ٹھیک دس برس قبل زمین نے ایک برقی مقناطیسی گولی سے بمشکل خود کو بچایا، جو سورج کی طرف سے فائر کی گئی تھی!
سورج کی سطح سے نکلنے والے مادے یعنی coronal mass ejections یا CME مقناطیسی پلازما اور شمسی ذرات کا بڑے پیمانے پر اخراج ہیں، جو معمول کے مطابق شمسی سطح سے پھوٹتے رہتے ہیں
ان کی اکثریت مضر اثرات مرتب کیے بغیر خلا میں بکھر جاتی ہے، لیکن 23 جولائی 2012ع کو صدی کا سب سے بڑا شمسی طوفان ہمارے مدار سے گزرا اور محض 9 دن کے فرق سے زمین اس سے بال بال بچی
اگر یہ طوفان زمین سے ٹکرا جاتا تو مسائل کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا، جس میں ممکنہ طور پر سب سے کم لندن اولمپکس سے دستبرداری ہوتی۔ براہ راست زد پہ آنے کی صورت میں دیوہیکل مقناطیسی طوفان نے برقی سرکٹس کو بھون ڈالا ہوتا، مواصلاتی نظام اور پوری دنیا کے قومی گرڈز کو ختم کر دیا ہوتا، سو عالمی معیشت اب تک ایسے بدترین منظرنامے کے اثرات سے نکلنے کی تگ و دو کر رہی ہوتی
ریڈنگ یونیورسٹی میں خلائی ماحول کی طبیعیات کے پروفیسر مائیک لاک وڈ مائیک لاک وڈ کے مطابق دیوہیکل مقناطیسی طوفان انسانی زندگی کے لیے براہ راست خطرہ نہیں ہیں، لیکن اس کی کوکھ سے پھوٹنے والی افراتفری مہلک ثابت ہو سکتی ہے
وہ مجھے بتاتے ہیں، ”ہم بنیادی ڈھانچے کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن اگر یہ نہ ہو تو ہر چیز جزوِ معطل ہو کر رہ جائے۔ قلیل مدتی بحران کے مسائل ممکنہ طور پر بھیانک ہو سکتے ہیں۔ منقطع بجلی کی سپلائی مرمت کرنے میں ہفتے، مہینے بلکہ بعض جگہوں پر کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ لوگوں کے لیے پابندیاں سمجھنا یا قبول کرنا مشکل ہوگا اور سوِل بدامنی پھیلنے کا الگ سے خدشہ ہے۔ برطانیہ کے قومی رسک رجسٹر میں خطرے اور اثرات کے اعتبار سے شدید خلائی موسم کی درجہ بندی کا لیول (عالمی وباؤں والا) وہی ہے لیکن یہ کہیں بڑی افراتفری کے ممکنہ خطرات رکھتا ہے“
پروفیسر لاک وڈ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سی ایم ای‘ سے جنم لینے والے بیشتر شمسی طوفان کوئی مسئلہ نہیں ہیں کیونکہ معمول کے مطابق زمین کا مقناطیسی میدان ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، جو مقناطیسی توانائی کو باہر کی طرف یا قطبین کی جانب موڑ دیتا ہے، جہاں یہ نادرن لائٹس جیسی خوبصورت روشنی میں پھیل جاتے ہیں۔ جی ہاں فطرت کے حیرت انگیز ترین مقامات میں سے ایک دراصل پندرہ کروڑ کلومیٹر دور سورج کی سطح پر ’سی ایم ای‘ کی دَین ہے
لیکن کبھی کبھار ’سی ایم ای‘ سے جنم لینے والے دیو ہیکل شمسی طوفان تین ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے زمینی دفاع کو اڑا کر مقناطیسی طوفانوں کا باعث بنتے ہیں
پروفیسر لاک وڈ وضاحت کرتے ہیں کہ برف کی تہوں اور درختوں کے حلقوں کی ’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا ماضیِ قریب میں ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں ایسا ہونا ناگزیر ہے
یہاں تک کہ اب بھی ہمیں اس ہفتے ایک ’معمولی‘ طوفان سے براہِ راست ٹکرانے کا خدشہ درپیش ہے، جس کے اثرات زمین کے ان حصوں میں جی پی ایس اور ریڈیو سگنلز میں خلل ڈال سکتے ہیں، جہاں رات ہو جبکہ کچھ خطوں میں طلوع آفتاب کے وقت بھی ایسا ممکن ہے
انسانی تاریخ میں بیشتر یہ ٹکراؤ کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ سوائے قطبین سے نکلنے والی شاندار روشنی کے علاوہ ہمارے اجداد کو صنعتی اور بجلی کے دور سے پہلے اس بات کا پتہ بھی نہیں چلا ہوگا کہ ان کے پیروں کے نیچے مقناطیسی لہر اٹھی ہے
