بچوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا شعور بیدار کرنے کی انوکھی کوشش

نیوز ڈیسک

کراچی – رومانہ حسین کئی برس سے کہانیوں اور ڈرائنگ کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بچوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے وہ کورونا وبا کے دوران بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے دو سو سے زائد آن لائن سیشنز بھی منعقد کرا چکی ہیں

رومانہ حسین کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف مصنفہ اور مصورہ ہیں، جو گزشتہ کئی عشروں سے بچوں کے لیے ماحولیات سے متعلق موضوعات پر کتابیں تحریر کر رہی ہیں۔ ان کتابوں کے لیے ڈرائنگز اور السٹریشن بھی وہ خود بناتی ہیں۔ رومانہ حسین اب تک کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکی ہیں، جن میں جنگ لٹریری ایوارڈ 2014ع قابل ذکر ہے۔ رومانہ کو یہ ایوارڈ ان کی کتاب "لال بادام” پر دیا گیا، جو اب تک پانچ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے

نیپالی مصنفہ بدھی ساگر کے ساتھ لکھی گئی رومانہ کی مشترکہ کتاب ”پریرنا اور لال پیلا‘‘ کو نیپال سوسائٹی فار چلڈرن لٹریچر سے سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے

بچوں میں ماحولیاتی شعور بیدار کرنے کے خیال کے بارے میں رومانہ حسین کہتی ہیں ”میں اکثر نوٹ کرتی تھی کہ سلیبس کی کتابوں جیسے جغرافیہ یا معاشرتی علوم وغیرہ میں بچوں کو جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے، اس کا ان کی زندگی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے. یا تو ایسا ہو کہ بچوں کو ان جگہوں پر لے جا کر ان سے متعارف کروایا جائے یا لیبارٹریز میں ہی تجربات کروائے جائیں مگر ہمارے اسکولوں میں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے اور بچے بغیر سمجھے بس رٹے لگا لیتے ہیں‘‘

ماحولیات پر رومانہ سمیت کئی اور مصنفین نے بھی ٹیکسٹ بکس لکھی ہیں، جو ابھی تک اسکولوں کے باقاعدہ نصاب کا حصہ نہیں بنیں

رومانہ کے مطابق ان کا آئیڈیا یہ تھا کہ بچے چونکہ کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تو ماحولیات سے متعلق مسائل انہیں کہانیوں کے ذریعے سمجھائے جائیں

ماحولیات پر تحقیق سے نئی چیزیں رومانہ کے علم میں آئیں جیسے جنگلات کی کٹائی، پلاسٹک کی آلودگی کے نقصانات وغیرہ۔ وہ ان موضوعات پر مکمل تحقیق کر کے سادہ اور دلچسپ انداز میں کہانیاں لکھتی ہیں تاکہ بچوں تک بالکل درست حقائق پہنچائے جائیں اور وہ یہ سمجھ سکیں کہ زمین اور خود انسانی زندگی کو کون سے خطرات کا سامنا ہے

رومانہ حسین نے بتایا کہ وہ اَسی کی دہائی سے ماحولیات پر کتابیں تحریر کر رہی ہیں اور کراچی کے ایک پرائیویٹ اسکول کے لیے تیسری سے چھٹی جماعت تک ماحولیات کا نصاب بھی لکھ چکی ہیں، جہاں وہ اس دور میں پڑھایا کرتی تھیں۔ اس نصاب میں اساتذہ کے لیے مکمل گائڈ لائنز اور ورک شیٹ بھی شامل تھی

ماحولیات پر لکھی گئی رومانہ کے دیگر کتابوں میں رانی اور سیلاب، کالا بھوت (موضوع: پلاسٹک پولوشن)، کھوں، کھوں، کھوں (موضوع: فضائی آلودگی سے کھانسی اور دیگر وبائی امراض)، لال بادام، حسن کی گلی، ڈاکٹر اختر حمید خان وغیرہ شامل ہیں

رومانہ حسین نے بتایا کہ کہانیوں کی یہ کتابیں بچوں میں کافی مقبول ہیں، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ بچوں کی دلچسپی کا انحصار والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول پر بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کی مثال دے کر بتایا کہ بیرون ملک مقیم ان کی بہو کتابوں کی شیدائی ہیں اور انہوں نے گھر میں چھ ہزار کتابوں کی لائبریری بنائی ہوئی ہے، جس سے گھر کے تمام بچوں میں کتب بینی کا شوق از خود پیدا ہو گیا ہے

ان کے بقول اگر گھر میں کتابیں نہ ہوں تب بھی والدین بچوں کو کتابیں لائبریری سے لینے کی تحریک دیں یا اگر رات میں انہیں خود کہانیاں سنائیں تو نا صرف بچے آئی پیڈ اور آن لائن گیمز وغیرہ سے دور رہیں گے بلکہ بتدریج ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا

رومانہ حسین کا کہنا ہے ”2020ع میں کورونا وائرس وبا کا جب آغاز ہوا تو میں امریکا میں مقیم تھی۔ تعلیمی سلسلہ معطل ہونے سے بچے گھروں پر ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ تب میں نے آن لائن ویڈیو سیشنز کا آغاز کیا، جس میں مَیں بچوں کو کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتی تھی۔“

رومانہ اپنے یوٹیوب چینل پر اب تک دو سو سے زائد وڈیوز اپ لوڈ کر چکی ہیں، جن میں وہ انگریزی ادب سے کہانیاں اردو میں ترجمہ کر کے بھی سناتی ہیں

اسی دوران انہوں نے ایمازون پر اپنی پہلی ای بک ”ایٹینی اینڈ دی اینگری ڈاٹ‘‘ بھی شائع کی، جو ایک ایسے بچے سے متعلق ہے، جو کورونا وائرس وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں اداسی اور تنہائی کا شکار ہے۔ ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے رومانہ نے اسے رائمز کی صورت میں لکھا ہے، جس میں ساتھ ہی دلچسپ السٹریشن بھی ہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اسے اردو میں بھی شائع کیا جائے گا

بچوں میں ماحولیاتی مسائل کا شعور بیدار کرنے میں والدین کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رومانہ حسین نے کہا ”میں سمجھتی ہوں کہ بچوں کو تعمیری سرگرمیوں میں مشغول کرنے کا انحصار گھر کے ماحول اور والدین کی سوچ پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ایسا موضوع ہے، جو ہماری زندگیوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے مگر معاشرے میں شعور اور آگہی کی کمی ہے. ماحول کی از خود حفاظت کے لیے کمیونٹی کی سطح پر والدین کے لیے تربیتی کورسز، ورک شاپ وغیرہ منعقد کروائی جائیں یا دفتروں میں ان موضوعات پر باقاعدگی سے سیمینارز ہوں‘‘

رومانہ نے اس سلسلے میں ایک تجویز دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق پریکٹیکل ورک کروایا جائے، انہیں فیلڈ میں لے جا کر سکھایا جائے

انبکا ماننا ہے کہ آج کل کے بچے انتہائی ذہین ہیں۔ وہ باہر سے سیکھ کر گھروں میں والدین سے شیئر کریں گے یا وہی عمل دوہرائیں گے، تو کوئی شک نہیں کہ چند سالوں میں کمیونٹی کی سطح پر بڑھتی ہوئی فضائی، پانی اور پلاسٹک کی آلودگیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close