بیلجیم کے شمالی ساحل پر گھوڑے پر سوار ہو کر کیکڑے پکڑنا ایک نایاب پیشہ ہے اور اسے ابھی کچھ عرصے پہلے تک صرف مرد ہی اپنایا کرتے تھے
لیکن نیلے بیکارٹ بیلجیم میں پہلی گھڑ سوار خاتون ماہی گیر ہیں، جنہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا ہے
بیکارٹ کا اس پیشے کو اختیار کرنے کا مقصد اسے بچانا ہے، کیونکہ لوگ اسے تیزی سے ترک کر رہے ہیں اور یہ ختم ہوتا جا رہا ہے
بیلجیم دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں ماہی گیر مرد اور اب خواتین بھی گھوڑے پر سوار ہو کر کیکڑے، جھینگے اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں جاتی ہیں۔ یہ قریب پانچ سو سال پرانی روایت ہے۔ اور اب محض سترہ افراد ہی اس سرگرمی سے وابستہ رہ گئے ہیں
کسی زمانے میں یہ تجارت شمالی سمندر کے ساحل پر فرانس سے جرمنی اور جنوبی انگلینڈ تک خاندانوں کے ذریعہ کی جاتی تھی، اور آج صرف سترہ لوگ زندہ ہیں جو اب یونیسکو کی طرف سے تسلیم شدہ اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں
بیلجیئم کے شمال مغربی سرے پر 8,500 افراد پر مشتمل فلیمش کمیونٹی – دنیا کی آخری جگہ ہے جہاں یہ اب بھی رہتی ہے۔ پندرہویں صدی کے آخر سے، یہ عام طور پر باپ سے بیٹوں کو منتقل کیا جانے والا رواج تھا، جس میں سالوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی
اگرچہ ایک زمانے میں شمالی سمندر کے ساحل پر خواتین کے لیے چھوٹے ٹرالرز کو ہاتھ سے دھکیل کر جھینگا پکڑنا عام تھا، لیکن انہیں گھوڑے کی پیٹھ پر ایسا کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی کیونکہ اسے "مرد کا کام” سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب 2013 میں گھوڑوں کی ماہی گیری نے یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثے کا درجہ حاصل کیا، تو اس مشق کو بچانے کے لیے ایک بڑھوتری کی کوشش شروع ہوئی۔ چونکہ یونیسکو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی غیر محسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں کسی بھی سرگرمی کو تمام جنسوں کے لیے یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اس سے گھوڑوں کی ماہی گیر خواتین کے لیے راہ ہموار ہوئی
اسے عام طور پر شرمپ فشنگ یا ہارس فشنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن پانچ سو سال پرانی یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے اور صرف بیلجیم میں ہی زندہ ہے
گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر کیکڑے اور مچھلیاں پکڑنے کی پانچ سو سال پرانی یہ روایت صرف بیلجیم کے ایک چھوٹے سے ساحلی شہر ‘اوسٹ ڈونکیرکے‘ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے
یہاں ماہی گیر گھوڑوں کی کولڈ بلڈڈ نسل پر سوار ہو کر کیکڑوں اور مچھلیوں کا جال سمندر میں پھینکتے ہیں۔ گھوڑے اپنی کمر تک پانی کے اندر ہوتے ہیں اور اس کی لہروں کے ساتھ ساتھ تیرتے رہتے ہیں
چھے سال قبل نیلے بیکارٹ اس صدیوں پرانے پیشے سے منسلک ہوئیں۔ نیلے کا تعلق بیلجیم سے ہی ہے۔ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ”یہ بس ناقابل یقین سا احساس ہے۔ آپ اس جانور کی طاقت کو بھرپور طریقے سے محسوس کرتے ہیں، کیسے یہ آپ کو لیے سمندر میں بھاری قدموں سے آگے بڑھتا ہے۔ آپ سمندر کی طرف دیکھتے ہیں اور ہر چیز بہت پرامن نظر آتی ہے‘‘
نیلے بیکارٹ اپنے گھوڑے آکسل پر سوار ہو کر صبح سویرے سے یہ کام شروع کر دیتی ہیں۔ بیکارٹ گھٹنوں سے اوپر تک اونچے واٹر پروف جوتے پہنے، چمکدار پیلے پنروک اوورالز، ایک سلیکر اور مچھلی پکڑنے والے جال کے ساتھ نکلتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ کے ساتھ ایک بڑے چمنی کی شکل کا ڈریگ نیٹ باندھ دیتی ہیں۔ اس کے بعد دو ویکر ٹوکریاں اس کے اطراف سے لٹکا کر گھڑے کی ران کی گہرائی تک بحیرہ شمالی کے ٹھنڈے پانیوں میں کیکڑے، جھینگے اور مچھلی کے شکار کے لیے نکل پڑتی ہیں
یہ دنیا کی پہلی سرکاری طور پر تسلیم شدہ خاتون گھڑ سوار ماہی گیر ہیں۔ 2013ع میں یونیسکو نے اس قدیمی پیشے کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا
نیلے بیکارٹ کا کہنا ہے ”یونیسکو کی طرف سے اس پیشے کو تسلیم کیا جانا ہی دراصل وہ سبب ہے، جس کی وجہ سے میں نے یہ پیشہ اختیار کیا۔ اس سے پہلے یہ باقاعدہ مردوں کا کلب تھا، مجھے خود کو ثابت کرنا تھا۔ ہاں، مجھے دو گنا خود کو ثابت کرنا پڑا، لیکن میں کامیاب رہی اور اب انہوں نے مجھے پوری طرح قبول کر لیا ہے۔“
نیلے بیکارٹ کو دو سال کی انٹرن شپ کرنا پڑی اور کئی امتحانات پاس کرنا پڑے۔ تین بچوں کی اس ماں کا اصل پیشہ نرسنگ ہے۔ نیلے ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتی ہیں۔ اپنے فارغ اوقات میں وہ پانی اترنے سے کم از کم دو گھنٹے پہلے ساحل پر جاتی ہیں
اشٹیفان ہانکے ایک گھوڑ سوار مچھیرے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”بہت عرصہ پہلے، چھوٹے گدھے پر سوار ہو کر مچھلیاں پکڑنے کا کام زیادہ تر خواتین ہی کرتی تھیں۔ مرد کشتیوں کے ساتھ سمندر میں ہوتے تھے۔ اس طرح بچوں کی پرورش کے لیے عورتوں کی اضافی آمدنی ہو جاتی تھی‘‘
آج اس علاقے کے سترہ رہائشی اس پیشے سے منسلک ہیں۔کاٹرین ٹیرن نامی خاتون بھی اس پیشے کی بقا کے لیے مچھلیاں پکڑنے جاتی ہے۔ ماہی گیری کے لیے گھوڑوں کا استعمال گھوڑوں کی ناپید ہوتی نسلوں کو محفوظ رکھنے کا بھی ایک نایاب موقع ہے
کاٹرین ٹیرن کا کہنا ہے ”میں تبدیلی دیکھ رہی ہوں۔ لوگ روایات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سب نہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو جدیدیت یعنی کمپیوٹر، تیز رفتار انٹرنیٹ، مکمل ڈیجیٹلائزڈ زندگی چاہتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہیں جو پرانے زمانے کی زندگی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ جاننا چاہتے ہیں کہ روایتی زندگی کیسی ہوتی تھی‘‘
گھوڑوں کے ساتھ ماہی گیری دراصل کیکڑوں، جھینگوں اور مچھلی پکڑنے کا ایک قدیم لیکن ماہی گیری کا انتہائی پائیدار طریقہ ہے، جو نشاۃ ثانیہ کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دونوں گھڑ سوار ماہی گیر خواتین اس پیشے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