پاکستان کے سرکاری نظام میں کچھ عہدے ایسے ہیں جن پر تعیناتی سے ملنے والی مراعات اور رہن سہن انیسویں صدی کے برصغیر کے کسی راجہ سے کم نہیں
یہ عہدے ہیں ان ڈویژنز اور اضلاع میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے جہاں آج بھی برطانوی دور کے عالی شان بنگلے اپنے اپنے ’لاٹ صاحب‘ کے منتظر ہوتے ہیں
کئی کئی ایکڑ پر مشتمل ان سرکاری رہائش گاہوں کے پیچھے نوآبادیاتی دور کی کئی کہانیاں موجود ہیں
اس وقت صوبہ پنجاب میں سب سے بڑی رہائش گاہ کمشنر سرگودھا کا سرکاری گھر ہے، جو سرکاری کاغذات کے مطابق 104 کنال یعنی تیرہ ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے
صوبہ پنجاب میں ہی دوسری بڑی سرکاری رہائش گاہ ڈی سی ساہیوال کے پاس ہے، جو کہ 98 کنال پر محیط ہے
اس حوالے سے سابق بیوروکریٹ خواجہ ظہیر کہتے ہیں ”ان رہائش گاہوں کے وسیع و عریض رقبے کے پیچھے برطانوی راج کی اپنائی گئی خاص حکمت عملی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بیوروکریسی کو نوازنے کے لیے عالی شان بنگلوں اور رہائش گاہوں کا انتظام کیا جاتا ہے، لیکن ایسا ہے نہیں“
انہوں نے کہا ”جب انگریز نے برصغیر پر قبضہ کیا اور خاص طور پر جب پنجاب میں حکومت قائم کر لی تو اس وقت حکومت کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک نظام وضع کیا گیا، جس کے ذریعے کمشنریٹ سسٹم وجود میں آیا“
خواجہ ظہیر کے مطابق ”کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنیادی طورپر اتنظامی یونٹس کے سربراہ تھے۔ ان کی رہائش گاہوں کو خود کفیل بنایا گیا کہ انہیں کسی بھی چیز کے لیے باہر نہ جانا پڑے۔ گھوڑوں کے اصطبل، مویشیوں کا باڑہ، کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور اور ان کی رہائش گاہیں سب اندر ہی پائے جاتے تھے۔ کھیتوں میں ہی گندم چاول اور سبزیاں اگانے کے انتظامات تھے۔ اسی طرح گوشت کے لیے پرندے اور جانور۔ تو یہ خود کفالت کا ایک پائیدار ماڈل تھا۔ اس پورے پیکج میں ملازمین کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان افسروں کے لیے رہائش گاہیں شہروں سے تقریباً باہر اور بہت بڑے رقبوں پر تیار کی جاتی تھیں“
ایک اور سابق بیوروکریٹ سلمان فاروقی، جو خود بھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے ”جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت انگریز دور کا تمام نظام مستعار لیا گیا۔
جب سب ’کچھ جو ہے جیسا ہے‘ کی بنیاد پر انگریز سے حصے میں آیا تو بڑے شہروں جیسے لاہور وغیرہ میں واقع کمشنر اور ڈی سی کی رہائش گاہوں کو وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹا کیا جاتا رہا اور باقی افسروں کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ لیکن جن اضلاع میں افسر کم ہوتے ہیں، وہاں وہی پرانی عمارتیں ویسے ہی چلائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن اب یہ سائز میں بڑی ہونے کے باوجود خود کفیل نظام کے تحت نہیں چلتے“
سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 403 ارب 11 کروڑ روپے مالیت کی 8 ہزار 975 کنال اراضی پر عالی شان سرکاری رہائش گاہیں اور بنگلے قائم ہیں
سابق وزیراعظم عمران خان نے جب 2018ع میں عہدہ سنبھالا تو انہوں نے ریاستی اخراجات پر بچت کے لیے ان تمام بڑی رہائش گاہوں کی تفاصیل طلب کی تھیں۔ سابق حکومت نے ان سرکاری زمینوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا تاہم پھر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کمشنریٹ نظام 2001ع میں ختم کیا، جس سے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بھی ختم ہوگیا۔ ان کی جگہ پر ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن افسران کو تعینات کیا گیا۔ تاہم سابق وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے یہ نظام 2016ع میں یہ کہہ کر بحال کر دیا کہ یہ زیادہ عوامی مفاد کا حامل نظام ہے
سلمان فاروقی کہتے ہیں ”گزشتہ چند سالوں سے یہ خبریں بہت تواتر سے چلائی گئیں کہ سرکاری افسر شاہانہ رہائش گاہوں میں رہتے ہیں، لیکن یہ ایک ضرورت بھی ہے۔ اگر آپ ایک ڈپٹی کمشنر کو ساہیوال بھیجیں گے تو کیا وہ وہاں اس لیے سرکاری رہائش گاہ میں نہ رہے کہ وہ انگریز دور کی عالی شان عمارت ہے؟ یا وہ خود سے بیچ دے؟ اس نے پتا نہیں وہاں سال رہنا ہے یا دو یا حد تین سال تو یہ اس کی ملکیت نہیں ہے۔ نہ وہ اپنی مرضی سے وہاں رہ رہا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی وضع کرے اور اگر ان رہائش گاہوں کا کوئی اور مصرف ہے تو اس کو عمل میں لائیں“
سابق بیوروکریٹ خواجہ ظہیر کے مطابق ”ان رہائش گاؤں میں برطانوی طرز کا نظم و نسق اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں جو افسران یہاں رہائش پذیر ہوتے ہیں، ان کی طبیعت پر زیادہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیسا رہن سہن چاہتے ہیں۔ کئی افسران اب بھی ان گھروں کی ملحقہ زمین پر چھوٹی موٹی کاشتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ کئی بالکل بھی نہیں دیتے۔ اور کئی تو یہ زمین ٹھیکے پر بھی دے دیتے ہیں۔ ماڈرن لائف اسٹائل نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ اب نہ تو اس طرح سے ملازمین کی فوج در فوج موجود ہے اور نہ ہی خود کفالت کا کوئی ماڈل چل رہا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ بڑے بڑے گھر ہیں جب تک ان کا مصرف نہیں بدلتا تو یہ ایسے ہی چلتے رہیں گے“