”لوگوں نے مجھے بہت کہا کہ ٹرک کو جلتا چھوڑ دو اور اپنی جان بچاؤ، لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اس سے نہ صرف دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا بلکہ گاڑی بھی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی، جس کی ابھی مشکل سے صرف ایک قسط کی ادا کی ہے“
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور محمد ریاض کا، جنھوں نے مہارت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلتے ٹرک کو آبادی والے علاقے سے دور لے جاکر نہر میں اتار دیا
ٹرک کی وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ ٹرک میں لدی شالی میں لگی ہے اور پورا ٹرک تیزی کے ساتھ آگ کی لپیٹ میں آ رہا ہے
ٹرک کے ڈرائیور محمد ریاض نے بتایا ”ٹرک کے آگ کی وجہ سے تین موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا اور اگر میں اس کو جلتا چھوڑ دیتا تو اس سے انسانوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ املاک کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا تھا“
وائرل ہونے والی وڈیو میں چلتے ٹرک کے اوپر کے حصے میں آگ لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے
ٹرک کے سامنے سفید رنگ کی ایک گاڑی مخالف سمت سے آرہی ہے لیکن اس گاڑی کے کراس کرنے سے پہلے پہلے ہی ٹرک کو ڈرائیور نے پٹ فیڈر نہر کے اندر اتار دیا
وڈیو میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرک نہر کے اندر الٹ جائے گا لیکن ٹرک الٹنے سے بچ جاتا ہے پہ اور نہر کے اندر جاکر رُک جاتا ہے
نہر کے اندر پانی میں پہنچنے سے پہلے ٹرک بائیں جانب لڑھک گیا، جس کے باعث جلنے والی شالیوں کا بہت بڑا حصہ ٹرک کے باہر نہر میں گر گیا اور آگ کے بہت بڑے شعلے بلند ہوئے
ایک اور وڈیو میں یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ جلتی شالیاں ٹرک کے فرنٹ پر بھی گر گئی ہییں
تیس سالہ ٹرک ڈرائیور محمد ریاض نے بتایا ”میں نے ٹرک میں بالاں شاخ کے علاقے سے شالی لوڈ کی تھی اور پھر اسے یہاں سے کوئٹہ لے جانا تھا۔ میث راستے میں ایک پیٹرول پمپ کے پاس رک گیا اور اتر کر گاڑی کے نیچے ٹائر وغیرہ کو چیک کیا کیونکہ اس کے بعد مجھے کوئٹہ کے طویل سفر پر نکلنا تھا“
انھوں نے بتایا ”میں گاڑی کے نیچھے معائنہ کر رہا تھا کہ روڈ سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ ٹرک میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مجھے بالکل پتہ نہیں چلا کہ ٹرک میں موجود شالی میں آگ کیسے لگی معلوم نہیں کسی نے جلتا سگریٹ پھینکا یا کسی نے جان بوجھ کر آگ لگائی“
انھوں نے بتایا کہ چونکہ ٹرک شالی سے لوڈ تھا جن میں آگ تیزی سے پھیل رہی تھی اس لیے آگ کو بجھانے کی کوشش کرنے یا فائر بریگیڈ کا انتظار کرنے کے بجائے وہ گاڑی کے اندر بیٹھ گئے اور اس کو آبادی سے دور لے جانے کی کوشش کی
محمد ریاض کا کہنا تھا ”آگ کو دیکھ کر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور ان میں سے بعض نے مجھے مشورہ دیا کہ گاڑی سے اترو اور اپنی جان بچاﺅ۔ لیکن ایسا کرنے سے نقصان کا اندیشہ بہت زیادہ تھا اس لیے میں نے ایسا نہیں کیا“
ڈارئیور کے مطابق ”قریب میں پیٹرول پمپ کے علاوہ بڑی تعداد میں دکانیں اور ہوٹلز بھی تھے۔ چونکہ مغرب کا وقت تھا اس لیے گرمی کی شدت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہوٹل کے باہر بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ گیس کی پائپ لائن بھی قریب تھی جبکہ مغرب کی نماز کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے پیٹرول پمپ کے ساتھ مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی“