لیکن دوسرے صنعتی انقلاب کے وقت تک دھاتیں محض کچی دھاتوں کے ڈھیر تک محدود نہ رہی تھیں، ترسیل کی صلاحیت اور لچکدار خصوصیات کی وجہ سے ان کی کان کنی کی جا چکی تھی اور دنیا کا پہلا عالمی مواصلاتی نظام ٹیلی گراف سسٹم تاروں کی شکل میں پھیل چکا تھا
زمین پر جیو میگنیٹک واقعات کے ساتھ شمسی تعلق کے پہلے چشم دید گواہ برطانوی ماہر فلکیات رچرڈ کیرنگٹن تھے۔ یکم ستمبر 1859ع کی صبح کیرنگٹن نے دیکھا کہ سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں میں سے ’روشنی کے دو انتہائی چمکتے دمکتے ٹکڑے‘ پھوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ سورج کی یہ غیر معمولی حالت محض چند لمحوں کے لیے دکھائی دی لیکن فقط سترہ گھنٹے بعد وہی سی ایم ای ایک بہت بڑے برقی مقناطیسی طوفان کا باعث بن گیا، جس نے شب کے آسمان کو دن میں بدل دیا۔ اس شام قطبین کے اوپر اس قدر حدت تھی کہ روم، کیوبا، میامی اور کیریبیئن تک کے دور دراز جنوبی علاقوں تک اس کی روشنی پھیل گئی
ٹیلی گراف سسٹم بھی اس کی لپیٹ میں آیا، دنیا بھر میں کچھ تاریں شعلوں سے پھٹ پڑیں اور ان کے آپریٹرز چنگاریوں اور جھٹکوں کی زد میں آئے۔ سی ایم ای کا مشاہدہ کرنے والے ماہر فلکیات کے نام سے معروف ’کیرنگٹن ایونٹ‘ اب تک ریکارڈ شدہ شدید ترین مقناطیسی طوفان ہے۔ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اس لیول کا واحد واقعہ ’کیرنگٹن ایونٹ‘ ہی تصور کیا جاتا ہے
لیکن اپنی تکنیکی دنیا کے بجلی اور ترسیلی مواد پر اس قدر انحصار کے پیش نظر خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگلا ایسا بڑا واقعہ قومی گرڈز کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے مواصلاتی نظام غیر فعال ہو کر رہ جائے گا اور اس کے سماجی و اقتصادی نتائج انتہائی سنگین ہوں گے
یہ سمجھنے کے لیے کہ جدید عہد میں کیرنگٹن کی سطح کا واقعہ کیوں اتنا تباہ کن اور ناقابل گرفت ہو سکتا ہے، ہمیں سورج سے CMEs کے اگلے سفر پر نظر ڈالنا ہوگی
ناسا اب سورج کی سطح کا مشاہدہ سیٹلائیٹ مانیٹرنگ کے ذریعے بہت قریب سے کر رہا ہے اور برطانوی محکمہ موسمیات کی رپورٹس گردش میں ہیں۔ ممکنہ خطرات کے حامل شمسی طوفان آتے ہیں اور خلائی موسم کی رپورٹس انہی کے گرد گھومتی ہیں، جنہیں محکمہ موسمیات معمول کے مطابق توانائی اور ہوا بازی کی صنعتوں سے شیئر کرتا ہے
تاہم 2012ع جیسے قریب سے چوک جانے والے یا ’کیرنگٹن ایونٹ‘ جیسے زوردار شمسی طوفان اتنی تیز رفتاری سے سفر کرتے ہیں کہ محض سترہ گھنٹے میں زمین تک پہنچ سکتے ہیں
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اس وقت یہ بتا سکتے ہیں کہ سورج سے پھوٹنے والا شمسی طوفان کتنا خطرناک ہوگا، جب یہ ایک گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر ہو، کیوں کہ تب یہ اس مقام پر ہوتا ہے، جہاں اس کا گزر سولہ لاکھ کلومیٹر دور خلا کی گہرائی میں سیٹلائٹ سے ہوتا ہے اور ہم اس کی شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
یہ چیز اہمیت کی حامل ہے کہ یہ قطبین کی کس جانب ہے۔ وقت اچھا چل رہا ہو تو ’سی ایم ای‘ کی قطبیت زمین کے مقناطیسی میدان سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور اس کی توانائی خلا میں یا قطبین کو متاثر کیے بغیر بے ضرر انداز میں پھیل جائے گی
لیکن جب شمسی طوفان کی اٹھان مقناطیسی میدان کے جنوب کی طرف ہو تو ایک ہنگامی پیغام جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہوا بازی کی صنعت کے لیے اپنے ہوائی جہاز زمین پر اتارنے اور توانائی کے شعبے کے لیے ایک دیوہیکل مقناطیسی طوفان کی تیاری کے پیش نظر قومی گرڈ کی دیکھ بھال اور پاور ڈاؤن کرنے کے لیے محض آدھے گھنٹے کا وقت ہوتا ہے
