درہ آدم خیل: دوست کے ہاتھوں دوستوں کا قتل: ’وہ ایک دوسرے کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے‘

ویب ڈیسک

ان کی دوستی تو بہت مثالی تھی وہ ایک دوسرے کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے لیکن معلوم نہیں پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ایک دوست نے تینوں دوستوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا

یہ باتیں ان میں ایک دوست کے قریبی رشتہ دار نے بتائی ہیں لیکن انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا ”یہ دوست گروپس کی شکل میں گئے تھے۔ تین تین چار کی ٹولیوں میں یہ جاتے ہیں ان میں دو دوست پہلے گئے تھے اور دو بعد میں چلے گئے تھے۔ اس مقام تک جانے کے لیے پانچ سے چھ گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے“

واضح رہے کہ یہ واقعہ چند روز پہلے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں پیش آیا تھا۔ عید کے دنوں میں اس علاقے سے لوگ پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتے ہیں، جہاں کچھ لوگ شکار کھیلتے ہیں اور پکنک مناتے ہیں

چار دوست عید کے تیسرے روز درہ آدم خیل کے دور افتادہ ’بلندر‘ نامی علاقے میں شکار اور پکنک کے لیے گئے تھے اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہاں ایک ہفتے تک قیام کریں گے

لیکن وہاں اتوار کو رات کے گیارہ بجے کے قریب ان میں سے ایک محمد وسیم نے اپنے تین دوستوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا

مقامی پولیس کے مطابق ’وسیم کے دماغ نے کام نہیں کیا یا وہ ذہنی طور پر نارمل نہیں تھا اس وقت اور فائرنگ شروع کر دی تھی۔‘

مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد وسیم کو بھی فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس نے فائرنگ کی ہے

ایک اطلاع یہ ہے کہ وہاں موقعے پر موجود لوگوں نے جب دیکھا تو انہیں ایسا لگا کہ یہ مزید نقصان کر سکتا ہے اس لیے اس پر فائرنگ کردی گئی تھی

ایسی اطلاع بھی ہے کہ وسیم فائرنگ کے بعد قریب پہاڑوں میں چھپ گیا تھا، جہاں مرنے والوں کے رشتہ داروں میں سے کسی نے اس پر گولیاں چلا کر اسے بھی مار دیا

پولیس انسپکٹر فرید خان کا کہنا ہے کہ پولیس اس بارے میں تحقیقات کر رہی ہے

اس واقعے کی ایف آئی آر پولیس کی جانب سے درج کی گئی ہے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق اگرچہ یہ علاقہ اب خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکا ہے لیکن یہاں روایات اب بھی قبائلی اور قدیم طرز کی ہیں، یہاں ایف آئی آر درج کرانے کا رواج نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں لوگ میڈیا سے بات کرتے ہیں

بی بی سی کے نمائندے عزیز اللہ خان کے مطابق اس واقعے اور چار دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے دور روز تک رابطہ کیا گیا، لیکن اس بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا

لیویز اہلکار زرغون شاہ نے بتایا کہ انہیں جو معلومات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق وسیم نے فائرنگ کے بعد شور شرابا شروع کر دیا تھا نعرے لگا رہا تھا اور اس وقت وسیم کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا

ان چار دوستوں کے نام میکائل، مجیب، شفاعت اور وسیم بتائے گئے ہیں۔ ان میں وسیم کم عمر تھا جس کے عمر پینتیس سے سینتیس سال تک بتائی گئی ہے جبکہ باقی تین دوستوں کی عمریں پینتالیس سال اور انچاس سال کے درمیان تھیں

ان میں ایک کے رشتہ دار نے بتایا ’ان کی بہت گہری دوستی تھی یہ بنیادی طور پر مستری تھے اور ہر عید یا کوئی بھی ایسا تہوار ہوتا تو یہ چاروں دوست پکنک منانے اس مقام پر چلے جاتے تھے۔ ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ یہ ایک دوسرے کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے، ایک ہی علاقے کے رہنے والے تھے اس لیے زیادہ وقت ان کا ایک ساتھ گزرتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا ’پکنک پر روانہ ہونے سے دو دن پہلے میری ملاقات میرے رشتہ دار سے ہوئی تھی کہہ رہا تھا کہ وہ عید پر پکنک اور شکار کے لیے بلندر جائیں گے۔ اپنے ساتھ خشک میوہ، پانی، ٹافیاں اور دیگر ایسا کھانے کا سامان ساتھ لے جاتے جو خراب نہیں ہوتا تھا اور جس پر ان کا ایک ہفتہ گزر جاتا تھا۔ چاروں دوست شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی ہیں‘

بنیادی طور پر یہ علاقہ درہ آدم خیل جسے عرف عام میں آفریدیوں کا علاقہ کہا جاتا ہے اور اورکزئی ضلع کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے، جہاں مقامی عسکریت پسند عجب خان آفریدی انگریز خاتون مس مولی ایلس کو اغوا کر کے لے گیا تھا

ان چاروں دوستوں کا تعلق علاقہ شیراکئی سے بتایا گیا ہے، جہاں سے عجب خان کا تعلق تھا۔ اس پکنک اسپاٹ پر وہ غار اب بھی موجود ہے، جہاں عجب خان نے مس مولی ایلس کو اغوا کرنے کے بعد اس پہاڑ کی چوٹی پر رکھا تھا

عجب خان آفریدی نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ مس مولی ایلس کو پہاڑ کی اس چوٹی پر لے گئے تھے، جہاں انگریزوں کو دھیان بھی نہیں تھا

مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ پہاڑ انتہائی سرسبز ہے گھنے جنگل ہیں، جن میں زیتون کے درخت بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر نیچے آبادی میں گرمی ہوتی ہے تو پہاڑ پر موسم سرد ہوتا ہے

ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ اس علاقے کے غریب افراد کا سوات ہے، جہاں لوگ کم خرچ میں سرد موسم کا مزہ لینے جاتے ہیں

اگرچہ اس مقام کی طرف آدھے راستے تک گاڑی جاتی ہے، لیکن اس کا خرچہ بہت ہے اس لیے بیشتر لوگ پیدل ہی روانہ ہو جاتے ہیں

ان کے پاس کوئی بستر وغیرہ نہیں ہوتے بس زمین کو صاف کرکے چادر سر کے نیچے رکھ کر رات کو سو جاتے ہیں۔ دن کو شکار کرتے ہیں پھل دار درختوں سے پھل کھاتے ہیں چشمے کا ٹھنڈا پانی ہوتا ہے اور سکون ہوتا ہے، لیکن یہ سکون گزشتہ دنوں دوستوں کو نگل گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close