اداس چہرہ (جرمن ادب سے منتخب شاہکار افسانہ)

ہنرخ بوئل

میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا تھا اور اُن سمندری پرندوں کو غور سے دیکھ رہا تھا، جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔ ان کے پروں سے پانی یوں ٹپک رہا تھا، جیسے پھولوں پر شبنم  ٹپکتی ہے…

میں بڑی محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا.. میری آنکھیں شاید اس منظر کے سوا کچھ اور دیکھنا ہی نہ چاہتی تھیں…

سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمکدار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔ بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش اور متروک دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں.. لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر پابندی ہے.

یکایک ایک پرندہ ڈُبکی لگا کر پھڑپھڑاتا ہوا اُڑا اور فضاء میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا، لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا… میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ ہوا میں اسے اِدھر اُدھر اُڑتے دیکھ کر مجھے گمان ہوا کہ وہ اپنے محبوب کو ڈھونڈ رہا ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ محبوب سے زیادہ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہو رہی تھی۔ تبھی تو وہ سمندر کی شوریدہ لہروں سے بےپرواہ ہو کر اپنا وجود پانی کے سپرد کرتا اور شکار کی تلاش میں سرگرداں تھا. جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا، لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی تھی۔ اس کے باوجود وہ ہمت نہ ہارتا…

میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکڑا ہوتا، تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا۔ میں اسے ڈبل روٹی کے ٹکڑے ڈالتا جاتا اور پانی کی سطح پر اس کے ساتھ اس کھیل میں شریک ہوجاتا۔ لیکن اس وقت میرے پاس ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا تک نہ تھا۔ میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا…

میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبالی…

اچانک کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا ، وہ ایک پولیس والا تھا..

مجھے اس کی یہ دخل اندازی بہت بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے. لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

”کامریڈ…!“ اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا

”جی جناب…!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا

”جناب….!؟جناب بھی بھلا کوئی لفظ ہے؟ یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں، کامریڈ…“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا

”تو پھر.. پھر آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے…؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

وہ مسکرایا ”جرم! تم مغموم نظر آتے ہو.“

اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا

”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا

میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے، اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا.. نہ کوئی نشے میں دھت شرابی اور نہ کوئی جیب کترا… لیکن چند لمحوں میں ہی مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے اور مجھے شکار بنانا چاہ رہا ہے. اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا. اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی، جو جال میں پھنس گیا ہو اور اس سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو..

اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے میں نے صاف شفاف فضا کا جائزہ لیا. سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اس کے ساتھ چلنے لگا. مجھے علم تھا کہ پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے مجھے تاریکی میں دھکیل دیا جائے گا.. یہ سمندر میں دھکیل دیے جانے سے زیادہ اذیتناک تھا۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا،
”کامریڈ… میرا قصور تو بتائیے…؟“

”قصور…!! اس ملک کا یہ قانون ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے!“

”لیکن میں تو بے حد خوش ہوں…“ میں نے پورے جوش کے ساتھ جواب دیا

”بالکل غلط!“

”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

”کیوں…؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے، تم نے کیوں نہیں سنا…؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے.“

”لیکن… لیکن، میں تو اس اعلان کے بارے میں اب سن رہا ہوں۔“

”یہ اعلان تمام اخباروں میں چھپ چکا ہے۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اس کا اعلان کیا گیا۔ ان چھتیس گھنٹوں میں تم کہاں تھے..؟“

وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا. شدید سردی کی وجہ سے میں بری طرح کانپ رہا تھا. بھوک الگ تنگ کر رہی تھی۔ میرے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے، شیو بڑھی ہوئی تھی، جبکہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے.
تو یہ تھا میرا جرم….!

