اس ہفتے ملک کے شمالی علاقہ جات میں کئی مقامات پر شدید سیلابی ریلے دیکھنے میں آئے، ماہرین اس کی وجہ شدید گرمی کی لہر میں تیزی سے گلشیئرز کے پگھلنے کو قرار دیتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیلابی ریلے اس قدر تیز تھے کہ یہ بہت سے علاقوں میں اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر اور مٹی کے تودے بہا کر لے گئے
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں گلگت، بلتسان اور خیبر پختونخواہ کے اضلاع شامل ہیں
حکام کے مطابق گلگت بلتستان میں سات افراد ہلاک ہوئے اور ساٹھ مکانات کے منہدم ہونے کے علاوہ سات پل بھی سیلاب میں بہہ گئے
صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی کچھ سڑکوں اور پُلوں کو نقصان پہنچا اور ایک مقام پر پہاڑوں سے گرنے والی چٹانوں اور تودوں کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے دریا کا بہاؤ رکا رہا
گلگت بلتستان کے قدرتی آفات سے بچاؤ کے ادارے کے سربراہ کمال قمر کہتے ہیں ”اس علاقے میں اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ سیلابی ریلے ایک نیا ریکارڈ ہے۔ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بہت نقصان ہوا ہے اور کئی مقامات پر سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں“
واضح رہے کہ گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جن میں سے کچھ کا شمار، قطب شمالی و جنوبی کے بعد دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئرز میں ہوتا ہے
اس خطے میں تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں، جن میں ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم شامل ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو بھی اسی علاقے میں ہے
حکام کے مطابق رواں سال جولائی کے پہلے ہفتے میں درجہء حرارت غیر متوقع طور پر بہت زیادہ رہا، جس سے بلند چوٹیوں پر پڑی برف غیر معمولی تیزی سے پگھلی
گلگت بلستان میں محکمۂ موسمیات سے منسلک، ڈاکٹر فرخ بشیر کا کہنا ہے ”گذشتہ ہفتے درجۂ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ سے 43 ڈگری تک پہنچ گیا تھا جو کہ ایک غیر معمولی بات تھی، کیونکہ سال کے اِن دنوں میں درجۂ حرارت 36 سے 38 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہنا چاہیے“
اگرچہ شمالی علاقوں میں سیلاب میں کچھ ٹھہراؤ آ گیا ہے، لیکن حکام کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں خیبر پختونخواہ کے پہاڑی اضلاع میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے مزید سیلاب آ سکتے ہیں
پختونخواہ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مسٹر راشد غفور کے مطابق ”ابھی تک گرمی کی لہر ختم نہیں ہوئی اور اگر یہ آئندہ کچھ دن جاری رہتی ہے تو ہمیں خدشہ ہے کہ علاقے میں مزید سیلاب آ سکتے ہیں“
ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بہت سے گلیشیئر یا تو سُکڑ گئے ہیں یا ان کی تہہ پتلی ہو گئی ہے
اس کے علاوہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے کئی مقامات پر جھیلیں بھی بن رہی ہیں، جن میں سے کچھ میں گرمی کے موسم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے، جس سے ان کے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور نشیبی علاقوں میں اچانک سیلاب آ جاتے ہیں
ممکنہ طور پر ملک کے شمالی علاقے جات میں بھی گذشتہ ہفتے اسی قسم کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی اور لوگوں کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا
ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ پگھلنے والا گلیشیئر جھیلوں کے بہت قریب ہو، تاہم ہوتا یہ کہ دوسرے گلیشیئرز کے پگھلنے سے بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں لڑھک کر نیچے آ جاتے ہیں اور یوں پانی کے ریلے راستے میں آنے والے تودوں کو بھی ساتھ بہا کر لے جاتے ہیں
بہت سے گلیشیئرز دراصل مٹی کے بڑے بڑے تودوں اور ٹوٹی پھوٹی چٹانوں پر بہت عرصے تک برف کے جمے رہنے سے بنتے ہیں اور درجۂ حرارت میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ اور عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے جب یہ گلیشیئر پگھلتے ہیں تو اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھروں، چٹانوں، ریت اور مٹی کو بہا لے جاتے ہیں
ڈاکٹر فرخ بشیر کہتے ہیں ”ہم اس قسم کے بہاؤ کو ’ہائپر کنسنٹریٹِڈ‘ بہاؤ کہتے ہیں۔ یہ اصل میں ٹوٹی پھوٹی چٹانوں کا کچرا ہوتا ہے، جس کے اوپر برف جم چکی ہوتی ہے اور جب ان گلیشیئرز سے پانی پگھل کر تیزی سے نکلتا ہے تو یہ تمام مواد نشیبی علاقوں کی جانب سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔ اس قسم کے ’ہائپر کنسنٹریٹِڈ‘ سیلاب زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو زیادہ زور سے دھکیلتے ہیں، جس سے تعمیرات کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور زمین کا کٹاؤ زیادہ ہو جاتا ہے“
انہوں نے کہا ”گرمیوں کے موسم میں تو ایسا ہوتا ہی ہے، لیکن اس مرتبہ جو چیز غیر معمولی ہے وہ یہ ہے کہ اتنے کم وقت میں بہت زیادہ سیلابی ریلے آئے ہیں“
حالیہ برسوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ کے مختلف مقامات پر تین ہزار چوالیس جھیلیں بن چکی ہیں، جن میں سے تینتیس میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں
اقوام متحدہ کا ترقیاتی ادارہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر ان خطرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں 71 لاکھ افراد اس قسم کی قدرتی آفات سے متاثر ہو سکتے ہیں
یو این ڈی پی پاکستان سے منسلک ماہرِ ماحولیات حمید احمد کا کہنا ہے ”سنہ 2000ع سے بعد کے دو عشروں میں صرف چترال میں جھیلوں کے اچانک پھٹنے یا گلوب (گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ) کے پندرہ سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں، اس کے مقابلے میں سنہ 1970ع اور سنہ 1999ع کے درمیان ایسے صرف چار واقعات ہوئے تھے“
حمید احمد کہتے ہیں ”یہ جھیل پھٹنے کے واقعات کی زیادہ تعداد نہیں جو فکرمندی کی بات ہے، بلکہ جو چیز پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ اب جھیلیں بہت شدت سے پھٹ رہی ہیں۔ ہر سال اس میں مزید شدت آتی جا رہی ہے“
گذشتہ کئی برسوں میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئر والی جھیلوں کے پھٹنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس ان واقعات کا مکمل ریکارڈ نہیں ہے، تاہم ان میں سے پینتالیس کوہ ہمالیہ کے مشرقی علاقے میں پیش آئے تھے۔