جاپان جیسے ملک میں تشدد کا بڑھتا رجحان او شنزو آبے کا قتل

ویب ڈیسک

گزشتہ روز قتل ہقنے والے شنزو ایبے سب سے طویل عرصہ تک جاپان کے وزیراعظم رہے۔ وہ اپنے دور میں معاشی اصلاحات کے حامی کے طور پر سامنے آئے۔ شنزو ایبے پہلی بار 2006 میں وزیراعظم بنے اس وقت ان کی عمر 52 سال تھی۔ ان کا دور کافی ہنگامہ خیز تھا، جس میں کئی اسکینڈلز بھی سامنے آئے، جس کے بعد انہوں نے اچانک استعفٰی دے دیا تھا

وہ جنگ کے بعد سب سے کم عمر وزیر اعظم تھے۔ انہیں تبدیلی اور جواں سالی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کی تیسری نسل کے سیاست دان تھے جن کی تربیت پیدائش کے ساتھ ہی ایک اہم اور قدامت پسند گھرانے میں ہوئی

ان کی وزرت عظمیٰ کا پہلا دور ہنگامہ خیز رہا۔ کئی سکینڈلز اور اختلافات سامنے آئے اور انہیں اچانک استعفیٰ دینا پڑا

ابتدائی طور پر یہ کہنے کے بعد کہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے رہے ہیں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ ایک بیماری میں مبتلا ہیں جس کی تشخیص بعد میں آنتوں کے مرض کے طور پر ہوئی

آنتوں کی بیماری کے لیے مہینوں جاری رہنے والے علاج کی ضرورت تھی لیکن آبے کا کہنا تھا کہ نئی دوائیوں کی مدد سے مرض پر آخرکار قابو پا لیا گیا ہے۔ وہ پھر سے میدان سیاست میں اترے اور2012 میں دوبارہ جاپان کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے

ان کے انتخاب سے اس ہنگامہ خیز دور کا خاتمہ ہو گیا جس کے دوران محض ایک سال کے عرصے میں کئی وزرائے اعظم تبدیل ہوئے

جاپان اب بھی 2011 کے سونامی اور اس کے نتیجے میں فوکوشیما میں ہونے والی جوہری تباہی اور اپوزیشن کی تھوڑے عرصہ رہنے والی حکومت جسے نااہلی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کے فیصلوں کے اثرات سے باہر نہیں نکلا

اس وقت شینزو آبے نے یہ پیشکش کی کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے

اپنے پورے دور میں انہوں نے سیاسی طوفانوں کا سامنا کیا، جن میں اقربا پروری کے الزامات بھی شامل ہیں جن سے ان کے فیصلوں کی پسندیدگی کی درجہ بندی متاثر ہوئی لیکن ان کی طاقت پر کوئی اثر نہیں ہوا جس کی جزوی اپوزیشن کا کمزور ہونا تھا

شینزو ایبے کو 2021 کے آخر تک عہدے پر برقرار رہنا تھا جس سے انہیں اپنے تاریخی دور کا آخری ایونٹ دیکھنے کا موقع ملتا جو ملتوی ہونے والے 2020 کے ٹوکیو اولمپک کھیل ہیں لیکن انہوں نے 2020 میں اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح دوبارہ آنتوں کے عارضے میں مبتلا ہو جانے کے سبب ان کی وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور بھی ختم ہو گیا

طویل عرصے تک جاپان کے وزیر اعظم رہنے والے شنزو آبے کے قتل کو جدید جاپان کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے

شنزو آبے کو 8 جولائی کی صبح ساڑھے گیارہ بجے دارالحکومت ٹوکیو سے تین سو کلو میٹر کی مسافت پر واقع چھوٹے سے شہر نارا میں ہونے والے ایک چھوٹے جلسے میں ایک ملزم نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جنہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے

جبکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے شنزو آبے پر فائرنگ کرنے والے شخص نارا شہر کے رہائشی اکتالیس سالہ یاماگامی ٹیٹسویا (Yamagami Tetsuya) کو جائے واردات سے ہی گرفتار کر لیا

پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مطابق ملزم نے سابق وزیر اعظم کو قتل کرنے کے لیے ہاتھ سے گھر میں ہی ہتھیار تیار کیا اور وہ شنزو آبے کی کارکردگی سے ناخوش تھے اور انہوں نے ابتدائی طور واضح اعتراف کیا کہ وہ سابق وزیر اعظم کو قتل کرنا چاہتے تھے

شنزو آبے نارا شہر میں اپنی جماعت کے ایک رکن کی حمایت کے لیے تقریر کرنے پہنچے تھے، کیوں کہ 10 جولائی کو وہاں ایوان بالا کے انتخابات ہونے تھے

شنزو آبے کے قتل پر نہ صرف جاپانی بلکہ دنیا بھر کے لوگ صدمے میں ہیں اور زیادہ تر افراد اس بات پر حیران ہیں کہ جاپان جیسے ملک میں بھی سیاستدانوں پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں

اگرچہ شنزو آبے سے قبل بھی متعدد سیاستدانوں پر حملے کیے جا چکے ہیں اور چند نامور سیاستدان اور حکومتی عہدیدار قاتلانہ حملوں میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں، تاہم ان کے قتل کو جدید تاریخ کا المناک ترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

’شنزو آبے سے قبل آخری بار 15 سال پہلے 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ناگاساکی شہر کے میئر کو قتل کیا گیا تھا

’این ایچ اے‘ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2007 میں جرائم پیشہ گروہ کے ایک کارندے نے ناگاساکی کے میئر کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا

اس سے پہلے 1995 میں ٹوکیو میں نیشنل پولیس ایجنسی کے کمشنر کو ان کی رہائش گاہ کے سامنے نشانہ بنایا گیا تھا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے

اس سے قبل 1994 میں ٹوکیو میں ہی سابق جاپانی وزیر اعظم موریہیرو ہوسیکارا کو پر حملہ کیا گیا تھا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے مگر وہ موت کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے

اسی طرح 1992 میں بھی ٹوکیو میں ہی ایک سیاسی جماعت کے سینیئر رہنما پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا، جس میں شدید زخمی ہوگئے تھے

یوں 1990 میں ناگاساکی شہر میں اس کے میئر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا مگر وہ بھی اس میں محفوظ رہے تھے

جاپان کی تاریخ میں گزشتہ چار دہائیوں میں اب تک سب سے ہائی پروفائل قتل شنزو آبے کا ہے، جسے 8 جولائی کو جلسے میں نشانہ بنایا گیا

اسی طرح جدید جاپانی تاریخ یعنی 1950 کے بعد اب تک بھی شنزو آبے کے قتل کے واقعے کو سب سے المناک واقعہ قرار دیا جا رہا ہے

شنزو آبے سے قبل 1960 میں ٹوکیو میں ہی اس وقت کے مقبول سیاستدان انیجیرو اسانوما (Inejiro Asanuma) کو تلوار سے حملہ کرکے ہلاک کیا گیا تھا

ٹیکنالوجی سے لیس جاپان جیسے ملک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے پاک ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں وہاں قتل اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے

اس وقت تک جاپان بھر میں فائرنگ سے سالانہ ایک درجن کے قریب اموات رپورٹ ہوتی ہیں، تاہم وہاں گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف شکلوں میں تشدد کو بڑھتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے

جاپان میں منظم تشدد اور دہشت گردی کا تازہ واقعہ 2019ع میں اس وقت پیش آیا تھا، جب کہ ایک شخص نے اینمیشن اسٹوڈیو کو آگ لگادی تھی، جس میں 36 افراد جھلس کر جاں بحق ہوئے تھے

اسی طرح 2008 میں بھی ایک ٹرک ڈرائیور کی جانب سے لوگوں کے اوپر گاڑی چلانے سے 7 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close