امریکی صدارتی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق ریاست پینسلوینیا اور نیواڈا میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن کو مزید 26 الیکٹورل ووٹ مل گئے ہیں جس کے بعد اُن کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 279 ہو گئی ہے۔ جب کہ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ابھی الیکشن ختم نہیں ہوا۔
تفصیلات کے مطابق امریکہ کے بیشتر ذرائع ابلاغ نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ریاست پینسلوینیا کے بعد نیواڈا میں بھی جو بائیڈن کی فتح رپورٹ کر دی ہے۔
امریکہ کی اب تک 46 ریاستوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔
ان ریاستوں کے نتائج کے مطابق جو بائیڈن نے 279 الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیے ہیں۔
چار ریاستوں – نارتھ کیرولائنا، جارجیا، ایریزونا اور الاسکا – میں ووٹوں کی گنتی تاحال جاری ہے۔ ان ریاستوں میں سے بھی جارجیا اور ایریزونا میں جو بائیڈن کو اپنے ری پبلکن حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں رائج انتخابی نظام کے تحت صدر کا انتخاب پاپولر ووٹوں کے بجائے الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے اور کسی بھی امیدوار کو صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے 538 ووٹوں میں سے کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ الیکشن ابھی ختم ہونے سے بہت دور ہے، کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ جو بائیڈن اور اُن کا حمایتی میڈیا اُنہیں جھوٹ کی بنیاد پر فاتح قرار دے رہا ہے
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں صدر نے کہا کہ بہت سی ریاستوں میں لازمی دوبارہ گنتی ہو گی جب کہ بعض ریاستوں میں ہم نے قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے رُجوع کر رکھا ہے
صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ریاست پینسلوینیا میں اُن کی انتخابی مہم کے مبصرین کو ووٹوں کی گنتی کے مشاہدے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اُن کے بقول میڈیا نہیں بلکہ قانون کے مطابق کاسٹ کیے گئے ووٹ ہی فاتح کا تعین کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ پیر سے اُن کی انتخابی مہم عدالتوں میں ہماری جانب سے اُٹھائے گئے قانونی نکات پر بحث کرے گی تاکہ انتخابی قوانین کے مکمل اطلاق کی یقین دہانی ہو سکے اور فتح اسے ملے جو اس کا جائز حق دار ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ شفاف الیکشن امریکی عوام کا حق ہے جس کے تحت تمام قانونی ووٹوں کی گنتی اور غیر قانونی ووٹ کا شمار نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت عجیب بات ہے کہ بائیڈن کی انتخابی مہم نے ووٹوں کی گنتی کے بنیادی اُصول سے انحراف کیا ہے۔ صدر کے بقول بائیڈن چاہتے ہیں کہ ہر ووٹ گنا جائے چاہے وہ جعلی ووٹ ہی کیوں نہ کاسٹ ہو جائیں یا اُن لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیے ہوں جو قانونی طور پر اس کے اہل نہیں تھے یا مر چکے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جو جماعت غلط کام میں ملوث ہو صرف وہی مبصرین کو رسائی دینے اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی مخالفت کر سکتی ہے۔
صدر نےاستفسار کیا: "بائیڈن کیا چھپا رہے ہیں؟ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ووٹوں کی منصفانہ اور شفاف گنتی کے بعد امریکی عوام کو اُن کا حق نہیں دلا دیتا اور یہی حقیقی جمہوریت کا تقاضا بھی ہے۔”
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ منگل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد سے ٹوئٹر پر اور اپنے خطابات میں مسلسل انتخابات میں اپنی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں اور ڈیموکریٹس پر دھاندلی کے ذریعے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں. انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت پیر سے ہو گی
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺭﯾﭙﺒﻠﮑﻦ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﻟﻨﺰﮮ ﮔﺮﺍﮨﻢ، جو ﺟﻨﻮﺑﯽ ﮐﯿﺮﻭﻻﺋﻨﺎ ﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭨﺮﻣﭗ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﺴﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﺮ ﻟﯿﮕﻞ ﻭﻭﭦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﯾﮟ۔ انہوں ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺻﺪﺭ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺳﺎﺑﻖ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺻﺪﺭ ﮈﻭﻧﻠﮉ ﭨﺮﻣﭗ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﻣﯿﻼﻧﯿﺎ ﭨﺮﻣﭗ ﻧﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﺟﻮﺑﺎﺋﯿﮉﻥ ﺳﮯ ﺷﮑﺴﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ
ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﻼﻧﯿﺎ اپنے ﺣﻠﻘﮯ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﺮﻣﭗ ﮐﻮ ﺟﻮﺑﺎﺋﯿﮉﻥ ﺳﮯ ﺷﮑﺴﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻧﺸﺮﯾﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺳﯽ ﺍﯾﻦ ﺍﯾﻦ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﻼﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻧﺘﺨﺎﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﻭﮦ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﻧﺠﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺸﻮﺭﮮ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﭘﯿﺶ ﮨﯿﮟ۔ ان کے حوالے سے ﯾﮧ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﻼﻧﯿﺎ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﺋﭧ ﮨﺎﺅﺱ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﯿﮟ
دوسری طرف بایئڈن اور ان کے حمایتی کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک امیدوار تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں واضح طور پر 538 میں سے 270 الیکٹورل ووٹوں کے کم از کم ہدف سے کہیں آگے نکل گئے ہیں اور وہ صدارتی الیکشن میں فاتح رہے ۔ بائیڈن نے ہفتہ کی شام بحیثیت کامیاب امیدوار امریکی قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنی صدارت میں لوگوں کو یکجا کرنا چاہیں گے
امریکہ کے صدارتی انتخابات 2020 کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس نے انتقالِ اقتدار کے بعد کی ترجیحات واضح کر دی ہیں جن میں صدر ٹرمپ کی بعض پالیسیوں پر نظرثانی بھی شامل ہے
بائیڈن اور ہیرس نے ایک ویب سائٹ متعارف کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت ملنے کے بعد اُن کی پہلی ترجیح کرونا وائرس، معیشت، موسمیاتی تبدیلی اور نسل پرستی سے نمٹنا ہو گا
جو بائیڈن کی ویب سائٹ پر نئی منتخب قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن سے قیادت کرنے کی تیاری کر رہے ہیں
ویب سائٹ کو ‘بائیڈن ہیرس صدارتی منتقلی’ کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق بائیڈن اور ہیرس کی انتظامیہ جن چیلنجز کا مقابلہ کرے گی ان میں قوم کی صحت کا تحفظ، کامیابی کے مواقع، نسلی مساوات کا فروغ اور موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے لڑنا شامل ہے۔