تھانے کی طرف جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے. ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رُک جاتے. سپاہی ہر رُک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا، تو اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا، حالانکہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پریشان حال اور بولایا ہوا ہے. ہر شخص دن بھر کی مشقت کے بعد جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا ہے. ہمارے راستے میں آنے والا ہر آدمی ہم سے بچ جانے کی کوشش میں مصروف ہے. غالباً وہ ڈر رہے تھے کہ سپاہی کی تیز نگاہیں ان کا اصل چہرہ نہ بھانپ لیں اور ان کے خوشی کا ماسک چڑھائے ہوئے چہرے پر پریشانی نہ دیکھ لیں.. صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے.

ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا. قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا: ”غدار کہیں کا…!“

اُس کی اِس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہوگئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہو گیا ہے.. میں نے آستین سے اپنے چہرے پر لگی تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مُکّا پڑا، سپاہی نے غُرّا کر کہا
”آگے بڑھو!!“
میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا.

اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہو گیا. اب راستہ بالکل صاف تھا، کیونکہ تمام راہ گیر ہم سے بچ بچا کر دور دور سے گزر رہے تھے. آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے.

یکایک بیل بجنے کی آواز آئی. جس کا مطلب یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں. قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آ رہا تھا، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجا رہا ہے..

میری خوش قسمتی تھی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا. شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے، ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا.

مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا، وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی. دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے. انہوں نے بھی ضابطے کے مطابق میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے. اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون رکھا تھا. مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا. میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا. ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا. وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جبکہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی..

”تم کیا کرتے ہو….؟“

”ایک عام کامریڈ ہوں…“

”تاریخِ پیدائش….؟“

”یکم جنوری 1901“

”یہاں کیا کر رہے ہو…؟“

”جی، میں ایک جیل میں قید تھا.“

میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنےلگے اور پھر پوچھا ”کس جیل میں…؟“

”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13… میں کل ہی رہا ہوا ہوں“

”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“

میں نے جیب سے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

”تمہارا جرم کیا تھا؟“

”جی میں اُن دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا…“

وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”کھل کر بات کرو….“

”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔ مجھے اس افسر سے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس لیے الگ تھلگ رہا. ایک پولیس مین نے مجھے گرفتار کرلیا اور یہ بیان دے کر اندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا…“

”تمہیں کتنی سزا ہوئی…؟“

”پانچ سال قید…“

پوچھ گچھ ختم ہوئی تو اچانک دو پولیس والے اندر آئے اور میری پٹائی ختم کردی. جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا. مجھے اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی… جی ہاں! خوشی سے کِھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ڈالی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو…
نہ خوش و خرّم نہ مغموم اور اُداس…..


نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب
ہنرخ بوئل Heinrich Böll
(1917ء تا 1985ء)

جرمن ادیب ہنرخ بوئل 21 دسمبر 1917ع کو جرمنی کے شہر بون میں پیدا ہوئے۔ انہیں اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے اسکول اور کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر نہ آ سکا، مگر دانش و بینش رسمی تعلیم کی محتاج کہاں ہوتی ہے؟ بطور ادیب انہوں نے اپنے عہد کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ اپنی تحریروں ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا، کہ انہیں پڑھ کر ہم سوچ اور تفکر کے راستوں پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔ علامتی سطح پر ان کی کہانیاں اور ناول پوری انسانیت کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ معاشرے کے گرے پڑے، کم مایہ اور بے سایہ لوگ ان کا خاص موضوع رہے ہیں۔ ان کی شخصیت میں انسان دوستی اور اخلاص ایک غالب عنصر تھا۔ باشعور اور باذوق قاری کو ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے ان باتوں کا احساس قدم بہ قدم ہوتا ہے۔
ہنرخ بوئل کے حصے میں یہ اعزاز بھی آیا ہے کہ انہوں نے جرمن ادب کا احیاء کیا اور اسے بین الاقوامی ادب کے مدِّمقابل مقام عطا کیا۔ ہنرخ بوئل کو ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف میں 1972ء کے نوبل ادبی انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ وہ 16 جولائی 1985 کو 67 سال کی عمر میں لینگن بورک، نوردرائن-ویسٹ فالیا، مغربی جرمنی میں انتقال کر گئے.


 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close