ایسا اس لیے ہے کہ جب مقناطیسی قوتوں کی قطبیت متضاد ہو تو وہ تباہ کن نتائج کا امکان رکھتی ہے
تب ویسا ہونا تقریباً یقینی ہے، جیسا ’کیرنگٹن ایونٹ‘ جیسے بہت ہی کم لیکن شدید اثرات کے حامل واقعات کے دوران ہوتا ہے۔۔ زمین کا مقناطیسی میدان سینکڑوں ہزاروں میل تک خلا میں کھنچا جاتا ہے، جو پھر ایک بہت بڑی لچکدار ربڑ کی طرح زور سے واپس پلٹتا ہے اور اس عمل کے دوران دھماکہ خیز طریقے سے مقناطیسی توانائی کا ریلا زمین کی سطح، تاروں کی پاور لائنز اور قومی گرڈز کے ٹرانسفارمروں تک جا پہنچتا ہے
اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ قومی گرڈز میں ڈی سی کرنٹ متعارف کروا دیا جائے، جو ایک اے سی نیٹ ورک کو چلا سکے۔ 1989ع میں ’کیرنگٹن ایونٹ‘ سے کہیں چھوٹے جیو میگنیٹک طوفان نے کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں برقی گرڈ کو ناکام بنا دیا تھا، جہاں اگلے نو گھنٹے تک نو ملین افراد اندھیرے میں ڈوبے رہے اور اس قلیل مدتی خلل سے معیشت کو تیرہ بلین ڈالر کی زک پہنچی۔ ’کیوبیک‘ کا واقعہ ’کیرنگٹن‘ کی نسبت کہیں زیادہ معمولی تھا
انشورنس مارکیٹ لائیڈز آف لنڈن نے 2012ع کے چُوک جانے والے طوفان کے تناظر میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں عالمی انشورنس انڈسٹری کو شمالی امریکہ کے اس برقی گرڈ پر شمسی طوفان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خاص طور پر مقناطیسی طوفان کی زوردار لہروں کے سامنے بے حد کمزور ہے
اس کے مطابق: ’خلائی موسم کا ایک شدید واقعہ کئی ہفتوں یا اس سے زیادہ عرصے تک بجلی کا تعطل پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے نقل و حمل، خوراک کی فراہمی، ایمرجنسی اور ہسپتال کے دیگر امور سمیت معاملات میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس طرح کی بنیادی خدمات کی عدم موجودگی وسیع پیمانے پر بدامنی، فسادات اور چوری چکاری کا باعث بن سکتی ہے، جس کے انشورنس انڈسٹری اور معاشرے کے لیے منفی اثرات ہوں گے
یہ اندازہ بھی لگایا گیا کہ اگر نو ناگزیر مقامات پر ٹرانسفارمر پھٹ پڑیں، تو امریکہ ایک ساحل سے دوسرے تک بجلی کی بندش کا سامنا کرے گا، جس کی میعاد کئی مہینوں تک جا سکتی ہے۔ پروفیسر لاک وڈ کے بقول تصور کیا جاتا ہے کہ برطانیہ کا نیشنل گرڈ قدرے زیادہ لچکدار ہے
لیکن رائل سوسائٹی آف انجینیئرنگ کی طرف سے خطرات کے لگائے گئے اندازوں کے مطابق صورتحال انتہائی خراب ہے، جہاں انگلینڈ اور ویلز میں چھ سپر گرڈ ٹرانسفارمرز (SGTs) اور اسکاٹ لینڈ میں مزید سات گرڈ ٹرانسفارمر متاثر ہو سکتے ہیں اور ان کی سروس معطل ہونے کے خدشات ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ اضافی ٹرانسفارمر کی دستیابی کی صورت میں بالعموم آٹھ سے سولہ گھنٹے لگتے ہیں، بجلی کی فراہمی میں خلل واضح خطرہ ہے
پروفیسر لاک وڈ بتاتے ہیں کہ ممکنہ طور پر بجلی کی بحالی کا کام سب سے پہلے بڑے شہروں میں شروع ہوگا سو ’ساحلی علاقوں میں طویل مدتی خلل کا اندیشہ ہے جہاں بالخصوص پاور گرڈ کے چاروں طرف ٹرانسفارمر کمزور ہوتے ہیں۔‘ سمندری پانی کی زیادہ قوت ترسیل کے سبب ساحلی ٹرانسفارمر یوں بھی زیادہ خطرے کی زد پر ہیں
ٹرانسفارمروں کی تبدیلی کے دوران قومی گرڈ کے بیشتر حصے کی کسی بھی طویل عرصے کی بندش ہمارے لیے شدید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یہ خلل عالمی سطح پر ہوا تو سپلائی چین پر ہمارا حد سے زیادہ ’عارضی‘ انحصار حالیہ وبائی امراض کے مقابلے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہو گا کیونکہ تیل کی سپلائی میں ناگریز رکاوٹ زیادہ تر ٹینکروں کو بندرگاہوں تک محدود کر دے گی۔ سپر مارکیٹ کے شیلف دنوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔ لائیڈز آف لنڈن کی رپورٹ بالخصوص شمالی امریکہ کے پانی کی صفائی کے لیے قائم مراکز کی ممکنہ ناکامی، پانی کی قلت اور صفائی ستھرائی کے مسائل کی نشان دہی کرتی ہے، جن سے ایسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں جو ہمارے خیال میں انیسویں صدی تک محدود تھیں