محمد ریاض نے کہا ”وہاں آگ کے پھیلنے کی وجہ سے جو بہت بڑا نقصان ہو سکتا تھا، میں اس کا رسک نہیں لے سکتا تھا، کیونکہ لوگوں کو نقصان سے بچانے کی کوشش کے باوجود تین موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا۔ دو موٹر سائیکلوں پر جلتی شالی گرگئی تھیں جبکہ جلدی میں ٹرک کو نکالتے ہوئے یہ تیسرے موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا تھا“
ان کا کہنا تھا ”جن موٹر سائیکلوں کو آگ سے نقصان پہنچا تھا ان میں سے ایک پچیس ہزار روپے مانگ رہا ہے جبکہ دوسرا پینتیس ہزار روپے کا مطالبہ کر رہا تھا اس کو بمشکل تیس ہزارروپے پر راضی کیا“
اور اس کے علاوہ تیسری موٹر سائیکل جس سے ٹرک ٹکرا گیا تھا وہ اب بھی ٹرک میں موجود ہے اور اس کا مالک کہہ رہا ہے کہ اگر تاوان نہیں دے سکتے ہو تو اس کی مرمت کرا کر دو
محمد ریاض نے بے بسی سے کہا ”اندازہ لگائیں کہ اگر گاڑی سے وہاں لوگوں، پیٹرول پمپ اور دکانوں کو نقصان پہنچتا تو میں ان کا نقصان کہاں سے پورا کرسکتا تھا اس لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر گاڑی کو وہاں سے نکال لیا“
محمد ریاض نے کہا کہ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ جس مقام پر ٹرک کو آگ لگی پٹ فیڈر نہر اس کے ساتھ ہے
انھوں نے بتایا ‘اگر میں ٹرک کو آبادی سے نکال کر کہیں چھوڑ دیتا تو بھی آگ پورے ٹرک کو تباہ کر کے رکھ دیتی، جس کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ٹرک کو نہر میں اتار دوں’
محمد ریاض کے مطابق ‘اگر میں ٹرک کو کسی میدانی علاقے میں چھوڑ دیتا اور اگر وہاں آگ پر قابو نہیں پایا جاتا تو ٹرک کے بچنے کا شاید ایک فیصد بھی چانس نہیں تھا کیونکہ ٹرک کی باڈی لکڑی کی ہے اور آگ اس کو بھسم کرنے میں دیر نہیں لگاتی’
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ان کے پاس ٹرک کو نہر میں گرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا
ریاض نے نہر میں گاڑی کو گرانے کے لیے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا، جہاں سے گاڑی کی باڈی کو کم سے کم نقصان پہنچ سکتا تھا
انہوں نے کہا ”وہ لمحہ بہت عجیب تھا جب ٹرک نہر میں لڑھکنے لگا اور میں سمجھا کہ جب نہر میں قلابازی کھاتا ہوا ٹرک گرے گا تو مجھے نقصان ہوگا لیکن میں حیران ہوگیا کہ ٹرک چلتا ہوا نہر کے اندر پہنچ گیا“
ریاض کا کہنا تھا ”آپ وڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ آگ کے شعلے کتنے بلند تھے چونکہ آگ زیادہ تھی اس لیے میں نے ٹرک سے فوری طور پر نکلنے کی کوشش کی، جس کے دوران میرا یک پیر کسی گرم لوہے وغیرہ سے لگ گیا، جس کی وجہ سے اس پر آبلہ پڑ گیا“
انہوں نے کہا کہ لوگ چونکہ پہلے ہی سے ٹرک میں آگ کو دیکھ رہے تھے اس لیے وہ نہر میں آئے اور نہر سے ٹرک پر پانی پھینکنا شروع کیا۔ محمد ریاض کے مطابق اگرچہ میں نے کسی کو فون نہیں کیا تھا لیکن کچھ دیر بعد سرکار کی جانب سے پانی کا ٹینکر آیا اور اس طرح ہم نے ٹرک میں لگی آگ پر مکمل قابو پا لیا
محمد ریاض کا کہنا تھا کہ یہ ٹرک میرا ذاتی نہیں ہے بلکہ میرے چچازاد بھائی کا ہے۔ میں اسے بطور ڈرائیور چلاتا ہوں۔ یہ پرانے زمانے کا ٹرک ہے جسے کچھ عرصہ پہلے قسط پر تیس لاکھ روپے میں خریدا گیا تھا۔ ابھی تک اس کی آٹھ لاکھ روپے کی صرف ایک قسط کی ادائیگی کی گئی تھی جبکہ دوسری قسط عید کے بعد دینی ہے
”اب اللہ تعالیٰ نے ٹرک کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچالیا لیکن اگر خدانخواستہ یہ مکمل طور پر تباہ ہوجاتا تو پھر میں حیران ہوں کہ ہم گاڑی کی باقی قسطیں کس طرح ادا کرتے“
محمد ریاض کہتے ہیں ”ٹرک کو بہت زیادہ نقصان پہنچنے سے میرے خاندان کے لوگ بہت بڑی مالی پریشانی کا شکار ہوتے اس لیے میں نے دیگر لوگوں کو نقصان سے بچانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ٹرک کو بھی نقصان سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی“