نگلیریا کیا ہے، جس سے کراچی کے شہریوں کو بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی؟

ویب ڈیسک

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے مون سون سیزن کے دوران نگلیریا، جسے عام طور پر ’دماغ کھانے والا امیبا‘ کہا جاتا ہے، سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں

شہر کی میونسپل ایڈمنسٹریشن کے شعبہ صحت نے شہریوں کو آگاہ کیا کہ وہ اقدامات پر مکمل عمل درآمد کر کے اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو نگلیریا سے متاثر ہونے سے بچا سکتے ہیں

تاہم اگر کسی کو بخار، سر درد، گردن میں درد، متلی، دھندلا پن، بے خوابی اور نیند کی کمی جیسی علامات پیدا ہوتی ہیں، تو اسے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے

شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس پانی میں نہانے سے گریز کریں، جو یا تو مون سون کے دوران بارش کی وجہ سے یا پانی کی سپلائی کی خستہ حال پائپ لائنوں سے لیک ہونے کے نتیجے میں جمع ہو گیا ہو

ایڈوائزری میں کہا گیا ہے ”اگر آپ کو تفریحی مقامات پر تالابوں، جھیلوں اور سوئمنگ پولز میں نہانا ہے تو اپنا سر اونچا رکھیں، ورنہ نگلیریا کے بیکٹیریا ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر دماغی خلیات کو تباہ کر سکتے ہیں“

مزید کہا گیا ہے ”نگلیریا سمیت دیگر وبائی امراض کی روک تھام اسی وقت ممکن ہوگی جب حکومتی سطح پر ضروری اقدامات کے ساتھ شہریوں میں خود بھی آگاہی پیدا کی جائے“

ایڈوائزری کے مطابق مون سون کے موسم میں نگلیریا کے پھیلنے کا خدشہ ہے، اس لیے شہری ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کریں

نگلیریا کے انفیکشن کا بڑا ذریعہ گرم، تازہ پانی اور غیر کلورین شدہ پانی کی فراہمی ہے اور یہ بیماری بیکٹیریا کے جسم میں داخل ہونے کے بعد دو سے پندرہ روز کے اندر شدید نوعیت اختیار کر لیتی ہے

شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ وضو اور غسل کے لیے ابلا ہوا پانی استعمال کریں اور عام نزلہ زکام کی صورت میں ناک کو غیر کلورین والے یا ابلے ہوئے پانی سے دھونے سے گریز کریں

انفیکشن سے بچنے کے لیے ایک ہزار لیٹر پانی میں ایک کھانے کا چمچ بلیچ شامل کر کے استعمال کریں جبکہ سال میں دو مرتبہ گھر میں اوپر اور زیر زمین پانی کے ٹینکوں کو صاف کریں

شہریوں سے کہا گیا کہ وہ نگلیریا اور دیگر جراثیم سے بچنے کے لیے جاری کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں

نگلیریا کیا ہے؟

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں دماغ کھانے والے جرثومے سے ہونے والی نگلیریا نامی بیماری کافی عرصے سے سامنے آرہی ہے

نگلیریا ایک پانی سے پھیلنے والی خطرناک بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کی تین چار روز میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کا جرثومہ صاف کچھ گرم اور نمی والے پانی میں پایا جاتا ہے جو کہ پینے یا ناک میں پانی ڈالنے کے دوران میں انسانی دماغ میں منتقل ہو جاتا ہے اور پورے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے اس لیے اس کو دماغ کھانے والا امیبا بھی کہتے ہیں، جبکہ اس بیماری کو پھیلانے والے جراثیم کا اصل نام نگلیریا فاؤلیری ہے۔ اس مرض کا جرثومہ چشموں، واٹر پارکوں اور مشینوں سے نکلنے والے پانی اور ایسے پانی میں پایا جاتا ہے، جس میں کلورین کی کم مقدار شامل کی گئی ہو۔ یہ مرض سردیوں کی نسبت گرمیوں میں زیادہ حملہ کرتا ہے

ماہرین طب کے مطابق نگلیریا‘ ایک ایسا امیبا ہے جو اگر ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوجائے تو دماغ کو پوری طرح چاٹ جاتا ہے،جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے

یہ وائرس عموماً سوئمنگ پولز ،تالاب سمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں پیدا ہوتا ہے، جس میں کلورین کی مقدار کم ہوتی ہے ۔ شدید گرمی بھی نگلیریا کی افزائش کا سبب بنتی ہے۔

نگلیریا کی علاماتیں عام طور پر سات دن میں ظاہر ہوتی ہے، جو گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں، سر میں تیز درد ہونا، الٹیاں یا متلی آنا ، گردن اکڑ جانا اور جسم میں جھٹکے لگنا اس کی واضح علامات ہیں

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گھروں میں موجود ٹینکوں کو سال میں کم سے کم دو بار صاف کیا جائے۔کلورین کی گولیوں کا استعمال کیا جائے، پینے اور وضو کیلئے پانی کو سو ڈگری سینٹی گریڈ پر ابالنا نگلیریا کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس موذی بیماری سے بچاو کا واحد حل یہ ہے کہ طے شدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق پانی میں کلورین کا استعمال کیا جائے تو نگلیریا وائرس کو پیدا ہونے سے روکا جاسکتا ہے

نگلیریا نامی جان لیوا مرض سے متعلق اب تک سرکاری سطح پرکوئی آگاہی مہم شروع نہیں کی جاسکی ہے۔جس سے عام آدمی کواس بیماری سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے

عام شہری نہ علامات کاعلم رکھتاہےاورنہ ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ عدم آگاہی اموات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close