برطانیہ نے ایک افغان شہری خاتون کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے
ہوم آفس نے جس خاتون کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی، وہ ایک ایسے افغان شہری کی بیوی ہے، جنہوں نے افغانستان میں برطانوی افواج کے ساتھ کام کیا اور ترجمان کے طور پر ان کی خدمات کو ’شاندار‘ الفاظ میں سراہا بھی گیا
افغانستان پر قابض اتحادی افواج کا حصہ برطانوی فوج کی پیسوں کے عوض مدد کرنے والے اس افغان شہری حفیظ اللہ حسین خیل کو 2014 میں قابض افواج کے خلاف برسر پیکار طالبان نے قتل کی دھمکی دی تھی
اکتیس سالہ حفیظ اللہ حسین خیل کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان قبضے کے بعد وہ اور ان کی اہلیہ کابل سے فرار ہو گئے، جس کے بعد ان کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے
وہ کہتے ہیں ”مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے دھوکہ دیا گیا۔۔ میں خوفزدہ ہوں۔“
ایک سابق فوجی افسر جو صوبہ ہلمند میں حسین خیل کے ساتھ خدمات انجام دے چکے ہیں اور انہیں’ٹیم کا ایک اہم رکن‘ قرار دیتے ہیں، نے کہا ”یہ انکار برطانیہ کی جانب سے ظالمانہ عمل ہے“
حفیظ اللہ کی پچیس سالہ اہلیہ اور اکسٹھ سالہ والدہ، جن کا وہ حفاظتی خدشات کی بنا پر نام نہیں لینا چاہتے، کابل سے فرار ہونے کے بعد جنوری 2022 سے اسلام آباد، پاکستان کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں
پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن ان کے قیام کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔حفیظ اللہ کے والد جون 2021ع میں کووڈ کی وجہ سے چل بسے تھے۔ جبکہ اں کے بہن بھائی دوسرے مغربی ممالک میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے
وزارت دفاع (ایم او ڈی) نے اکتوبر 2021 میں اشارہ دیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور والدہ افغان ری لوکیشن اسسٹنس پروگرام (اے آر اے پی) کے تحت ان سے ملنے کے لیے برطانیہ آ سکتی ہیں اس شرط پر کہ ہوم آفس ان کی ویزا درخواست منظور کر لے
تاہم ہوم آفس کی جانب سے یہ کیس قبول ہونے کے لیے کئی ماہ انتظار کے بعد انکار کی صورت میں سامنے آیا۔ جس میں کہا گیا ”برطانیہ مطمئن نہیں ہے کہ ان کا رشتہ حقیقی اور برقرار ہے“
برطانوی نشریاتی ادارے دا انڈپینڈنٹ کے مطابق ہوم آفس ان کی اہلیہ کے لیے اے آر اے پی درخواست پر غور نہیں کر رہا ہے، باوجود اس کے کہ وزارت دفاع نے انہیں قبول کر لیا ہے جب کہ ان کی والدہ کی درخواست ابھی زیر التوا ہے
ڈربی میں رہتے ہوئے ڈلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے حفیظ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اہلیہ اور والدہ، جن کا پاکستان میں رہنے کا حق دو ماہ قبل ختم ہو چکا ہے، کو جلد ہی ہوٹل چھوڑنا پڑے گا، جس کے بعد انہیں افغانستان بھیج دیا جائے گا، جہاں انہیں موت کا خطرہ لاحق ہوگا
حفیظ اللہ نے دا انڈپینڈنٹ کو بتایا ”انہیں آرام سے قتل کر دیا جائے گا کیوں کہ ان کے ساتھ جاسوسوں والا سلوک ہوگا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ میری ملازمت کی وجہ سے ہوٹل میں رہے ہیں۔ وہ طالبان کے لیے آسان ہدف ہوں گے“
”مجھے بتایا گیا کہ وہ یہاں آنے کے اہل ہیں۔ میں صدمے میں ہوں۔ ہوم آفس یہ کیسے کر سکتا ہے؟ میں نے برطانوی افواج کی خدمت کی ہے۔ میں نے ان کی جانیں بچائیں اور آج وہ میرے خاندان کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ کسی کو ان کی پروا نہیں ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی حفاظت کے معاملے میں مجھے دھوکہ دیا گیا اور میں خوف کا شکار ہوں“
صوبہ ہلمند میں کپتان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے حفیظ اللہ حسین خیل کے ساتھ کام کرنے والے سابق فوجی افسر پیٹر گورڈن فنلیسن کہتے ہیں ”حسین نے آپریشن ہیرک کے تحت مسلسل مہمات میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ کام کیا اور وہ کئی سال تک خاندان سے دور رہے۔ وہ ٹیم کے ایک لازمی اور اہم رکن تھے“
پیٹر گورڈن کا کہنا ہے ”اپنے خاندان کے متعدد افراد کے انتقال کے بعد، ان کی اہلیہ ان چند مددگاروں میں سے ایک ہیں، جو ان کے پاس بچے ہیں۔ انہیں ایک ساتھ رہنے دینے کی سہولت سے انکار کرنا برطانیہ کی طرف سے خاص طور پر ظالمانہ عمل لگتا ہے جو ان کی ذہنی صحت کو نمایاں طور متاثر کر رہا ہے“
دا انڈپینڈنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی فوج کی گھڑ سوار رجمنٹ کی طرف سے حسین خیل کو جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ میں یہ الفاظ درج ہیں کہ ’آپریشن ہیرک 14 اپریل تا نومبر 2011 کے دوران فارمیشن ریکونسنس اسکواڈرن کے ترجمان کے طور پر ان کے نمایاں کردار کے اعتراف میں‘
حسین خیل اور ان کے اہلخانہ کی نمائندگی کرنے والی وکیل سیلیا ریکرڈ نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ اور والدہ پاکستان میں مقیم ان بہت سے افغانوں میں شامل ہیں، جو کئی ماہ سے ویزوں کی درخواست پر ہوم آفس کی کارروائی کے منتظر ہیں۔ وکیل نے اس صورتحال کو ’ناروا‘ اور ’گومگو‘ پر مبنی قرار دیا ہے
’یہ التوا کا شکار ان لوگوں کے کیس ہیں۔ ہم بنیادی طور پر خواتین کی بات کر رہے ہیں جو برطانیہ کے ویزے کے بغیر پاکستان میں انتظار کر رہی ہیں۔ ان کی ملک میں قیام کی اجازت ختم ہو چکی ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے. میں کہوں گی کہ یہ انتشار کی بدترین حالت ہے۔‘
حفیظ اللہ کی اہلیہ کو برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کا ذکر کرتے ہوئے ریکرڈ نے مزید کہا ’وہ ان کی قریبی رشتہ دار ہیں۔ انہیں یہاں کیوں نہیں آنا چاہیے؟ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک سابق ترجمان برطانیہ میں اپنے قریبی رشتہ دار کو کیوں نہیں لا سکتے‘
ہوم آفس برطانیہ کے ترجمان کا موقف تھا ’ہم عام طور پر انفرادی معاملات پر بات نہیں کرتے۔ آپریشن پٹنگ کے دوران ہم نے 15 ہزار لوگوں کو کابل سے نکالا اور ہم محفوظ راستے کے حصول اور برطانوی شہریوں اور اہل افغانوں کے ملک چھوڑنے کے قابل بنانے کے لیے وہ سب کچھ کر رہے جو کر سکتے ہیں۔‘