موت کا سبب بننے والی زہریلی کھمبیوں کی کچھ اقسام

ویب ڈیسک

بھارت میں مشروم یعنی کھمبیاں کھانے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بہت سی گھر میں اگائی جانے والی سبزیوں کی جگہ لے رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ دکانوں سے کھمبیاں خریدنے کے بجائے خود جا کر جنگل سے لے آتے ہیں

ایسے میں کئی بار کھمبی کی زہریلی اقسام سے موت کی خبریں بھی منظر عام پر آتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ معاملہ شمال مشرقی ریاست آسام سے سامنے آیا ہے جہاں زہریلی کھمبیاں کھانے سے تیرہ افراد ہلاک ہو گئے

آسام میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (اے ایم سی ایچ) کے صدر ڈاکٹر پرشانت دیہنگیا کہتے ہیں ”تمام متاثرین نے اپنے گھروں میں جنگلی زہریلی کھمبیوں کو عام کھمبیوں کی طرح کھایا تھا“

ڈاکٹر دیہنگیا کا کہنا ہے ”ان سب کو اس مشروم کو کھانے کے بعد متلی، قے اور پیٹ میں درد کی شکایت تھی۔ جب ان کی صحت خراب ہونے لگی تو انہیں علاج کے لیے ہسپتال لایا گیا“

انہوں نے بتایا ”ایسے کیسز ہر سال آتے ہیں اور زیادہ تر کیسز چائے کے باغ کے علاقوں سے آتے ہیں۔ اکثر لوگ جنگلی کھمبیوں اور عام کھمبیوں میں فرق نہیں کر پاتے اس لیے وہ غلطی سے زہریلی کھمبیاں کھا لیتے ہیں“

ڈاکٹر دیہنگیا نے کہا کہ اس بارے میں لوگوں میں آگاہی کی ضرورت ہے، لیکن فی الحال اس ضمن میں زیادہ کام نہیں ہو رہا

زہریلی کھمبیاں کھانے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر دیہنگیا نے کہا ”کچھ مشروم ایسے ہوتے ہیں جو جگر اور گردے کو متاثر کرتے ہیں۔ بعض اوقات مریض بہت دیر سے ہسپتال پہنچتے ہیں اور ادویات لینے کے باوجود زندہ نہیں رہ پاتے“

انیوں نے بتایا کہ بعض صورتوں میں مشروم کے زہر کا اثر جسم میں فوری طور پر نہیں ہوتا لیکن چار پانچ دن کے بعد اس کا اثر آہستہ آہستہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے

انڈین کاؤنسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کے ’انڈین فارمرز ڈائجسٹ‘ کے مطابق، زیادہ تر معاملات میں ایک جیسے رنگ اور شکل کی وجہ سے زہریلے مشروم کی شناخت کرنے میں غلطی ہو جاتی ہے

ان میں پایا جانے والا سب سے خطرناک مادہ ایمانیٹین ہے۔ یہ ڈیتھ کیپ اور ڈیسٹرائنگ اینجل نامی مشروم میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ چھوٹے بھورے مشروم میں بھی پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر اموات مشروم میں موجود اس ایمانیٹین کی وجہ سے ہوتی ہیں

زہریلی کھمبیوں کی شناخت میں غلطی کی وجہ

آئی سی اے آر کے مطابق زہریلے مشروم کی شناخت مشکل ہے۔ کھمبیوں سے متعلق کچھ مفروضے ہیں جن کی مدد سے لوگ عام طور پر زہریلی کھمبیوں کا پتہ لگانے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن مقالے کے مطابق ان مفروضوں کی بنیاد پر زہریلی کھمبیوں کا یقینی طور پر پتہ نہیں لگایا جا سکتا

ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ کھمبی کے رنگ سے یہ معلوم کیا جائے کہ کھمبی زہریلی ہے یا نہیں

خیال کیا جاتا ہے کہ چمکدار رنگ کے مشروم زہریلے ہوتے ہیں لیکن دنیا میں زیادہ تر زہریلی کھمبیاں بھوری یا سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ ڈیسٹرائنگ اینجل کا رنگ بالکل سفید ہوتا ہے۔ ایمانیٹین پر مشتمل مشروم کا رنگ روشن نارنجی یا سفید ہو سکتا ہے

لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب زہریلی کھمبیاں چاندی سے ملائی جاتی ہیں تو چاندی کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے لیکن یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی

اس کے ساتھ ساتھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مشروم کیپ یعنی مشروم کا ٹوپی نما بالائی حصہ اگر نوکیلا ہو تو وہ زہریلی ہوتی ہے لیکن اگر ڈیتھ کیپ مشروم کی بات کریں تو اس کی شکل نوکیلی نہیں بلکہ گول ہوتی ہے

احتیاط

کلینکل نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر نوپور کا کہنا ہے کہ بعض اوقات لوگ مشروم کو اسٹارٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور لوگ مشروم کے پکوان الکحل کے ساتھ کھاتے ہیں جو خطرناک ہو سکتا ہے

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات عام کھمبیاں کھانے سے بھی فوڈ پوائزننگ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ”سات سال سے کم عمر کے بچوں کو مشروم نہیں دینا چاہیے کیونکہ ان میں ایسے انزائمز نہیں ہوتے جو اس وقت تک مشروم کو ہضم کر سکیں“

ڈاکٹر نوپور کہتی ہیں ”اگر آپ بازار سے مشروم بھی خریدیں تو انہیں سخت ہونا چاہیے۔ اس میں کسی قسم کی نمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ مشروم کو پلاسٹک میں نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ مشروم کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں“

وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگر آپ تازہ کٹی ہوئی مشروم لائے ہیں تو اسے اڑتالیس گھنٹے کے اندر کھا لینا چاہیے

اگر آپ مشروم جنگل سے توڑ رہے ہیں تو بہتر یہی ہے صرف وہی مشروم کھائیں جو عام طور پر استعمال ہوتے ہیں، غیر معروف مشروم استعمال کرنے سے گریز کریں

مشروم اتنے خاص کیوں ہیں؟

ڈاکٹر نوپور نے بتاتی ہیں کہ مشروم ایک فنگس ہے جو بیکٹیریا پیدا کرتا ہے، جو ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔ مشروم مٹی یا لکڑی پر اگتا ہے

مشروم کئی سالوں سے کھائے جا رہے ہیں۔ ان دنوں یہ اور بھی زیادہ مقبول ہے کیونکہ اسے صحت کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کولیسٹرول اور چکنائی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ پوٹاشیم، وٹامن ڈی، فائبر، سیلینیم جیسے غذائی اجزاء بھی مشروم کے اندر موجود ہوتے ہیں

یہ قوت مدافعت کو بہتر کرتا ہے۔ کچھ اقسام ایسے ہیں کہ جو ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کو روک کر کینسر سے لڑنے والی دیوار بناتے ہیں

کچھ ایسے شواہد بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ کھمبیاں الزائمر جیسی بیماریوں سے لڑنے میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

کھمبیوں کی دو ہزار سے زیادہ اقسام ہیں، لیکن ان میں سے صرف پچیس انواع کو کھایا جا سکتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close