لیکن ’کیرنگٹن‘ کی سطح کے واقعے کے دوبارہ رونما ہونے کے لیے بہت سارے متغیّرات کو اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ ایک سلسلے کا روپ دھارنا پڑے گا۔ شمسی طوفان کو مدار میں نہ صرف غلط وقت پر ہمارے سیارے کو جا لینا ہوگا بلکہ اپنی غیر معمولی وسعت اور تیز رفتاری کے ساتھ قطبیت کا خیال رکھتے ہوئے ایسا مقام بھی تلاش کرنا ہوگا، جہاں سے ہمارے مقناطیسی دفاع کو توڑا جا سکے۔ یہ سب ممکن نہیں لگتا
لیکن پروفیسر لاک وڈ نے میری خوش فہمی دور کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی، ”برف کی تہوں میں پائے جانے والے ’آئسوٹوپ اسپائکس‘ اور درختوں کے افزائشی حلقوں سے حاصل کردہ مصدقہ شواہد ہماری پوری تاریخ میں دیوہیکل مقناطیسی واقعات کا سراغ فراہم کرتے ہیں“
پروفیسر لاک وڈ محتاط رہتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ آئیسوٹوپ کا ثبوت محض ’پراکسی ڈیٹا‘ ہے لیکن ریڈیو کاربن میں عالمی سطح پر اچانک مطابقت پذیر اضافہ خلائی موسم کے بڑے واقعات کے خطرے سے آگاہ کرتا اور 774، 1050، 1279، 1582، 1730 اور 1770 کے طوفانوں میں باقی رہ جانے والے شواہد سے مطابقت بھی رکھتا ہے
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ اور تاریخی ریکارڈز کا استعمال کرتے ہوئے لائیڈز آف لنڈن کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ کیرنگٹن کی سطح کے واقعے کے لیے ڈیڑھ سو معقول مدت ہے، سو اس پیمائش کے مطابق ہم تیرہ برس کا ’اچھا خاصا‘ فاصلہ اور بھی طے کر آئے ہیں
’کیرنگٹن ایونٹ‘ بدترین صورتحال کا متبادل بن چکا ہے لیکن یاد رہے کہ ریکارڈ ماضی میں بس یہاں تک رسائی دیتا ہے ورنہ اس سے پہلے تقریباً یقینی طور پر دیوہیکل مقناطیسی طوفان آ چکے ہیں
774 کا واقعہ ایک واضح دعوے دار ہے، بعض اوقات ’میاکے ایونٹ‘ کے نام سے یاد کیے جانے والے اس واقعے نے کاربن 14 میں اب تک کا سب سے بڑا اور تیز رفتار اضافہ کیا ہے اور فن لینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے دور دراز مقامات پر درختوں کے حلقوں سے اکٹھے کیے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یقیناً عالمی واقعہ تھا
وبائی امراض اور خلائی موسم کی شدت جیسے بہت کم لیکن دور رس اثرات کے حامل واقعات کے ساتھ یہ مسئلہ ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ سول ایمرجنسی پلاننگ کی محدودات اور مرکزی و مقامی حکومتوں کے درمیان روابط کے انقطاع کا پردہ چاک کر دیتے ہیں
برطانوی حکومت کی طرف سے 2015ع میں شائع ہونے والی ’خلائی موسم کی تیاری کی حکمت عملی‘ ایک مختصر سی دستاویز ہے۔ ڈامینک کمنز نے اپنی زندگی لوگوں کو ایسی چیزیں بتانے میں کھپا دی، جو وہ بالکل بھی نہیں سننا چاہتے۔ جون 2021ع میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے وبائی مرض سے سبق سیکھنے کے حوالے سے ثبوت فراہم کرتے ہوئے کمنز نے خصوصی طور پر برطانیہ کی خلائی موسم کی ناکام منصوبہ بندی پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ”موجودہ حکومت کا منصوبہ مکمل طور پر مایوس کن ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم سب کووڈ سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا کریں گے“