا تھا کہ ”الہول کیمپ انتہائی غیر محفوظ ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ جگہ ہے اورغیرمحفوظ مقام بن گیا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ انسانی حقوق کمشنر میشیل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ تازہ ترین رپورٹ اور جائزوں سے شام میں تصادم کی سنگینی اور اس کی وسعت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